ہوا احتساب تو پھر ایک ہونے لگے ہیں زرداری و نواز

تحریک انصاف کی حکومت کے خلاف اپوزیشن کو متحد کرنے کے لئے مولانا فضل الرحمان خصوصی مشن پر ہیں۔انہوں نے سابق صدر آصف علی زرداری سے متعدد ملاقاتیں کیں جس میں انہوں نے نواز شریف سے ملاقات پر قائل کر لیا۔آصف علی زرداری اور مولانافضل الرحمان نے اپوزیشن جماعتوں کے خلاف جاری کارروائیوں پراظہارتشویش کیا اور مستقبل میں اپوزیشن جماعتوں کی حکمت عملی پر بھی مشاورت کی۔مولانا فضل الرحمان کی آصف زرداری اور نواز شریف کے درمیان دوریاں ختم کرنے کی بھی کوشش جاری ہے۔ گزشتہدنوں سابق وزیراعظم چوہدری شجاعت نے بھی بلاول بھٹو زرداری اور آصف زرداری سے ملاقات کی تھی۔ اس ملاقات میں مولانا فضل الرحمان بھی موجود تھے۔ آصف علی زرداری اور ان کی ہمشیرہ فریال تالپور پر جعلی بینک اکاونٹس کیس چل رہا ہے جبکہ شریف برادران کیخلاف کیسز بھی نیب میں ہیں۔ اپوزیشن جماعتوں کی خواہش ہے کہ متحد ہوکر حکومت کا مقابلہ کیا جائے جس میں اب تک وہ ناکام ہیں۔مولانا فضل الرحمان کی ملاقات کے بعد پیپلزپارٹی کے شریک چیئرمین آصف زرداری نے نواز شریف کے لیے خصوصی پیغام دیا، پی پی رہنما مخدوم احمد محمود نے کوٹ لکھپت جیل میں ملاقات کرکے پیغام پہنچایا۔ سابق وزیراعظم نواز شریف اور پی پی رہنما مخدوم احمد محمود کے درمیان ملاقات 15 منٹ تک جاری رہی، نواز شریف نے کھڑے ہوکر مخدوم احمد محمود کا استقبال کیا اور گلے ملے۔مخدوم احمد محمود نے نواز شریف کو آصف علی زرداری کا پیغام پہنچایا، ملاقات میں ملکی سیاسی امور اور مل کر چلنے سمیت اہم معاملات پر گفتگو کی گئی۔سابق وزیراعظم نواز شریف اور سابق صدر آصف علی زرداری کے مشرکہ دوست نے نواز شریف سے جیل میں ملاقات کی تھی۔نواز شریف سے ملاقت میں پیپلز پارٹی رہنما احمد محمود نے آصف زرداری کا پیغام نواز شریف تک پہنچایا اور کہا کہ آصف زرداری آپ سے جیل میں ملاقات کرنا چاہتے ہیں تاہم اب میڈیا رپورٹس میں بتایا گیا ہے کہ وہ نواز شریف اور آصف علی زرداری کے دوست دونوں رہنماؤں کو قریب لانے میں ناکام ہو گئے ہیں۔نواز شریف نے آصف زرداری سے ملاقات سے انکار کر دیا ہے۔نواز شریف کا کہنا ہے کہ اب ملاقات کا کوئی فائدہ نہیں جو برا وقت تھا وہ گزار لیا۔برے وقت میں ہمارا کسی نے ساتھ نہیں دیا۔ہم نے مقدمات بگھتے ہیں اب جیل بھی کاٹ لیں گے۔سابق اپوزیشن لیڈر خورشید شاہ نے کہا کہ اپوزیشن رہنماوں کے درمیان ملاقات ہونی چاہیے نواز شریف ابھی جیل میں ہیں، نواز شریف جب باہر آئیں گے تو زرداری سے ملاقات ہو جائیگی۔ احمد محمود نے آصف زرداری کا پیغام نواز شریف تک پہنچایا تاہم یہاں پر یہ سوال اٹھتا ہے کہ آخر آصف زرداری نے اس کام کے لیے احمد محمود کا انتخاب کیوں کیا؟۔اسی حوالے سے صحافی محمد علی درانی کا کہنا ہے کہ احمد محمود کی کوئی ایک پارٹی نہیں ہے وہ کبھی ن لیگ میں چلے جاتے ہیں تو کبھی پیپلز پارٹی اور کبھی پی ایم ایل ایف۔احمد محمود اسی طرح گھومتے رہتے ہیں ان کی چند سیٹیں ہیں جس کی بنیاد پر وہ سیاست کر رہے ہیں۔لیکن اس وقت ان کے شریف فیملی کے ساتھ ذاتی تعلقات ہیں اور وہ شہباز شریف کے قریبی دوست ہیں اور یہی بات دیکھتے ہوئے آصف علی زرداری نے نواز شریف کو پیغام پہنچانے کے لیئے احمد محمود کا استعما کیا۔ویسے چاہے زرداری احمد محمود پر اعتبار نہ کرتے ہوں پر اس موقع پر انہوں نے احمد محمود کو استعمال کیا اور نواز شریف تک پیغام پہنچایا۔تاہم ابھی تک یہ بھی واضح نہیں ہے کہ آصف زرداری کس کے لیے کام کر رہے ہیں اور وہ حکومت کے خلاف کام کرنا چاہتے ہیں یا نہیں۔ ایک وقت تھا کہ جب ن لیگی کو آصف زرداری کی مدد چایئیے تھی تاہم تب پیپلز پارٹی کے شریک چئیرمین نے کہا تھا کہ وہ ن لیگ کا ساتھ نہیں دیں گے اور اب پیپلز پارٹی پر مشکل وقت ہے تو آصف علی زرداری کو نواز شریف کی مدد اور حمایت کی ضرورت ہے۔صوبائی وزیر برائے اطلاعات و ثقافت فیاض الحسن چوہان کہتے ہیں کہ کراچی سے لیکر خیبر تک پورا پاکستان کسی کی میراث نہیں ہے نہ ہی کسی کو یہ اختیار حاصل ہے کہ وہ کسی صوبے یا شہر میں کسی پاکستانی شہری کے داخلے پر پابندی لگا سکے۔ سعید غنی صاحب جیسے سیاستدان جو زرداری صاحب اور ان کی مافیا کے فرنٹ مین کے طور پر کام کرتے رہے ہیں ان کو یہ حق کس نے دیا کہ وہ سندھ میں کسی کے داخلے پر پابندی لگا سکیں۔ان کا کہنا تھا کہ آلِ زرداری اور خود زرداری صاحب کے دو مسئلے ہیں ایک آیان علی اور دوسرا پتلی گلی۔ آیان علی سے رشوت خوری کرواتے ہیں اور رشوت خوری پکڑی جائے توپتلی گلی کا استعمال کرتے ہیں۔اب آیان علی تو باہر بیٹھی ہیں اور پتلی گلی ای سی ایل کی وجہ سے کام نہیں آ رہی۔اب زرداری صاحب کو مسئلہ ہورہا ہے اور انکی شدت سے خواہش ہے کہ انکا نام ای سی ایل سے نکلے اور وہ پتلی گلی کا استعمال کر سکیں۔ان کا مزید کہنا تھا کہ سعید غنی صاحب تو زرداری صاحب کے لیے پین کلر کا کام کرتے ہیں۔ وفاقی وزیراطلاعات ونشریات فواد چوہدری کا کہنا ہے کہ احتساب منطقی انجام تک پہنچے گا،ہرشخص کہتا ہے کہ کچھ لے دے کر معاملہ کریں،اگر کچھ لے دے کر ہی معاملہ ختم کرنا تھا تو پھر ہم نے وزیراعظم ہی کیوں بنانا تھا ، عمران خان واحد آدمی ہیں جس نے واضح کیا کہ کوئی سودے بازی نہیں ہوگی۔نواز شریف، زرداری سے معاملہ طے کرنے کیلئے شدید دبا وہے۔نوازشریف نے کاغذی کمپنیاں بناکر منی لانڈرنگ کی، زرداری نے بھی کاغذی کمپنیاں بنائیں، ان کی سات نسلوں میں کسی نے کام نہیں کیا، بیرون ملک جائیدادیں اور کمپنیاں بنائیں، یہاں آکر معصوم صورت بنالیتے ہیں، ہل میٹل،العزیزیہ کے نام پر اربوں روپے بیرون ملک لے گئے، حسن اور حسین نواز نے اربوں کی پراپرٹی بیرون ملک بنائی ہوئی ہیں ، حسن اورحسین نواز پاکستان آکر کہتے ہیں ہم تو یہاں کے شہری ہی نہیں، یہ کہتے ہیں نوازشریف سے اظہار یکجہتی کیلئے کوٹ لکھپت جیل پہنچے، کوٹ لکھپت جیل کے باہر پندرہ سے بیس لوگ نہیں تھے۔ آصف زرداری اورن لیگ ایک نئی تحریک شروع کرنے جارہے ہیں، کہتے ہیں ہم نے اربوں روپے غیرقانونی کمائے، اب عمران خان واپس لے رہا ہے، عوام سے کہتے ہیں ان پیسوں کو بچانے کیلئے ہمارے لیے باہر نکلیں، روزانہ باہر نکل کر نئی منطق پیش کی جارہی ہے، ہم نے ہر بات پر سمجھوتہ کرنا تھا تو عمران خان کو وزیراعظم بنایا ہی کیوں؟۔ معصوم بنے کہتے ہیں پاکستانی نہیں تو باہر پیسہ ملکہ برطانیہ سے رشتہ داری میں بنایا، احتساب اپنے منطقی انجام تک پہنچے گا، اسی لیے ان کی چیخیں آسمان تک جاتی ہیں، کبھی طبیعت توکبھی کہتے ہیں جیل میں ہیٹرخراب ہوگیا، نرم وملائم بستر پر سونے والوں سے آج حساب مانگا جارہا ہے۔ نواز شریف اور آصف زرداری کے خلاف معاملہ ختم کرنے کے لیے حکومت پر بہت دباو تھا، ہر شخص روز اٹھ کر کہتا ہے کہ اسمبلی بھی چلانی ہوتی ہے، ان دونوں سے کچھ لے دے کرکے معاملہ ختم کرو، بعض لوگ کہتے ہیں کہ ہاتھ ہلکا رکھو سیاست بہت تلخ ہوجاتی ہے، میں ان لوگوں سے کہتا ہوں کہ اگر کچھ لے دے کر سمجھوتہ کرنا تھا تو پھر ہم نے عمران خان کو وزیراعظم بنایا ہی کیوں ہے۔وفاقی وزیر اطلاعات نے مزید کہا کہ وزیراعظم عمران خان کسی کے دباو میں نہیں آئے اور نہ آئیں گے، وہ واحد آدمی ہیں جنہوں نے پارٹی کے اندر اور باہر یہ واضح کیا کہ کوئی سودے بازی نہیں ہوگی اور احتساب منطقی انجام تک پہنچے گا۔

Mehr Iqbal Anjum
About the Author: Mehr Iqbal Anjum Read More Articles by Mehr Iqbal Anjum: 30 Articles with 20174 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.