روداد یوم نفاذ اردو کی تقریب منعقدہ 26 فروری 2019

25فروری 2019ء یوم نفاذ اردو کے موقع پر تحریک نفاذ اردو نے قلم کاررواں،اسلام آباد کے تعاون سے ایک مذاکرہ کا انعقاد کیا گیا جس میں مختلف شعبہ زندگی سے تعلق رکھنے والے افراد نے شرکت کی۔

25 فروری 1948 کو بابائے قوم قائداعظم محمد علی جناحؒ نے مسلم کے پانچ روزہ اجلاس میں اردو کو پاکستان کی قومی اور سرکاری زبان قرار دیا تھا۔ جسے مشرقی اور مغربی پاکستان کے قائدین نے اتفاق رائے سے منظور کیا اور وزیراعظم لیاقت علی خان نے اسمبلی میں اپنے خطاب میں اس کا اعلان کیا اور اسمبلی نے اس کی توثیق کی۔تحریک نفاذ اردو پاکستان نے ستر سالہ تاریخ میں پہلی بار ''یوم نفاذ اردو '' منایا۔ اس سلسلے میں اسلام آباد، پشاور، لاہور، کراچی، ہارون آباد اور بھمبر میں تقریبات کا اہتمام کیا گیا۔

26 نومبر 2019 کو قلم کارواں اور تحریک نفاذ اردو پاکستان کے اشتراکے سے اسلام آباد میں یوم نفاذ اردو کی تقریب کا انعقاد کیا گیا۔ جس کی صدارت معروف دانشور اور سابق سیکرٹری پاکستان زرعی تحقیقاتی کونسل محمد اسلم الوری نے کی اور مہمان خصوصی ڈاکٹر عبدالودود قریشی مدیر روزنامہ ایشین نیوز اسلام آباد تھے۔ ممتاز کالم نگار عائشہ مسعود نے تقریب سے خطاب میں کہا کہ قومی زبان کو نفاذ کے جدوجہد قوم کو اعتماد دینے اور نئی نسل کو اپنی تہذیب سے جوڑنے کی جدوجہد ہے۔ اس تحریک میں نوجوان نسل کو شامل کیے بغیر مقاصد کا حصول ممکن نہیں۔ انہوں نے کہا کہ وہی قومیں ترقی کرتی ہیں جو اپنی زبان میں میں پڑھتی اور معاملات زندگی سرانجام دیتی ہیں۔ سید مطاہر علی زیدی، سیکرٹری تحریک نفاذ اردو پاکستان نے کہا کہ قومی زبان کی جدوجہد کا آغاز 2015 سے کیا گیا تھا، یہ سفر کٹھن اور صبر آزما ہے تاہم ناممکن نہیں۔ ہم محدو د وسائل کے ساتھ اپنی منزل کی طرف پیش قدمی کررہے ہیں، امید ہے جلد قوم کو نفاذ اردو کی نوید سنائیں گے۔ عطاء الرحمن چوہان صدر تحریک نفاذ اردو پاکستان نے کہا کہ بیوروکریسی اور حکمران طبقے نے قومی زبان سرکاری دفاتر اور قومی دہارے سے باہر رکھا ہوا ہے حالانکہ قائداعظم ؒ نے قیام پاکستان سے کئی سال قبل بابائے اردو مولانا عبدالحق کو یقین دلایا تھا کہ پاکستان کی قومی زبان اردو ہو گی۔ 25 فروری 1948 کوکراچی میں منعقدہ اجلاس میں اردو کو قومی زبان قرار دینے کا فیصلہ کیا گیا جس میں مشرقی اور مغربی پاکستان کے تمام نمائندہ قائدین شریک تھے۔ 1956 کے دستور میں بھی اردو کا مقام یہی رہا۔ 1962 کے دستور میں بھی اردو ہی قومی زبان قرار پائی اور 1973 کے دستور میں اردو کوقومی زبان قرار دیتے ہوئے پندرہ سال کی مہلت دی گئی کہ سارے نظام حکومت اور نظام تعلیم کو انگریزی سے اردو میں منتقل کردیا جائے۔ یہ مدت 1988 میں ختم ہو چکی لیکن ہنوز اردو کو سرکاری، دفتری اور تعلیمی زبان بنانے میں حکمران اور بیوروکریٹ حائل ہیں۔ عطائالرحمن چوہان نے کہا کہ قومی زبان کو جائز مقام دلانے کی جدوجہد کے لیے جنوری 2016 میں تحریک نفاذ اردو پاکستان کی بنیاد رکھی گئی، اس سے قبل ڈاکٹر شریف نظامی کیی قیادت میں پاکستان قومی زبان تحریک بھی 2011 سے نفاذ اردو کی جدوجہد کررہی تھی۔ کوکب اقبال ایڈووکیٹ نے 2002 میں نفاذ اردو کی عدالت جدوجہد کا آغاز کیا۔ جس پر 2015 میں چیف جسٹس جواد ایس خواجہ کی سربراہی میں قائم سپریم کورٹ کے عدالتی بینچ نے تاریخ ساز فیصلہ دیا۔ اس فیصلے میں فوری طور پر دستور کے آرٹیکل 251 پر عمل درآمد کی ہدایت کی گئی اور حکومت نے عدالت عظمیٰ کو تحریری یقین دہانی کروائی کے وہ نفاذ اردو کے لیے فوری اقدامات کرے گی۔ جسٹس جواد ایس خواجہ کی ریٹائرمنٹ کے بعد حکومت نے اردو کے نفاذ کو پھر سے پس پشت ڈال دیا۔ تحریک نفاذ اردو کے پلیٹ فارم سے ہم نے سابق اور موجودہ حکمرانوں اور اداروں کے سربراہان کو خطوط، یاداشتوں اور مراسلات کے ذریعے متوجہ کرنے کا کوئی موقع ہاتھ سے جانے نہیں دیا لیکن اس کے باوجود کوئی عملی پیش رفت نہیں ہوئی۔ اب دوبارہ سے عدالتی جدوجہد اور عوامی سطح پر نفاذ اردو کی جدوجہد شروع کررہے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ایک سازش کے تحت رومن اردو کو رواج دیا جارہاہے، جس کی پشت پر ملٹی نیشنل تجارتی کمپنیوں کا سرمایہ کام کررہا ہے تاکہ اردو کو اپنے اصل رسم الخط سے الگ کیا جائے، جیسے ترکی زبان کو اتاترک نے عربی رسم الخط سے کاٹ کر رومن سے منسلک کیا اور ترک قوم اپنی ادبی اور تہذیبی ورثے سے محروم ہو گئی۔انہوں نے کہا کہ نفاذ ارو و کے لیے پاکستان کے عوام کو تحریک آزادی جیسے جذبے اور قوت سے کھڑا ہونا پڑے گا تب انگریزی نے ناجائز تسلط سے نجات ملے گی۔ تقریب کے مہمان خصوصی ڈاکٹر عبدالودوقریشی نے کہا کہ قومی زبان کے نفاذ کے بغیر ترقی کا خواب دیکھنا جہالت ہے۔ پاکستان آج جس تعلیمی پسماندگی، معاشی ابتری اور سماجی گراوٹ سے دوچار ہے، اس کی بنیادی وجہ غیر ملکی زبان کا تسلط اور قومی زبان سے اعراض ہے۔ انہوں نے کہا کہ نفاذ اردو کے لیے طویل عدالتی جدوجہد کوکب اقبال ایڈووکیٹ نے کی لیکن کچھ لوگ اس کا بھی کریڈٹ لینے کی کوشش کررہے ہیں۔ ہمیں پوائنٹ سکورنگ سے باہر نکل کر قومی زبان کی جدوجہد کرنی چاہیے۔ کہاں لکھا ہوا ہے کہ انگریزی جاننا ہی علم ہے۔ نیشنل بک فاونڈیشن اس لیے قائم کی گئی تھی کہ دوسری زبانوں سے علم و ادب اردو میں منتقل کیا جائے، اس ادارے نے اردو ادب کی اشاعت شروع کردی، مقتدرہ قومی زبان اس لیے قائم کی گئی تھی کہ سرکاری نظام کو قومی زبان میں منتقل کرنے پر کام کرے۔ ان دونوں اداروں پر پروفیشنل افراد کے بجائے شاعر وں اور ادیبوں کو نوازا گیا، جنہوں نے ان اداروں کے مقاصد سے ہٹ کر دوست نوازی شروع کردی اور نفاذ کے بجائے شعروادب کے فروغ میں لگ گئے۔ مقتدرہ کی ذمہ داری یہ تھی کہ وہ سرکاری مراسلت کا اردو ترجمہ اور دفتری و علمی اصطلاحات سازی تھا۔انہوں نے کہا کہ حبیب وہاب الخیر ی نے ہمیشہ قومی زبان میں مقدمات پیش کرتے رہے ہیں۔ ان کی طرح سینکڑوں افراد نفاذ اردو کی جدوجہد کررہے ہیں۔ ہمیں ایک منصوبے کے تحت اردو زبان سے دور رکھا جائے تاکہ اسلامی تہذیب سے روشناس نہ ہو جائیں۔آج کچھ لوگ پنجابی اور ہندی کو مشترک اثاثہ قرار دے رہے ہیں، یہی دراصل انگریزی مسلط کرنے والوں کا ایجنڈا ہے۔ مشترک اثاثہ کیسے ہوسکتا ہے ہندوستان والے پنجابی اور اردو کو گرمکھی میں لکھتے ہیں جبکہ ہم پنجابی اور اردو کو شاہ مکھی میں لکھتے ہیں۔ہم دائیں ہاتھ سے لکھتے ہیں وہ بائیں ہاتھ سے لکھتے ہیں۔ ہم الگ قوم ہیں ہماری اپنی تہذیب اور اپنی زبان ہے۔ جس سے جڑ کرہی ہم ایک قوم رہ سکتے ہیں۔ ہمارے قومی اداروں میں ایسے لوگ مقرر کیے جاتے ہیں جو اس قوم کو دائیں سے بائیں کی طرف لے جانا چاہتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ انگریزی کا تسلط عالمی سامراجی ایجنڈے کا حصہ ہے۔ نفاذ اردو کے لیے جو بھی تنظیمیں اور افراد کام کررہے ہیں ان سے تعاون کرنا چاہیے۔انہوں نے کہا ہے اردو پاکستان کے ہر خطے اور ہر بولی بولنے والوں کے درمیان رابطے کی واحد زبان ہے، جو استحکام پاکستان کی ضمانت ہے۔ اردو میں نئے الفاظ کو سمونے کی استطاعت ہے، یہ جدید دور کی زبان ہے۔ صدر مجلس محمد اسلم الوری نے کہا کہ نفاذ اردو کے حوالے سے بڑی فکر انگیز گفتگو ہوئی ہے، اب یہ طے ہو چکا ہے کہ اردو ہماری قومی زبان ہے اور یہی ہماری سرکاری اور دفتری زبان ہوگا۔ اب یہ دیکھنا ہے کہ اس کی راہ میں اصل رکاوٹیں کیا ہیں اور ان کا تدارک کیسے ہوسکتا ہے۔ہمارے پاس تین قسم کے وسائل ہیں، سب سے بڑا سرمایہ وقت ہے، دوسرے مالی وسائل ہیں اور تیسرے جسمانی وسائل میسرہیں۔ ہم سولہ سالہ تعلیم کے بعد روزگار کے لیے انگریزی کی رکاوٹ کھڑی کردی گئی ہے۔ قبر میں تو یہ پوچھا جائے گا کہ تمہارا رب کون ہے، ہمارا ممتحن پوچھتا ہے کہ تمہیں انگریزی آتی ہے۔ ہمارے 98 فیصد گریجویٹ انگریزی نہ جاننے کی بنا پر سرکاری اور غیر سرکاری اداروں میں ملازمت حاصل کرنے میں ناکام ہو جاتے ہیں۔جس قوم کے نوجوانوں کے جسمانی، مالی وسائل اورسولہ سال کا وقت لگانے کے باوجود ملازمت نہ ملے بلکہ ضائع ہو جائیں تو وہ قوم کیسے ترقی کرسکتی ہے۔تحریک نفاذ اردو نے طویل غوروفکر کے بعد نفاذ اردو کا 25 نکاتی لائحہ عمل مرتب کیا ہے، جس کو اختیار کرکے حکومت قومی زبان کے نفاذ کو عملی شکل دے سکتی ہے۔ حکومت اگر نفاذ اردو کے لیے مخلص ہے تو اسے وفاقی سطح پر نفاذ قومی زبان کی وزارت قائم کرنا پڑے گی یا کم از کم ایک ڈویژن بنانا پڑے گا جو نفاذ اردو کے لیے ریاستی اداروں کی رہنمائی کرے اور نفاذ کی پیش رفت کی نگرانی کرے تب ہی یہ کام ممکن ہے۔ دنیا کے مختلف ممالک میں اس نوعیت کے ادارے قائم ہیں۔ ان کے علاوہ محمودالرحمن سابق ڈائریکٹر اسلامی یونیورسٹی، ڈاکٹر ساجد خاکوانی صدر قلم کارواں، ممتاز کالم نگارشیرافضل ملک اور مولانا وقاص نے خطاب کیا۔ کموڈور محمود نے نفاذ اردو کی قرارداد پیش کی جو اتفاق رائے سے منظور کی گئی۔

atiq ur rehman
About the Author: atiq ur rehman Read More Articles by atiq ur rehman: 125 Articles with 118920 views BA HONOUR ISLAMIC STUDIES FROM INTERNATIONAL ISLAMIC UNIVERSITY ISLAMABAD,
WRITING ARTICLES IN NEWSPAPERS SOCIAL,EDUCATIONAL,CULTURAL IN THE LIGHT O
.. View More