آئین پر بالادست'' ایک پیج'' ؟

وزیر اعظم عمران خان نے اسلام آباد میں بھارتی صحافیوں سے گفتگو اور سوالات کے جواب میں بھارت سے مزاکرات شروع کرنے پر اصرار کے اندازمیں زور دیا اور کہا کہ بھارت کے آئندہ سال کے الیکشن کے بعد دونوں ملکوں کے درمیان مزاکرات شروع ہونے ضروری ہیں۔مسئلہ کشمیر کو دونوں ملکوں کے درمیان بنیادی مسئلہ قرار دیتے ہوئے انہوں نے کہا کہ اگرمسئلہ کشمیر کو بڑی تصویر میں دیکھا جائے تو اس مسئلے کو حل کیا جا سکتا ہے۔ مزاکرات شروع کرنے کے لئے بھارت کی پیشگی شرائط سے متعلق بھارتی صحافیوں کے سوالات کے جواب میں وزیر اعظم عمران خان نے کہا کہ دونوں ملکوں کو ماضی میں جائے بغیر مزاکرات شروع کرنے چاہئیں۔مزید کہا کہ میں جو معاہدہ کروں گا،اس پرعملدرآمد ہو گا۔وزیر اعظم عمران خان نے بھارتی صحافیوں کے اس متعلق کسی سوال کے بغیر اس بات پر زور دیا کہ اب پاکستان میں فوج اور حکومت'' ایک پیج'' پر ہیں۔انہوں نے کہا کہ پاکستان میں اس بارے میں اتفاق رائے موجود ہے کہ آگے بڑہنے کا واحد راستہ امن اور اچھے تعلقات کے قیام میں ہے،کرتا پورہ کالیڈور قائم کرنے کے اقدام کا پاکستان میں وسیع پیمانے پر خیر مقدم کیا گیا ہے۔سابق حکومت کی دور میں بھی پاکستان کی یہی پالیسی تھی کہ بھارت پاکستان کے ساتھ مزاکرات پر آمادہ ہو۔تاہم اس حوالے سے اس وقت کے وزیر اعظم نوازشریف کی کوششوں کو'' ہندوستان سے یاری ،پاکستان سے غداری '' قرار دیتے ہوئے ملک میں اس بیانیہ کی بھر پور مہم بھی چلائی گئی۔

اس حقیقت کا بیان کوئی نئی دریافت نہیں ہے کہ پاکستان اور ہندوستان کے درمیان اچھے تعلقات کا قیام جنوبی ایشیا اور اس سے ملحقہ خطوں کی ترقی اور خوشحالی کے لئے ناگزیر ہے۔سابق غاصب حکمران جنرل پرویز مشرف کے دور حکومت میں پاکستان کی طرف سے مقبوضہ کشمیر میں آزادی کی مسلح جدوجہد سے لاتعلقی کا اظہار کرتے ہوئے ثبوت کے طور پر آزاد کشمیر سے کشمیری فریڈم فائٹرز کے کیمپ بند کرنے اور بھارت کولائین آف کنٹرول پر باڑ تعمیر کرنے کی اجازت کے اقدامات سے، اس حوالے سے بھی بھارت کی حوصلہ افزائی ہوئی کہ پاکستان پر دبائو ڈالنے اور سبز باغ دکھانے سے پاکستان کو مسئلہ کشمیر پر مزید سے مزید پسپائی کے اقدامات پر مجبور/مائل کیا جا سکتا ہے۔یہی وجہ سے کہ اس کی طرف سے مسلسل مزاکرات کے لئے پیشگی شرائط عائیدکی رہی ہیں۔

پاکستان کی کشمیر پالیسی کا منبع کیا ہے اور کہاں ہے؟ کمتر درجے کی حاکمیت کی حامل پارلیمنٹ تو ہر گز نہیں ہے،ملک کے بنیادی نوعیت کے اہم فیصلوں،پایسی سازی میں پارلیمنٹ کا اختیار ربڑ سٹیمپ سے زیادہ نہیں ہے۔اسلام آباد میں کشمیر کے حوالے سے ہونے والی تقریبات/بیانات میں مقبوضہ کشمیر میں ہونے والے بھارتی مظالم کا تذکرہ کیا جاتا ہے اور ساتھ یہ یقین دہانی بھی کرائی جاتی ہے کہ کشمیریوں کی جدوجہد اور قربانیوں کا سلسلہ جاری رہے گا۔تحریک آزادی کشمیر اور مسئلہ کشمیر کے حل سے متعلق پاکستان کی ذمہ داریاں کیا ہیں؟ کیا ہونی چاہئیں ،اس بارے میں کوئی بات سننے میں نہیں آتی۔موجودہ حکومت سے پہلے تک یہی کہا جاتا تھا کہ پاکستان کشمیریوں کی سیاسی،سفارتی اور اخلاقی حمایت جاری رکھے گا لیکن اب محض پاکستان کی طرف سے کشمیریوں کی وکالت کی بات ہی کی جاتی ہے۔ کشمیریوں کی سیاسی،سفارتی اور اخلاقی حمایت کے اقدامات کیا ہیں اور کیا ہونے چاہئیں ،اس بارے میں پاکستان میں کوئی بھی جوابدہ نہیں ہے اور نہ ہی اس موضوع پر کوئی بات کرنا پسند کرتا ہے۔

وزیر اعظم عمران خان کو بھی انڈین صحافیوں کو یہ بتانا پڑا کہ اب پاکستان میں فوج اور حکومت ایک پیج پہ ہیں ۔فوج اور حکومت کے ایک پیج پر ہونے کی تکرار تو کی جارہی ہے لیکن یہ نہیں بتایا جا رہا کہ ملک میں آئین کے ہوتے ہوئے ایک ایسے پیج کی تخلیق کیوں ناگزیر ہے جس پر فوج اور حکومت کو یکساں دکھایا جا رہا ہے اور یہ کہ جس پیج پر فوج اور حکومت ایک ہیں ،وہ پیج کس کا تحریر کردہ ہے؟کیا ملکی اداروں کے درمیان آئین میں طے شدہ تقسیم کار اور اطاعت کے پیمانے ناکافی ہیں جو آئین پر بالادست '' ایک پیج'' کی تخلیق کرتے ہوئے اسے غیر تحریری آئین کا درجہ دے دیا گیا ہے؟فوج اور حکومت کے ایک پیج پر ہونے کی باتوں سے ملک میں تو شاید سیاسی مقاصد حاصل کئے جا سکتے ہوں لیکن عالمی سطح پر فوج اور حکومت کے ایک پیج پر ہونے کی بات حکومت کے کردار کی کمزوری کو متعارف کراتی ہے اور اس بات کا مزید ایک ثبوت فراہم کرتی ہے کہ پاکستان میں تمام معاملات فوج کے ہاتھوں میں ہی ہیں اور ان امور میں فوج سویلین مشاورت کی قائل نہیں ہے۔حکومت کا یہ کہنا کہ اب کی بار فوج اور حکومت ایک پیج پر ہیں،حکومت کی طرف سے اپنے حق میں'' این او سی'' دکھانے کے مترادف ہے اور اسی سے حکومت کے اختیار کا واضح طور پر اندازہ ہو جاتا ہے۔

یہ بنیادی اہمیت کا حامل سوال ہے کہ آئین کے ہوتے ایسے ایک پیج کی ضرورت کیوں جس پر ہر شعبے سے متعلق بات کرتے ہوئے بار باریہ یقین دلا نے کی کوشش کرنا پڑتی ہے کہ اب کی بار حقیقی طور پر ہر معاملے میں فوج اور حکومت'' ایک پیج ''پر ہیں۔''ایک پیج ''کی اصطلاح کا استعمال پیپلز پارٹی کی زرداری حکومت سے لیکر نواز شریف کے دور حکومت سے اب تک مسلسل جاری ہے۔تاہم موجودہ حکومت کی طرف سے اس بات پر بہت زور دیا جا رہا ہے کہ اب حقیقی طور پر فوج اور حکومت ایک پیج پر ہیں۔اس بات کو ایک معمہ بنا دیا گیا ہے کہ ملک میں آئین کے ہوتے ہوئے ایسا'' ایک پیج'' تشکیل دینے کی ضرورت کیوںپیش آئی اور آئے روز مختلف حوالوں سے گفتگو کے دوران کیوں بار بار یہ یقین دلانے کی کوشش کی جاتی ہے کہ حکومت اور فوج ایک پیج پر ہیں؟سابق دو حکومتوں میں بھی '' ایک پیج'' پر ہونے کی بات پورے یقین سے کی جاتی تھی۔ یہ سمجھنا ذرا بھی مشکل نہیں کہ جس پیج پہ فوج اور حکومت ایک ہیں ، اس '' ایک پیج'' میں کیا تحریر ہے۔1973ء میں تشکیل پانے والا آئین،بھٹو،جنرل ضیاء سے لیکر جنر ل مشرف اور اس کے بعد کی جانے والی ترامیم سے گزرا اور اب مزید ترامیم سے چند سال پہلے کی جانے والی ترامیم کے اثرات ختم کئے جانے کے امکانات بھی ظاہر ہو رہے ہیں۔یہاں یہ بات بے محل نہیں کہ جنرل ضیاء اور جنرل مشرف کے غاصبانہ و آمرانہ ادوار میں کی جانے والی آئینی ترامیم کو بھی جائز قرار دیتے ہوئے ان غیر قانونی حکومتوں کے قیام کو ملکی سیاست کی طرف سے تسلیم کیا جانا، پارلیمنٹ کی حقیقی بالادستی کے تصور کے لئے شدید نقصانات پر منتج ہو رہا ہے۔

Athar Massood Wani
About the Author: Athar Massood Wani Read More Articles by Athar Massood Wani: 770 Articles with 616527 views ATHAR MASSOOD WANI ,
S/o KH. ABDUL SAMAD WANI

Journalist, Editor, Columnist,writer,Researcher , Programmer, human/public rights & environmental
.. View More