سولہ دسمبر۔۔۔ملک کی سرحدوں اور اس کے مستقبل کو محفوظ بنا ناہے

16 دسمبر لگتا ہے پاکستان کی تاریخ میں دو ہی بار آیاہے اور اس نے قوم کوتوڑ دیا اسے بے بس کرنے کی ایسی کوشش کی گئی کہ کچھ عرصے کے لیے تو ہر شخص سکتے میں آگیا۔ ایک16 دسمبر1971جب دشمن سالہا سال کی کوششوں اور سازشوں کے بعد آخر کار پاکستان کو دو لخت کرنے اورمشرقی پاکستان کو الگ کرنے میں کامیاب ہو گیا ۔وہی مشرقی پاکستان جہاں مسلم لیگ کی بنیاد رکھی گئی ،وہی مشرقی پاکستان جہاں بنگالیوں نے ڈٹ کر ہندؤں کا مقابلہ کرتے ہوئے جانیں دے کر تحریکِ پاکستان چلائی اور تاریخ کاپا نسا پلٹ کر پاکستان بنایاوہی پر پاکستان توڑ دیا گیا، قوم کا جسم ٹوٹا اوراس کا حوصلہ بھی ، دشمن کی سازش تھی یا اپنی قیاد ت کی غلطی مگر صدمہ قوم نے سہا اور بڑے عرصے میں اور مشکل سے خود کو اس سکتے کی حالت سے نکالا اور ایک بار پھر تنتالیس سال بعد 2014 میں16 دسمبر آیا اور دشمن نے ہمارے اعصاب اور ہماری شہ رگ پر حملہ کیا ، وہ بچے جو ہمارے وجود میں خون کی طرح دوڑ کر ہمیں زندہ رکھتے ہیں ہمیں ہمارے ہونے اور ہماری بقاء کا احساس دلاتے ہیں دشمن اُن پر حملہ آور ہوا اور ہماری زندگی چھیننے کی کوشش کی گئی ۔ پوری قوم درد کے مارے چیخ اُٹھی، یہ حملہ جو اے پی ایس پشاور پر کیا گیا معصوم بچوں، ان کے اساتذہ اور دیگر عملے کو شہید کیا گیا،ان بچوں کی شہادت پر تو ہرشخص سکتے میں تھا اورکوئی ایک دوسرے کو حوصلہ دینے کا حوصلہ بھی نہ رکھتا تھا۔ اس قوم نے خوشیاں تو بہت بار مل کر منائی ہیں لیکن یوں ہر آنکھ اکٹھے کیا روئی ہو گی اور قوم کیا اس بار تو پوری دنیا رو پڑی ۔یہ معصوم لاشے دیکھنا کسی کے بس کی بات نہ تھی ہسپتالوں میں پڑے تابوتوں کی قطاریں جن میں بارہ تیرہ سال سے لیکر سترہ اٹھارہ سال کے روشن ستاروں کے بجھے ہوئے وجود پڑے تھے، ماں باپ کے نا اُمید چہرے ،مایوس سانسیں اور ہر باخبر شخص کی آنکھ میں آنسو۔ ایک ایسا دن ایسی رات جو اللہ تعالیٰ نہ کرے کبھی اس قوم پر دوبارہ نہ آئے۔ اس سولہ دسمبر کو ایسا کاری وار کیا گیا کہ بظاہر مندمل ہونے کے کوئی امکانات نہ تھے لیکن پھر اس قوم نے خودکوسنبھالنے کی کوشش کی اور شاید 1965 کی جنگ کے بعد پہلی بار دشمن کے سامنے یوں متحد ہو کر ڈٹ گئی۔اس بار کا حملہ دہشت گردوں سے کروادیا گیا تھا اور پہلی بار خود کیا گیا تھا۔پاکستان اپنے قیام کے پہلے دن سے ہی پڑوسی کی سازشوں کی زد میں ہے۔اس کے وجود کو جس طرح پہلے دن تسلیم نہیں کیا گیا آج بھی وہی صورت حال ہے ہاں طریقہ ہائے واردات بدلتے رہتے ہیں۔پہلے اُس نے مشرقی پاکستان تک آسان پہنچ کا فائدہ اٹھایا اور سالوں وہاں کام کیا اپنے مطلب کے لوگ تلاش کیے ، ہمارے حکمرانوں کی کمزوریاں بھانپیں ان کی حکومت حاصل کرنے کی حرص اور لالچ کا اندازہ لگایا اور پھر ان تمام عوامل کو خوب استعمال کیا۔عام لوگوں کے دلوں میں بدگمانیاں پیدا کیں ، نفرتوں کو ہوا دی ،ان نفرتوں کو دشمنی میں تبدیل کرنے پر کام کیا اور انہیں ایک دوسرے کے خلاف لا کھڑا کیا اور کچھ اس طرح سے ایک دوسرے کے مقابل لا کھڑاکیا کہ معاملہ علحدگی پر منتج ہوا۔ باقاعدہ ایک علحدگی پسند فوج مکتی باہنی کی تربیت گئی جس نے مشرقی اور مغربی پاکستانیوں کا قتلِ عام کیا ۔خود بھارت نے کھلم کھلا فوجی مداخلت کی اور اس کی وزیراعظم اندرا گاندھی نے اپنی فتح کا اعلان کیالیکن ایسا پھر بھی نہیں ہوا کہ سازشیں رُک گئی ہوں۔پاکستان مخالفت جاری رہی ایٹم بم بن بنا تو اس کے خلاف، اسلحہ کے ڈھیر لگائے تو اس کے خلاف، اسی کے دریاؤں کا پانی روکا گیا، معاہدے کے باوجود اس کے حصے کے دریاؤں پر بند باندھ کر اس کے میدانوں کو بنجر بنانے کے منصوبے شروع کیے گئے۔ بات یہاں بھی آکر نہیں رُکی اور دہشت گرد کاروائیوں میں بھی دیگر دشمن ملکوں اور اداروں کا خوب ہاتھ بٹایا جانے لگا۔شمال مغرب میں افغانستان میں کام کے بہانے آتر آیااور یہاں موجود پاکستان دشمن عناصرکو ہر قسم کی مدد فراہم کرنے لگا۔پاکستان کی کی سرحد پر موجود اسکے قونصل خانوں کی لمبی قطارکا دوسرا مقصدنظر نہیں آتا سوائے اس کے کہ وہ پاکستان دشمنوں کی پُشت پر اُن کی مدد کے لیے موجود رہے اور یہی وجہ ہے کہ پاکستان میں موجود دہشت گردی کی لہر نے اتنا طول پکڑا ۔کبھی یہ دہشت گردخیبر پختونخواہ کی طرف سے در آتے ہیں اور کبھی بلوچستان کی سمت سے،مشرق سے تو بھارت خود سرحدوں کے ساتھ رہنے والی پاکستانی آبادی پر بلا اشتعال حملہ آور ہوتا رہتا ہے لیکن دہشت گردوں کے ذریعے وہ اور اُس کے حلیف جن میں آج کل افغانستان پیش پیش ہے اپنی کاروائیاں کرتے رہتے ہیں۔ یوں وہ سامنے بھی نہیں آتے اور اپنا مقصد بھی حاصل کر لیتے ہیں اور ایسا ہی ایک بزدلانہ حملہ اے پی ایس پشاور پر کیا گیامعصوم بچے ،ان کے اساتذہ اور سکول کا دوسرانہتا سٹاف بغیر کسی تخصیص کے شہید کر دیا گیا، نہ بچوں کی معصومیت کو دیکھا گیا نہ اساتذہ کے تقدس کو۔بچے ،اساتذہ ،چوکیدار ، مالی ، کلرک،پرنسپل جو راہ میں آیا شہید کر دیا گیا۔ایسا کڑا اور مشکل وقت شاید ہی کسی قوم نے دیکھا ہو اور ایسا ظلم شاید کسی ظالم نے کبھی کیا ہولیکن یہ دہشت گرد انسانیت کے کسی درس سے آشنا ہوں تو انسانیت دکھائیں انہیں تو ان کے خونخوار آقاؤں نے جو حکم دیا وہ انہوں نے پورا کیا۔اس وحشت ناک حملے کے لیے بھی سولہ دسمبر کی تاریخ چنی گئی وہ دن وہ تاریخ جس سے ایک سیاہ دن کی یاد وابستہ ہے دشمن نے اس دن کو اپنی فتح کا دن سمجھا اور اسے اس بر بریت سے منایا۔اس کے باوجود پاکستان پر دہشت گردی کا الزام لگایا جاتا ہے جب کہ سب سے زیادہ پاکستان ہی اس عفریت سے متاثر ہے اور اس کی وجہ بھی صاف ظاہر اور ثابت ہے کہ اس کی سرحد پر بھارت جیسا دشمن موجود ہے۔ ایسا بھی نہیں ہے کہ بھارت ایک پاکستان کے خلاف ہی بر سر پیکارہے اور سازشوں میں مصروف ہے وہی بنگلہ دیش جس کا بھارت اصل بانی ہے اُس سے بھی اُس کے سرحدی تنازعات چلتے رہتے ہیں، چین کے ساتھ ارونا چل پردیش اور اکسائی چن میں اُس کی باقاعدہ سرحدی جھڑپیں ہوتی رہتی ہیں، نیپال کے ساتھ کالا پانی کے جزائر پر اس کے تنازعے، سری لنکا کے تامل ناڈو میں اُس کی مداخلت اور خود اُس کے اپنے ملک میں چلنے والی بے شمار آزادی کی تحریکیں اُس کا گھناؤنا چہرہ دکھانے کے لیے کافی ہیں۔کشمیر میں اس کے مظالم اُس کے بھیانک کردار کی ایک اور کہانی ہے۔پاکستان میں چلنے والی مسلسل دہشت گردی میں اُس کا ’’را‘‘ ملوث ہے اور 16 دسمبر 1971 اور16 دسمبر2014 جیسے بے شمار واقعات اس کی کارستانی ہیں۔کلبھوشن اگر اس کا ایک مہرہ ہے تو فضل اللہ اور حکیم اللہ اس کے دوسرے کارندے۔اگر مشرقی پاکستان اس کا شکار ہے تو اے پی ایس کے معصوم بچے بھی اسی کی سازش کا نشانہ ۔پاکستان ان تمام سازشوں کا مقابلہ تو کر رہا ہے جو کبھی بالواسطہ اور کبھی بلاواسطہ اُس کے خلاف کی جارہی ہیں لیکن ان بیرونی سازشوں سے بچاؤ کے لیے اندرونی مضبوطی اور اتحاد و اتفاق بھی انتہائی ضروری ہے تاکہ پھر کوئی مہرہ مشرقی پاکستان کو بنگلہ دیش بنانے میں اُس کا مدد گار نہ ہو اور نہ ہی کوئی سہولت کار سکول کے معصوم بچوں تک اُسے رسائی دے۔ ہمیں اس ملک کی سرحدوں کو بھی محفوظ بناناہے اور اس کے مستقبل کو بھی اور اس کے لیے بھی ہمارا آپس کااتحاد و اتفاق سب سے بڑی ضرورت ہے اور بیرونی دشمنوں کے خلاف بھی اور یہی ہتھیار ہے جو ہماری فتح مندی کی ضمانت ہے۔
 

Naghma Habib
About the Author: Naghma Habib Read More Articles by Naghma Habib: 514 Articles with 509668 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.