کشمیر و فلسطین اور منافع پرست عقل

اپنے گردوپیش میں موجود زرق و برق پرایک نگاہ ڈالئے، دنیا کس قدر مجلل ، خوبصور ت حسین اور دلکش ہے،انسانوں نےسمندروں میں جزیرے آبادکر لئے ہیں، جنگلوں میں شہر بسالئے ہیں، شہروں میں پارک بنا لئےہیں ، پارکوں میں چڑیاگھر اورچڑیا گھروں میں انواع و اقسام کے چرندپرندلاکر بٹھا دئیے ہیں۔

صرف یہی نہیں بلکہ تبدیلی دل کے آپریشن سےلے کر متعدد مہلک بیماریوں کے علاج تک انسان ہر طرف کامیاب و کامران نظر آرہا ہے۔ جہاں ایک طرف زمین آباد ہوری ہے وہیں لمحہ بہ لمحہ جدید ٹیکنالوجی اور ماڈرن علوم سےلیس بھی ہو رہی ہے۔مزے کی بات یہ ہےکہ یہ سارےکام نفع بخش ہیں اوربڑی بڑی کمپنیاں ،ملک اور تاجر اسطرح کےکاروبارکرکےمسلسل منافع کمائےجارہےہیں،البتہ یہاں پریہ سوال بھی ابھرتا ہےکہ کیا عقل کا کام فقط منافع اور پیسے کمانا ہی ہے!؟

کیا یہ انسانی عقل جو خوردبین سےلے کر سیٹلائٹ تک کو ایجاد کرسکتی ہے، مہلک بیماریوں پر قابو پاسکتی ہے، مہلک ترین ہتھیار ایجاد کر کے ان کا توڑ پیش کرسکتی ہے، کیا یہ انسانی عقل اگر چاہے تو انسانی سماج کے باہمی مسائل خصوصاً کشمیر اور فلسطین کے مسئلے کو حل نہیں کر سکتی۔

کیا دنیا میں بسنے والے اربوں انسان!کشمیر اور فلسطین میں بوڑھوں، بچوں، عورتوں، زخمیوں اور مہاجرین پرہونے والے ظلم کی کراہت کو محسوس نہیں کرسکتے!

ہاں! انسانی عقل کا پست ترین مقام وہ ہے جب انسانی عقل خواہشات ولذتوں کی اسیرہوجاتی ہےاوراچھائی وبرائی کی تمیز کھو دیتی ہے۔ ممکن ہے ایک شخص جسمانی طور پرکشمیر یا فلسطین میں پیدا ہوا ہو لیکن اس کی عقل مادی منافع اور دنیاوی لذتوں کی اسیر ہو کر آزادی اور غلامی کے درمیان فرق کرنے سے قاصر ہوجائے اوریہ بھی ممکن ہے کہ ایک شخص ہندوستان یا اسرائیل میں پیدا ہو لیکن وہ عقلی اعتبار سے مادی منافع اور دنیاوی لذتوں کا اسیر ہونے کے بجائے آزادی اور غلامی کے درمیان تمیز اور فرق کا قائل ہو۔

آج کشمیر اور فلسطین کی غلامی کی ایک بڑی وجہ یہ بھی ہے کہ مشرق و مغرب سے ہٹ کر خود کشمیر اور فلسطین کے بہت سارے سیاستدان، اچھائی اور برائی، آزادی اور غلامی کے درمیان فرق اور تمیز کے قائل ہی نہیں ہیں۔باقی دنیا سے کیا گلہ، خود بعض کشمیری اوربعض فلسطینی سیاستدان بھی اپنے اپنے منافع اور کمائی کے پیچھے ہیں۔یہ لوگوں کے بچوں کی لاشوں پر سیاست کرتے ہیں، نعروں کے درمیان ظاہر ہوتے ہیں اور پریس کانفرنسیں کر کے غائب ہو جاتے ہیں۔

ایسے میں ایک عام کشمیری اور فلسطینی اس کے سوا اور کیا کر سکتا ہے کہ وہ پتھر لے کر ٹینک کے سامنے آجاتاہے۔

انسانی تحریکوں کا خطرناک موڑ وہ ہوتا ہے جب ان کی معقول جدوجہد کا راستہ بند کر دیا جاتا ہے۔تقریباًاس وقت فلسطینی اور کشمیری اسی صورتحال سے دوچار ہیں۔اگر ہم دنیا کوکسی بڑے انسانی المیے، تصادم اور نقصان سے بچانا چاہتےہیں تو ہم سب کو اپنی سوچ اور فکر کو تبدیل کرنا ہوگا۔منافعے اور پیسے کی دوڑ میں مگن ہر مشرقی و مغربی انسان کو اچھائی اور برائی،ظالم اور مظلوم نیز آزادی اور غلامی میں فرق کرنا ہوگا اور یہ ماننا ہوگا کہ آزادی ہر انسان کا فطری حق ہے ،جس سے کسی کو زبردستی محروم نہیں کیا جا سکتا۔

کشمیر اور فلسطین کا مسئلہ پیدا کرنے، اس مسئلے کو جدید اسلحے کی آنچ دینے اور مزید الجھانے والوں کے لئے بھی بہتر یہی ہے کہ وہ ان مسائل کے حل کے سارےمعقول دروازے کھول دیں۔ورنہ اپنے گردوپیش میں موجود زرق و برق پرایک نگاہ ڈالیں، یہ خوبصورت دنیا بارود کے ڈھیر پر کھڑی ہے۔اس خوبصورت دنیا میں اسلحے کےمنافع خورڈیلروں کویہ یاد رکھنا چاہیے کہ اگر ان مسائل کا کوئی معقول حل نہ نکالا گیا تو اب کی بار شاید نہ کوئی اسلحہ بیچنے والا باقی رہے اور نہ خریدنے والا۔

بے شک مغربی دنیا آج ان مسائل کی وجہ سے طرح طرح کا مالی و مادی منافع کما رہی ہے لیکن اب یہ مسائل اس حد تک گھمبیر ہو چکے ہیں کہ ان کے حل نہ ہونے کی صورت میں مغرب کو بھی اس کا خمیازہ بھگتنا پڑے گا۔۔۔

آج کے لئے اتنا کافی ہے کہ مغربی منافع پرست عقل جو ہرمسئلے میں اپنا منافع ڈھونڈتی ہے، اب وقت آگیا ہے کہ وہ اگلے چند سالوںمیں ان مسائل کے باعث اپنے متوقع نقصانات کا تخمینہ بھی لگا ئے۔ممکن ہے کچھ سالوں میں مغربی دنیا کےنقصانات کا تخمینہ ،مفادات سے زیادہ نکل آئے۔چونکہ مغربی دنیا کو ایک ادنی سا نقصان یہ بھی ہو سکتا ہے کہ دنیا کے نقشے پر اسرائیل کا وجود ہی نہ رہے۔۔۔اور دوسری طرف ہندوستان کو بھی روس کا انجام سامنے رکھنا چاہیے۔

nazar
About the Author: nazar Read More Articles by nazar: 115 Articles with 64773 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.