بلوچستان قدرتی دولت سے مالامال صوبہ

کبھی کبھی انسان کے لیے قدرت کی دی ہو ئی نعمتیں بھی زحمت بن جا تی ہیں جس طر ح ما ضی میں اور آج بھی تیل کی دولت جن ممالک کو حا صل ہے وہ مغربی مما لک کے سا زشوں کے جا ل میں جکڑے ہو ئے اپنے ہی لو گو ں کی ریشہ دو انیوں کا شکا ر ہیں بالکل یہی حالات بر سوں سے صو بہ بلو چستا ن کو در پیش ہیں۔ معدنی خزانوں سے لبر یز صو بہ بلو چستان آج سما جی معا شی اور سیا سی بحران کا شکا ر ہے بلو چستان کی داستان الم بہت پر انی ہے جس میں ٹو ٹے ہو ئے وعدوں کی کہا نی ، بلند وبا نگ دعوﺅں کی کہا نی شامل ہے ، جس کی سنگلا خ چٹا نو ں کے نیچے چھپے خزانوں پر تو سب نے اپنا حق سمجھا لیکن! فر ض پر کسی کا دھیا ن نہیں گیا ۔بلو چستا ن جو صوبے اور رقبے کے لحا ظ سے پا کستا ن کا سب سے بڑا صوبہ ہے مگر آبا دی کے لحا ظ سے پا کستا ن کا تقریباً دس فی صد ہے اس کی سر زمین کو اللہ تعا لیٰ نے قدرتی وسائل سے مالا مال کیا ہے یہاں تیل ،گیس ،کوئلہ، سونے چاندی ، قیمتی ما ربل اور دیگر دھا توں کے وسیع ذخائر مو جو د ہیں قیا م پا کستا ن کے بعد اگر درست زاویے سے اس کی منصو بہ بند ی کی گئی ہو تی تو شائد اس صوبے کا ہر با شندہ خو شحال آسودہ ہو تا اور زندگی کی بنیا دی ضرورتوں سے آزاد ہو تا مگر اس صو بے کی بد قسمتی دیکھیے کہ پو رے پا کستا ن میں سب سے زیا دہ غربت ، تعلیم ،اور بیما ری کے علا ج سے محروم یہ صوبہ ہی نظر آتا ہے زندگی کی بنیا دی سہو لتوں کے لیے دیگر صوبوں کے دست نگر ہے ستم ظریفی یہ کہ اس کے وسائل پر پورا ملک ہی نہیں بلکہ غیر ملکوں نے بھی اپنی حر یص نظریں جما ئی ہو ئی ہیں ۔

بلو چستا ن کی تبا ہی وبر با دی کی جب با ت آتی ہے تو ہمیشہ سرداری نظام اور ان کی اجا رہ داری کو مورد الزام ٹہرا یا جا تا ہے لیکن یہ سچ ہے کہ پا کستا ن کے تما م حکمرانوں نے اپنے مفا دات اور مر اعات کے پیش نظر اسے ایک سیا سی صو بہ بنا نے کے بجا ئے سرداری صوبہ بنا نے کی کو شش کی جب بھی صوبا ئی حکو متیں تشکیل دی جا تیں وہاں سرداری حاکمیت رہی اس بد حال صوبہ کے مسا ئل کا حل یہ سردار کیا کر یں گے جو خود اسمبلیوں میں بیٹھ کر ایک دوسرے پر گالم گلوچ اور شدید تنقید ہا تھا پا ئی کر تے ہیں جس کی ایک مثال ۲۲ جنوری کو ٹی وی پر ساری دنیا نے دیکھی ان سرداروں کی آپس کی نااتفاقیوں ہی کی وجہ سے غیر ملکی ان کے خزانوں کو اپنے ملک منتقل کرتے رہے ہیں۔

۱۶۹۱ء کے ایک سروے میں یہ با ت پتہ چلی کہ چاغی کے اندر سونے اور تا نبے کے وسیع ذخا ئر مو جو د ہیں لیکن معلوم ہو نے کے با وجود حکومتیں اور اربا ب اختیار سوتے رہے اس خزانے کو ملکی وسائل کے تحت نکا لا جا نا چاہیے تھا لیکن حکو متی نا اہلی سے اس پورے منصوبے کو غیر ملکی کمپنی کو سونپ دیا گیا اس کا ۵۷فی صد غیر ملکی کمپنی کو اور۵۲ فی صد حکو مت پا کستا ن کے حصے میں آنے کی شر ائط پر کا م سونپ دیا گیا ہماری لا پراوئی اور بے توجہی کی بناء پر غیر ملکی ہما را خزا نہ دونوں ہا تھو ں سے لو ٹتے رہے ہیں اسی طر ح سینڈک منصوبے کا ٹھیکہ چین کی ایک کمپنی کے پا س ہے وہ کئی سالوں سے اس پر کا م کر رہی ہے پا کستا ن میں خا م شکل کے سونا چا ندی اور تا نبے کو صاف کر نے کے پلا نٹ نہ ہو نے کے سبب سرما یہ کا ر کمپنیا ں نہا یت سستے داموں پا کستا ن کا قیمتی خام مال با ہر لے جا رہی ہیں۔ چند دنوں قبل یہ خبر نظر سے گزری کہ ایران نے اپنے ذرائع سے تا نبا کان سے نکا لنے اور اسے صاف کر نے کی ٹیکنا لو جی حا صل کر لی ہے اس سے جہا ں اس نے جد ید ٹیکنا لو جی میں مہا رت حا صل کر لی ہے وہا ں بیرونی طا قتوں پر انحصار سے بھی چھٹکا رہ حاصل کر لیا ہے اور اپنے ملک کی قیمتی دولت کو بچانے میں بھی کا میا ب ہو گیا ہے ایران کی اس کا میا بی میں پا کستا ن کے لیے بھی بڑا سبق ہے کہ جب ہم ایٹم بم ، جد ید میزا ئل تیا ر کر سکتے ہیں تو ا س سر زمین میں چھپے خزا نے کو خود زمین سے نکالنے کے لیے ایکسپلو رنگ، ما ئننگ ، سروئنگ اور ریفا نئگ سے لے کر مصنو عات تیا ر کرنے تک کے تما م کا م کو مقامی سطح پر کیو ں نہیں کر سکتے ان دنوں عالمی میڈ یا اور پا کستا ن میں ریکو ڈک ٹیلے کے خزانے کا بڑا چر چا ہے اس خزانے کے با رے میں ایک محتا ط اندازے کے مطا بق اس ٹیلے کے نیچے دس ارب کلو گرام بہترین تانبا اور سینتیس (۷۳) کڑوڑ گر ام سونا مو جو د ہے جس کی ما لیت ۰۶۲ارب ڈالر بنتی ہے جس کے لیے ہما رے دشمن سازش کر نے میں مصروف ہیں کہ کسی طر ح خزانہ ہما رے ہا تھ لگ جا ئے ادھر ہما ری بد قسمتی دیکھئے کہ اپنی مٹی کو سونا کر نے کی صلا حیت پیدا کر نے کے بجا ئے پو ری دنیا میں کشکول لیے پھرتے ہیں ڈا کٹر ثمر مند مبا رک کا کہنا ہے کہ اگر پا کستا ن کی حکو مت ا پنی نگرانی میں اپنے بل بو تے پر ان ذخا ئر کا استعمال کر ے تو عوام کو اس کا بھر پور فا ئد ہ حا صل ہو سکتا ہے خاص کر بلو چ عوام کے مسا ئل ان کی محرو میوں کا ازالہ ہو سکتا ہے ان کے صوبے میں بھی زندگی کی بنیا دی ضرورتیں پا نی ، خوارک ، صحت ،تعلیم اور روزگار جیسی اہم ضرورتوں کو پو را کیا جا سکتا ہے آخر ان کے وسائل پر ان کا پورا حق ہے ا س وقت صوبہ بلو چستا ن میں جو لا قانو نیت ، شدت پسند ی ،معا شی اور سیا سی بحران نظر آتا ہے اس کا وا حد حل یہی ہے اسے طا قت کے بل ختم کر نے کے بجا ئے ان کے مسائل پر ہمدردانہ توجہ دی جا ئے۔

پا کستا ن کے چیف آف آرمی اسٹاف جنر ل اشفا ق پر ویز کیا نی نے بلو چستا ن کی محرومیوں کا ازالہ کر نے کے لیے طا قت کے بجا ئے تعلیم و ٹیکنا لو جی کی جا نب تو جہ دینی شروع کی ہے کچھ عر صہ قبل بلو چستا ن میں بننے والے فو جی عما رت کو انھوں نے کیڈ ٹ کالج میں تبدیل کر دیا جس میں وہا ں کے بلو چ طا لب علم مستقبل کے فو جی بن کر اپنے ملک وقوم کی خدمت کر یں گے انھیں با عزت روزگا ر میسر ہو گا گز شتہ دو سال میں چار ہزار بلو چ نو جو ان فوج میں بھر تی کیے گئے اس سال پا نچ ہزار نو جو انوں کو مز ید بھرتی کیے جا نے کا پر وگرام ہے بلو چ نو جو انوں کے لیے بھرتی کی شرا ئط میں بھی نر می کی گئی ہے چند روز قبل جنر ل کیا نی نے کا سہ ما ربل پر اجیکٹ کا افتتاح کیا اس افتتا ح کے موقع پر انھو ں نے فرما یا کہ ہم قدرتی معد نیا ت کو بہتر طر یقے سے استعما ل کر کے معا شی تر قی حاصل کر سکتے ہیں بلو چستا ن کے وسائل پر پہلا حق مقا می لو گو ں کا ہے مذکورہ ما ربل چین اور دبئی سمیت دیگر ممالک میں در آمد کیا جا ئے گا یہ منصو بہ ۰۵ سال تک قابل عمل ہے سنیڈک اور ریکو ڈک جیسے اہم پر وجیکٹ پر بھی صو بے کے افراد کو حصہ دار بنا کر خوش حالی لا ئی جا سکتی ہے اس پر اجیکٹ سے وہا ں کے لوگوں کو با عزت روز گا ر ، صحت ،تعلیم ، سڑکوں کی تعمیر اور صاف پا نی کی فر اہمی ممکن ہو سکے گی۔بلو چستا ن جسے قدرت نے معدنی دولت کی نعمت سے نوازا ہے جنرل کیا نی کی کو شش ہے کہ بلو چ نو جوان معدنی وسائل کے مضامین میں تعلیم حا صل کر یں اس سال پا ک آرمی اسکو لو ں میں ٹیکنیکل تعلیم کی فراہمی کے لیے الگ مضمو ن پڑ ھا نے کے لیے ڈاکٹر ثمر مند مبا رک اور دیگر ما ہرین کی خدمات حا صل کر رہی ہے مختلف علا قوں میں ٹیکنیکل انسٹی ٹیوٹ بنا ئے جا رہے ہیں اگر اسی طر ح کی پر خلو ص کو ششیں جا ری رہیں تو جلد ہی بلو چستا ن ملک کا خو شحال ترین صوبہ بن جا ئے گا۔
Ainee Niazi
About the Author: Ainee Niazi Read More Articles by Ainee Niazi: 150 Articles with 147927 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.