وقت کے فرعونوں سے اﷲ کا بدلہ

اللہ تعالیٰ کامل و اکمل ہے اور ہر چیز پہ قادر۔ چاہتا ہے تو بظاہر اچھا نظر آنے والے کام کا برا نتیجہ اور بظاہر برا نظر آنے والے کام کا اچھا نتیجہ نکال سکتا ہے کہ وہ ہر شے کی قدرت رکھتا ہے۔وہ اپنے دشمنوں کو انہی کے قدموں میں یو ں گراتا ہے کہ ان کے لئے اٹھنا اور دنیا سے نظر ملانا ممکن نہیں رہتا۔اللہ کے دشمن وہی ہیں جو اللہ کے نظام کے دشمن ہیں۔جو ہر اس طاقت اور قوت کے دشمن ہیں جو عوام الناس کو اللہ کی طرف دعوت دیتی ہو۔اللہ کا اپنا نظام ہے اور یہ نظام کسی اور طاقت کو خاطر میں نہیں لاتا۔چیزیں مشیت الہی سے اسی طرح چلتی رہتی ہیں جس طرح انہیں حکم مل جاتا ہے۔لفظ کن کے بعد افعال کے مقدر میں ہونے کے علاوہ اور کوئی چارہ ہی نہیں رہتا۔پھر ان افعال کی راہ میں آنے والی چیزیں یوں نیست و نابود ہو جاتی ہیں کہ ان کا نام ونشان باقی نہیں رہتا۔فرعون کہ بدی کی طاقتوں کا نمائندہ اور روئے زمین پہ ہر طرح کے اختیار کا مالک ہوتا ہے لیکن موسیٰ اسی کے گھر میں ساری سطوت شاہی کے ساتھ پلتا ہے۔باوجودیکہ کہ فرعون جانتا ہے کہ ایک بچہ پیدا ہونے والا ہے جو اس کا سارا تزک و احتشام چھین لے گا۔مشیت کو لیکن یہی منظور ہے کہ موسیٰ کو پالے بھی وہی اور پھر اسی کے ہاتھوں اپنے اختتام کو پہنچے۔

جنرل ضیاءالحق بلاشبہ آمر تھا۔اس کی حکومت ناجائز تھی۔اس نے حکومت پر غاصبانہ قبضہ کیا تھا۔اسی کا کمال ہے کہ اس ملک میں طالبانائزیشن کے جن نے جنم لیا۔اسی کی نحوست سے آدھا پاکستان جہاز بن گیا ہے ۔نشے کی لت نے پاکستان کا مستقبل داؤ پہ لگا دیا ہے۔فرقہ واریت بھی اسی جنم جلے کی عطا ہے کہ اس نے اپنی جہالت اور فرقہ وارانہ سوچ اور اپنے اقتدار کو طول دینے کے لئے معاشرے کے ایک فرقے کو یوں مسلح کیا کہ اب وہ پاکستان توڑنے کے درپے ہے۔شدت پسندی اسی کے دور میں ہمارے معاشرے میں بڑھی ۔مکالمہ اور مذاکرہ اسی کی مہربانیوں سے اس مملکت خداداد میں اختتام کو پہنچا۔ اسی کے دور میں ادارے ختم ہوئے اور بے ضمیر اور بدقماش سیاستدانوں کی ایک ایسی فصل تیار ہوئی جو آج بھی پیر تسمہ پا کی طرح اس قوم کے کندھوں پہ سوار ہے۔ اس کی حکومت کو کسی بھی طرح اس ملک کے لئے باعث خیر و برکت قرار دینا سیدھا ظلم اور نا انصافی ہے۔

گو اس کی اسلامائزیشن بھی دراصل اس کے اپنے فائدے کے لئے تھی کہ وہ اس سے بھی ملک کے اسلام پسند طبقے کا دل جیت کے اپنا حلقہ اثر بڑھانا چاہتا تھا لیکن اسکے اس فیصلے سے پاکستان کم ازکم اس راہ پہ ضرور چل نکلا جس کے لئے یہ ملک حاصل کیا گیا تھا۔ضیاء کے اندھیرے سے پہلے ملک میں سر عام شراب پی جاتی تھی۔عصمتوں کے سودے سر بازار ہوتے تھے۔اسلام پسند تحقیر کا نشانہ بنائے جاتے تھے۔ نماز پڑھنے کے لئے کوئی خفیہ کوشہ تلاشنا پڑتا تھا۔عام انسان کی اشرافیہ تک رسائی ہی نہ تھی کہ ذوالفقار علی بھٹو گو کہ عوام کا نمائندہ ہونے کا دعویدار تھا لیکن اس کے حواریوں میں ایک دو نظر وٹو ہی تھے جنکا تعلق عوام سے بنتا تھا۔ان کے علاوہ باقی سب کے سب جاگیردار اور وڈیرے ہی اس پارٹی کے کرتا دھرتا تھے۔ان لوگوں کا عوام سے دور کا بھی واسطہ نہ تھا۔بھٹو نے عوام کو روٹی کپڑے اور مکان کا لولی پاپ دکھا کے اپنے اردگرد اکٹھا ضرور کر لیا تھا لیکن عوام کی حالت بدلنے کا کوئی کام وہ بھی نہ کر سکا تھا۔ ضیاء کے آنے سے جہاں بھٹو کی پارٹی اور اس کے دیوانوں کے برے دن آئے وہیں اینٹی بھٹو قوتوں کو خوش کرنے کے لئے ضیاء نے بڑی ہوشیاری سے اسلام کو ملک میں متعارف کروانے کی کوشش کی جو اس کے اقتدار کے لئے ایک ٹانک کی حیثیت رکھتا تھا۔

اس ملک میں جہاں اللہ اور اس کے نظام کو ماننے والوں کی اکثریت ہے جس میں سبھی طبقات سے تعلق رکھنے والے لوگ شامل ہیں وہیں کچھ لوگ ایسے بھی ہیں جو اللہ کے نظام کو اپنی عیاشیوں کی راہ میں بڑی رکاوٹ جانتے ہیں۔پھر کچھ ایسے بھی ہیں جو اپنا تو کوئی نقطہ نظر نہیں رکھتے صرف باہر سے ملنے والے ڈالر ہی ان کی سوچ کی راہ متعین کرتے ہیں۔انہی لوگوں نے ضیاء کی مخالفت میں اسلام کے لتے لینے شروع کر دئیے۔کھلے عام ان لوگوں نے اسلام کو تختہ مشق بنا لیا جو اسلام کی ابجد سے بھی واقف نہ تھے۔ کچھ بد بختوں نے اسلامی قوانین کو کالا قانون قرار دیا تو کچھ نے ظالمانہ نظام۔امریکہ اور اس کے حواری اس معاملے میں پیش پیش تھے۔امریکہ چونکہ افغانستان میں جیت کے لئے پاکستان کے رحم و کرم پہ تھا اس لئے وہ ان قوانین کو نافذ ہونے سے نہ روک سکا اور اس طرح کچھ اسلامی قوانین پاکستان کے آئین کا حصہ بن گئے۔ انہی میں قصاص و دیت کا قانون بھی تھا۔

آج وہی لو گ اور وہی امریکہ جو کبھی اس قانون کو کالا قانون کہتے نہ تھکتے تھے اسی قانون کی آڑ لینے کو بے تاب ہیں۔اوباما ،ہیلری ،جان کیری اور پاکستان میں ان کے حمایتی جانتے ہیں کہ ریمنڈ ڈیوس کو استثناء تو کسی صورت نہ مل سکتا ہے نہ دیا جا سکتا ہے۔اس امریکی غنڈے اور قاتل کی معافی کی اگر کوئی صورت نکل سکتی ہے تو وہ یہی کہ مقتولین کے لواحقین اسے معاف کر دیں۔اس کے علاوہ اگر کسی اور طریقے سے ریمنڈ کو چھڑانے کی کوشش کی جاتی ہے تو پاکستانی عوام کبھی اس کے لئے تیار نہ ہونگے۔ حکومت کوئی اور راستہ اپناتی ہے تو حکومت کو اپنے دن گنے ہوئے نظر آتے ہیں۔اس حکومت کا اس طرح چلے جانا کسی بھی طرح امریکی مفاد میں نہیں۔اگر اس معاملے پر کسی احتجاج کے نتیجے میں یہ حکومت گئی تو پھر اسلام پسند آئیں گے اور اسلام اور اسلام پسندوں سے امریکہ کی جان جاتی ہے۔اس لئے اب سوائے قصاص اور دیت کے بقول ان کے" کالے قانون "کے ان کے پاس اور کوئی راہ باقی نہیں بچی۔

ملتان کے شاہ محمود قریشی بھی امریکہ نے اسی حفاظتی نکتہ نظر سے میدان میں اتارے ہیں کہ اگر لوگ واقعی امریکہ کے خلاف پھٹ پڑیں تو ان جذبات کو قابو کرنے کے لئے البرادی کی طرح کا کوئی آدمی ہو جسے آگے لا کر" چت بھی میری اور پت بھی میری "کا ماحول پیدا کیا جا سکے۔لگتا ہے اس بار میرے پیارے وطن کے بارے اللہ کریم کی مشیت کچھ اور ہی ہے اس دفعہ اللہ تعالیٰ کوئی سچا اور کھرا پاکستانی اس قوم کو نصیب کرے گا جو انہیں اس ملک میں اللہ کا نظام نافذ کر کے دے گا اور دنیاوی خداؤں سے نجات بھی۔

وقت کے فرعونوں سے یہ اللہ کا بدلہ نہیں تو اور کیا ہے کہ کل اس قانون کو" کالا قانون "کہنے اور سمجھنے والے آج اسی قانون کی آڑ لینے کو بے تاب ہیں۔
Qalandar Awan
About the Author: Qalandar Awan Read More Articles by Qalandar Awan: 63 Articles with 54624 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.