پٹواری اور یوتھئیے تک کا سفر

حقیقت تو یہ ہے کہ آج ہم خود پر فخر کرتے ،ناز کرتے کہ پھولے نہ سمائے ، ایڑیوں کو زمین سے چھ انچ بلند کرکے کہتے کہ ہم نے ایسے گھر میں جنم لیا جو آوازہ حق بلند کرتا،عقیدہ تریمورتی پر یقین نہ رکھتا ، بھکشو سے دیوار اختلاف بلند کرتا ، بپتسمہ سے کنارہ کش ہوتا، حصول نروان کے لیے بدہ مت کی راہ نہ لیتا ، ہنایان اور مہایان کو تنقید کا نشانہ بناتا، زرتشت عقیدہ کے دو خدائوں آہوارامزدا اور اہرمن پر ٹھوس ثبوت مانگتا ،عیسائیت کے عقیدہ کفارہ پر قرآن و سنت کی روشنی میں دلائل پیش کرتا۔ہاں ہاں حصول تعلیم برائے اصلاح وید، برہمناس اور اپنشد پر عمل نہ کرتا،اوستا کو عقیدہ باطل پر مبنی کتاب سمجھتا ۔
ایسے گھرانے سے تعلق ،گویا کہ اسلام پرست گھرانہ معلوم ہوتاہے۔
لوگو!

کہتا ہوں وہی بات سمجھتا ہوں جسے حق

پھر ہو اکیا؟
داخل ہوے تو دین اسلام میں ، سبب کیاہے؟ عرش والے نے فرما دیا۔
اِنَّ الدِّیْنَ عِنْدَاللہِ الْاِسْلَاْمُ
اللہ کے نزدیک دین تو صرف اسلام ہے۔
سچ سمجھتے تو قرآن کو کتاب من اللہ سمجھتے ،زندگی گزارنے کے لیے بہترین نمونہ جانتے، سنت نبوی پرکروٹ کروٹ عمل کرنا زندگی کا بنیادی مقصد سمجھتے،ختم نبوت کے معاملے پر مر مٹنے کو اپنے لیے باعث سعادت سمجھتے ۔ نبی ﷺکے ایک ایک صحابیؓ کی زندگی کو قلمبند کرتے،خلفائے راشدین کے تیس برس پر مبنی نظام حکومت کو اپنی تحریروں کی زینت بناتے، اپنی تاریخ پر غور کرتے تو محمد بن قاسم،صلاح الدین ایوبی اور محمود غزنوی جیسے مجاہدین پر تبصرہ کرتے ، تبصرہ ہی نہیں لوگو! نئی نسل کے لیے ان کی شجاعت و بہادری پر کتابیں لکھ دیں۔ دین و اخلاقیات کے میدان میں خواجہ معین الدین چشتی،حضرت فرید الدین ، شاہ اسماعیل بخاری اور حضرت علی ہجویری رح کی مثالیں سر فہرست رکھتے۔
مگر آج کچھ مختلف سا محسوس ہوتاہے ، اسلاف سے کچھ دوریاں سی معلوم ہوتیں ہیں،دوستو! میدان سیاست کچھ الگ تھلگ سی جھلک دیکھاتاہے۔
سبب کیاہے؟ پاکستان کو وجود میں آئے ستر برس سے زیادہ کا عرصہ بیت چکا ۔ ان ستر بر سوں میں ہم نے مختلف حکمرانوں کی حکمرانی کو آزمایا۔
شاعر کے الفاظ میں

تم داستان شوق سنو اور سنائیں ہم

لوگو! یحیی ازم کو آزمایا، ضیا ازم کو آزمایا، بھٹو ازم کو آزمایا،شریف ازم کو آزمایا، مشرف ازم کو آزمایا، زرداری ازم کو آزمایا اور اب خان ازم کو آزما رہے۔ ہر دورمیں سیاسی حریف ہوئے ۔ہر سیاسی دھڑاقتدا راعلی کے حصول کے لیے کیا کیا وعدےنہیں کرتا۔عامتہ الناس کی تعلیم وتربیت کےلیےکون کونسے عہد نہیں کیے جاتے ۔ایسا معلوم ہوتا کہ ہم پر ایسے لوگ حکمرانی کرنے جارہے جوانتہائی وفادار اور اخلاقیات کےاعلی درجے پر فائز۔
مگریہی سیاسی حریف معمولی معمولی باتوں پر ایک دوسرے سے الجھ پڑتے، نازیبا الفاظ کا تبادلہ ہوتا، سیاست کی آڑ میں حریف کو کیا کچھ نہیں کہا جاتا،لیکٹرونک اور سوشل میڈیا میدان جنگ کا منظر پیش کرتا۔دوستو! یہ تو لوگو کی تعلیم وتربیت کے لیے نکلے تھے،عامتہ الناس کی اصلاح کے لیے نکلے تھے،انھوں نے تورہنمائی کا بیڑہ اٹھایاتھا،یہ تو لوگو کے لیے رول ماڈل بننے نکلے تھے۔
شاعر کے الفاظ میں

افسوس بے شمار سخن ہائے گفتنی
خوف فساد خلق سے نہ گفتہ رہ گئے

لوگو! کہنے میں کچھ عار محسوس نہیں کرتا “جیسے عوام ویسے حکمران”۔
ہم میں سے ہر کوئی جمہوریت کو پروان چڑھانے کے لیے پارٹی بازی کا شکار ہوا،
سبب کیاہے؟ آمریت کا سد باب ہو ،ڈکٹیٹر شپ کی جڑیں کٹ جائیں ،اپنی مرضی کا لیڈر چناجاسکے۔
حق تو یہ تھا کہ ہم حق خود ارادیت کا استعمال کرتے۔ہر کوئی دوسرے کے جان ومال کا محافظ ہوتا ،ہر کوئی دوسرے کی عزت کو چار چاند لگاتا۔مگر دھڑے بازی کی آڑمیں ہم جانی دشمن ہوئے ،بھرپور کیچڑ اچھالا،عزت نفس کو پامال کیا،طعن و تشنیع کا نشانہ بناتے۔
شاعر کے الفاظ میں

دشمنی جم کر کرو لیکن یہ گنجائش رہے
جب کبھی ہم دوست ہو جائیں تو شرمندہ نہ ہوں

ہائے آج کے اس دور جدید میں سوشل میڈیا ٹیمیں تشکیل دی جاتیں،کروڑوں روپے صرف کیے جاتے،دن رات ایک کیاجاتا،جمہوریت کے لیے جنگ لڑنے والےپارٹی لیڈر برابر کے شریک ہوتے۔
مطلوب کیاہے؟ مقصدکیاہے؟
کوئی سیاسی ومذہبی حریف بچ نہ جائے، ہر دوسرے کی شکل کو بگاڑا جاتا،عزت نفس کو مجروح کرنے کے لیے جھوٹ پر مبنی لطائف گھڑے جاتے، دل کی دھڑکنوں کوتیز کرنے کے لیےالزام تراشےجاتے، دماغی اذیت کے لیےعجیب و غریب القاب سے نوازا جاتا، ہوئے پٹواری اور یوتھئیے مشہور۔
کو ئی روکنے والا نہیں روکتا، کوئی پوچھنے والا نہیں پوچھتا ، کوئی ٹوکنے والا نہیں ٹوکتا ، سب ایک ہی کشتی کے مسافر معلوم ہوتےہیں۔
لوگو ! ہم کہاں سے چلے تھے آج کہاں پہنچے؟ ،ہم نے کیاعنوان باندھا ہے؟،آنے والی نسلوں کے لیے کیا سبق چھوڑاہے؟ ، ہم نے تعلیم و تربیت کے لیے فنڈنگ کیوں کی تھی؟ ہم نے بڑی بڑی نامور یونیورسٹیوں سے ڈگریاں کیوں حاصل کی تھیں؟ آج ہم نے دین کو بھی خیر باد کہ دیاہے؟عقل پرست ہوں گے ہیں نا۔
شاعر نے اسی لیے کہاتھا

جلال پادشاہی ہوکہ جمہوری تماشاہو
جدا ہو دیں سیاست سے تو رہ جاتی ہے چنگیزی

بد قسمتی کا عالم یہ ہے کہ جس کو چبھن کے لیے پٹواری کہا جاتاوہ بھی مسلمان ، جس کو مرچ لگانے کے لیے یوتھیا کہاجاتا وہ بھی مسلمان۔
لوگو آؤ اپنا سبق یاد کریں،رحمتہ العالمین نے کیا کہاتھا۔

کُلُّ المُسلِمِ عَلَی المُسلِمِ حَرَامٌ دَمُہُ وَمَالُہُ وَعِرضُہُ
لوگو ! کسی دوسرے مسلمان کی جان سے مت کھیلو۔
اس کے مال کو اپنا مال جانو، اس کی عزت کو اپنی عزت سمجھو۔
ہائے میر ے آقا کی یا دکس وقت آئی ہے۔
سرور کونین کو اطلاع دی گئی آقا دشمن پکڑا ہوا آیا ہے، مسلمانوں کے خون کا پیاسا گرفت میں لیا گیا ہے ، مسجد نبوی کے ستون سے باندہ دیا گیاہے، رحمتہ العالمین تشریف لے گئے،
چشم فلک نے دیکھا، مدینہ کی بستی نے دیکھا،مسجد نبوی کے ستون نے دیکھا،حبیب کبریانے دیکھا کہ صحابہ کے بارے میں پروپگینڈے کرنےوالا آیا ہے، میرے قتل کے منصوبے تیار کرنے والا آیا ہے، اپنی بادشاہت پر ناز کرنے والا آیاہے ،یمامہ کا گورنر ثمامہ آیاہے.
ہائے وہ آیا ہے جومیرے محمدﷺ کے چہرے کو دیکھنا پسند نہیں کرتا تھا، وہ آیا ہے جوامام الانبیا کی بستی کو براسمجھتا تھا۔لوگو! میں سمجھتا ہوں کہ فاروق تلوار بدست ہو ں گئے ہوں گے،صدیق کا چہرہ غصے سے سرخ ہو گیاہوگا،صحابہ اس سوچ میں ہوں گے کہ آج فاطمہ کے بابا کا حکم جاری ہوجائے گا ،آج فاروق کی تلوار بے نیام ہو جائے گی ،اس ظالم کا سر تن سے جدا ہوجائے گا،اللہ کے محبوب کو برا بھلا کہنے والے کے ٹکڑے ٹکڑے ہو جائیں گے۔آج سارے بدلے اتارلیے جائیں گے۔
لوگو! میرے پیغبر نے یہ نہیں کہا صحابہ جھوٹ پر مبنی پلندے تیار کرو،تذلیل کےلیے جھوٹے کتبے بنائو،اس ظالم کی شکل کوبگاڑکر لوگو کے سامہنے پیش کرو،اس پر جھوٹے الزام کسو۔
غفور الرحیم نبیﷺ آگے بڑھے، پوچھا ثمامہ کیسے ہو؟ سوچتا ہوں کس قدر محبت بھرا انداز گفتگو ہو گا۔
ہمیشہ کی طرح مہمان نوازی کرنے والے نےیہاں بھی میزبانی کاحق ادا کر دکھایا، ۔ یہ تو مہمان نہ تھا قیدی بنا کر لایا گیا تھامیرے آقا نے اس کے لیے بہترین کھانے کا بندوبست فرمایا،یہ تو مسلمان بھی نہ تھا، آقا کادشمن تھا،کافر تھا، تین دن آمنہ کے لال نےاسے مسجد نبوی میں رکھا،اس نے تو مال وزر کا لالچ بھی دیاتھا۔مگر حبیب کبریا نے اسے یہ بھی نہیں کہا “تمیز سے بات کرو” اف تک بھی نہ کہاتھا۔
زبان محمد ﷺ حرکت میں آئی کہا ثمامہ جائو آج ہم تمھیں چھوڑنے کا اعلان کرتے ہیں۔ چند قدم یمامہ کی طرف بڑھاپھر سوچا ہو گا بڑے بڑے لیڈر دیکھے، وزرا دیکھے، مشیر دیکھے ،جج دیکھے، چیف آف آرمی سٹاف دیکھے مگر اس جیساصابر نہیں دیکھا،پھر واپس لپکا۔وجہ کیاہے ؟
اب مشرک نہیں رہنا چاہتا، کفر والی زندگی بسر نہیں کرنا چاہتا،مسلمان ہونا چاہتا،محمد عربی ﷺکے نقش قدم پر چلنا چاہتا ،دائرہ اسلام میں داخل ہونا چاہتا،میرے پیغمبر کا جانثار بننا چاہتاہے۔
لوگو ! سبب کیا ہے؟
شاعر کے الفاظ میں

اک عرب نے آدمی کا بول بالا کر دیا

یہ تو میرے آقاکا حسن سلوک تھا،کردار کا عملی پہلو تھا،رواداری کا درس تھا۔مجھے بتائو آج ہم کس راستے پر چل دیے،کس کو پیشوا تسلیم کرتے،کس کے احکامات پر سر تسلیم خم کرتے۔
آج ہم منزل بھول گئے ہیں،راستے سے بھٹکے ہوئے معلوم ہوتےہیں۔
شاعر کے الفاظ میں

کوئی منزل کے قریب آ کے بھٹک جاتا ہے
کوئی منزل پہ پہنچتا ہے بھٹک جانے سے

لوگو ! یہ لیڈر تمہارے لیے اسوہ نہیں ہیں۔ آج ہمیں آقا کے نقش قدم پر چلنا ہےکہ جس کی پیشانی پر اس وقت بھی شکن نہ پڑی جب کفار نے پتھر مارے، اور آج صحابہؓ کی فوج ساتھ ہے ثمامہ برابھلا کہتا ہے مگر پیشانی پر سلوٹیں نہیں پڑتیں۔کہے دیتا ہوں یہ ہے ہماری منزل ، یہ ہے ہمارا راستہ ، جب اس راستے کے راہی بن جائیں گے تو انشاللہ وہ دن دور نہیں جب یوتھیا اور پٹواری جیسے القاب سے لوگوں کو دکھ نہیں دیا جائے گا،ہر کوئی محبت کی چادر کو اوڑھ لے گا،کندھے سے کندھا مل جائے گا، قدم سے قدم مل جائیں گے،قائد اور اقبا ل کے خوابوں کی تکمیل ہوجائے گی،پاکستان کی اساس ترقی کی ضامن بن جائے گی۔
 

Irfan Qayyum
About the Author: Irfan Qayyum Read More Articles by Irfan Qayyum: 12 Articles with 13468 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.