امریکی مطالبات اور قندھاری انار

بیان کردہ تجربات کی روشنی میں فرض کریں کہ پاکستان کی مثال تھکے ماندہ شوہر کی ہو جبکہ چین پہلی، سعودیہ دوسری ،ایران تیسری اور افغانستان چوتھی بیوی ہو تو ساس کون ہو سکتی ہے۔۔ سی پیک کی حیثیت اس انار جیسی ہے جسے چین نے وافر مقدارمیں چھیلنے کے بعد طشتری میں سجا کر۔۔۔۔۔۔۔ اس سے قبل قندھاری انار چھیلنے کی یہ ذمہ داری امریکہ نے اپنے بچوں (بھارت) کو سونپی تھی لیکن بچوں کی انگلیاں کٹنے کے بعد کشمیر کا چمچ لانے کے بہانے یہ ذمہ داری پاکستان کو سونپ دی گئی ہے ۔اب دیکھنا یہ ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

فرض کریں آپ کی چار بیویاں ہیں اور آپ جانچنا چاہتے ہیں کہ ان چاروں میں سے کون آپ کے ساتھ زیادہ مخلص ہے تو آپ بازار جائیں،بازار سے اناروں کی ایک پیٹی خرید کر لائیں اور پیٹی کو کچن میں رکھ کر خاموشی اختیار کر لیں۔آپ کام سے تھکے ہارے شام کو گھر لوٹیں تو اگر آپ کو ایک بڑی پلیٹ میں دو یا تین اناروں کے دانے بڑی محنت کے بعد اہتمام سے نکال کر پیش کیے جائیں اورساتھ میں کھانے کیلئے ایک چمچ بھی ہوتو جان لیں کہ یہ والی بیوی آپ کو دل سے چاہتی اورمحبت کرتی ہے، اس کا خیال رکھاکیجیے ۔دوسری صورت میں اگر آپ کو فقط ایک انار کے نکالے ہوئے دانے پلیٹ میں پیش کیے جائیں تو جان لیجیے کہ یہ والی بیوی آپ کا احترام کرتی ہے اور آپ کی خدمت اپنے آپ پر واجب سمجھتی ہے یا آپ کی خدمت کر کے بس ثواب کما رہی ہے اسے آپ سے دلی محبت تو نہیں لیکن مجبوری میں اپنے فرائض سے بھی غافل نہیں۔تیسری قسم کی بیوی انار اٹھا کر آپ کے پاس لاتی ہے اور اسے چھیلنا شروع کرتی ہے۔یہ آپ کو دکھانا چاہتی ہے کہ وہ کیسے آپ کیلئے جان مارتی اور محنت کرتی ہے۔ اور اس کا وجود آپ کیلئے کتنا فائدہ مند ہے۔ اور اسے اس کی محنتوں کا مناسب معاوضہ ملنا چاہیے۔یہ آپ کی زندگی میں راحت سے رہنا چاہتی ہے، اسے وقتا فوقتا پیسوں کا مکھن لگاتے رہا کیجیئے۔ انار چھیلتے ہوئے اگرآپ اس کے ہاتھوں سے انار کے دانے ادھر ادھر بکھرتے ہوئے دیکھ بھی لیتے ہیں اور وہ اس کا کوئی نوٹس نہیں لیتی تو جان لیجیے کہ یہ والی بیوی رشتوں کی تشریح سے نکل کر حاکمیت کی تفسیر کی طرف گامزن ہے۔چوتھی صورت میں آپ کی بیوی پلیٹ میں رکھ کر ایک انار اور چھری لاتی ہے۔ ارادی طور پر چمچ ساتھ نہیں لاتی اورآپ کو چھیلنے کا کہہ کر چمچ لینے جاتی ہے اور کانی آنکھ سے دیکھ بھی لیتی ہے کہ آپ نے انار چھیلنا شروع کیا ہے یا نہیں۔ایسی بیوی کے ہوتے ہوئے جان لیجیے کہ آپ کی منجی آج نہیں تو کل صحن میں، چھت پر یا بیٹھک میں منتقل ہونے والی ہے۔ مسئلہ بس وقت کا ہے، یا آپ بوڑھے ہوئے یا آپ کی اولاد جوان ہوئی اور آپ صحن، چھت یا بیٹھک بدر۔بیویوں کو جانچنے کے اس عمل میں آپ کو پانچویں صورت سے بھی واسطہ پڑ سکتا ہے اور یہ صورت اپنے طرز کی نادر صورتحال بھی ہو سکتی ہے کہ آپ کو ہفتہ بھر تک اناروں کی کوئی سن گن نہیں ملتی اور آپ حقائق جاننے کے لیے کچن کا رخ کرتے ہیں۔آپ فریج کھول کر دیکھتے ہیں تو پتہ چلتا ہے کہ آپ کی محنت کی کمائی سے لائی گئی اناروں کی پیٹی سرے سے غائب ہے ۔تحقیقات کے بعد آپ کو پتہ چلتا ہے کہ آپ کی چاروں بیویاں اناروں کی پیٹی سے لاعلم ہیں اور اناروں کی پیٹی کی پیٹی آپ کے گھر آئی چوتھی زوجہ محترمہ کی والدہ یعنی آپ کی ساس خود اور اپنے بچوں کوکھلا پلا کر ہضم بھی کرچکی ہے۔

اب آپ اوپر بیان کردہ تجربات کی روشنی میں فرض کریں کہ پاکستان کی مثال تھکے ماندہ شوہر کی ہو جبکہ چین پہلی، سعودیہ دوسری ،ایران تیسری اور افغانستان چوتھی بیوی ہو تو ساس کون ہو سکتی ہے۔۔جی ہاں ۔۔آپ درست سوچ رہے ہیں ۔۔۔امریکہ۔۔جہاں سے حال ہی میں ہمارے وزیراعظم صاحب کامیاب دورہ کرکے واپس آئے ہیں ۔عوامی سطح پر عمومی رائے یہی پیش کی جاتی ہے کہ اس ساس سے تعلقات کی داغ بیل پاکستان کے پہلے وزیراعظم لیاقت علی خان نے رکھی جب انہوں نے روس کی دعوت کو مسترد کرتے ہوئے پہلا سرکاری دورہ امریکہ کا کیا اور یوں روس امریکہ سرد جنگ میں پاکستان کا سارا وزن امریکی پلڑے میں ڈال کر فریق ریاست بنا دیا گیا۔کچھ ناقدین کی تو یہ بھی رائے ہے کہ عالمی امداد کے فوری حصول کے لیے امریکہ کے ساتھ تعلقات کا قیام قائد اعظم محمد علی جناحؒ کے ایماءپر کیا گیا جس میں روس کے کیمیونزم نظریے کو پاکستان کے لیے خطرہ گردانتے ہوئے امریکا سے امداد طلب کی گئی ۔پاکستان کی خارجہ پالیسی میں امریکی بلاک کا چناﺅ پاکستان کے لیے مفید بھی رہا اور نقصان دہ بھی ۔تاہم تاریخ اس بات کی گواہ ہے کہ ریاستی مفادات کی اس جنگ میں پاکستان کو فوائد سے زیادہ نقصان ہی اٹھانا پڑا۔ جبکہ اس ساس کے برعکس چین ہمیشہ وفادار دوست یا وفادار بیوی کی طرح ہمیشہ بروقت پاکستان کی مدد کو پہنچا جس کی ایک مثال پاکستان کو تاریخ کے حالیہ بدترین معاشی بحران سے نکالنے کے لیے سی پیک جیسے تاریخ سازمنصوبے کا آغاز تھا جس میں چین کی طرف سے پاکستان میں ابتدائی طور پر 46ارب ڈالر کی سرمایہ کاری کا منصوبہ طے کیا گیا اور آج یہ سرمایہ کاری 62ارب ڈالر تک جا پہنچی ہے ۔تاہم موجودہ دور حکومت میں سی پیک کی رفتار میں کمی اور وزیراعظم کے حالیہ دورہ امریکہ میں اس منصوبے کو فریز کرنے کی افواہیں بھی زیر گردش ہیں جس کے بعد گمان یہ کیا جا رہا ہے کہ پاکستان کو ایک دفعہ پھر 80ءکی دہائی کی طرح مکمل طور پر امریکی بلاک میں پھینکا جا رہا ہے ۔اگر ان افواہوں میں رتی بھر بھی سچائی ہے تو ممکنہ طور پرحکومت کے اس فیصلے کے بھیانک نتائج نکلیں گےکیونکہ سی پیک کی حیثیت اس انار جیسی ہے جسے چین نے وافر مقدارمیں چھیلنے کے بعد طشتری میں سجا کر پاکستان کے سامنے پیش کیا تھا جو اس کی محبت اور اخلاص کی زندہ مثال ہے ۔سی پیک ایشو پر حکومت کا تاحال واضح بیانیہ جاری نہ ہونا مزید شکوک و شبہات کو جنم دے رہا ہے ۔

دوسری طرف ایک انار افغانستان کی طرف سے بھی پیش کیا جا تا رہا ہے جسے چھیلنے کے لیے چوتھی بیوی کے طرز عمل کی مانند چھری اور پلیٹ تو دی جاتی رہی ہے لیکن کھانے کے لیے چمچ نہیں دیا جاتا ۔یہ انارقندھاری انار کہلاتا ہے اس کا رنگ خون کی مانند سرخ لیکن ذائقہ نہایت ترش ہے ۔افغانستان وہ واحد اسلامی ملک ہے جس نے اقوام متحدہ میں پاکستان کو بطور آزاد ریاست تسلیم کرنے سے انکا ر کیا ۔قیام پاکستان سے لے کر آج تک کی تاریخ اس بات کی گواہ ہے کہ افغانستان میں جب بھی کشت وخون کا کھیل کھیلا گیا توغیر ملکی جارحیت کا جواب دینے کے لیے پاکستان کو برادر اسلامی ملک کی مدد کے لیے میدان عمل میں اترنا پڑا۔1978ءمیں سپر پاور کو پاکستانی تعاون کے بغیر شکست دینا ناممکن تھا۔ اس جنگ میں پاکستان نے لاکھوں افغان مہاجرین کو پناہ دے کر دوستی کے اعلیٰ مثال قائم کی ۔نائن الیون کے بعد افغانستان میں جاری دہشتگردی کی جنگ میں بھی پاکستان کو بھاری جانی و مالی نقصان اٹھانا پڑا۔ اس جنگ میں 70ہزار سے زائد انسانی جانوں کی قربانی اور 120ارب ڈالر سے زائد کا معاشی نقصان اٹھا نے کے باوجود آج بھی پاکستان افغانستان میں قیام امن کے لیے پیش پیش ہے ۔جبکہ پاکستان کی قربانیوں کے عوض افغانستان نے پاکستان کو نقصان پہنچانے کا کوئی موقع ہاتھ سے جانے نہ دیاحتیٰ کہ غم رفاقت میں پاکستان کے دشمن بھارت کو پاکستانی مفادات پر مقدم جانا ۔دوسری طرف پاکستان نے افغانستان میں انار چھیلتے چھیلتے اپنی انگلیاں تک کٹو ا لی لیکن آج بھی ساس(امریکہ)کی طرف سے ڈو مور کا ہی تقاضا کیا جارہا ہے ۔وزیراعظم کے حالیہ دورہ امریکہ کو ”نو مور“ سے تشبیہ دی جارہی ہے لیکن حقیقت یہ ہے کہ ماضی کی طرح اس بار پھر امریکی تحفظات کی خاطر افغانستان میں امن کا انار چھیلنا پڑے گا۔اس سے قبل قندھاری انار چھیلنے کی یہ ذمہ داری امریکہ نے اپنے بچوں (بھارت) کو سونپی تھی لیکن بچوں کی انگلیاں کٹنے کے بعد کشمیر کا چمچ لانے کے بہانے یہ ذمہ داری پاکستان کو سونپ دی گئی ہے ۔اب دیکھنا یہ ہے کہ پاکستان کو اس انار کے ساتھ چمچ بھی ملتا ہے یا نہیں۔کہیں ایسا نہ ہو کہ ماضی کی طرح پاکستان انار ہی چھیلتا رہ جائے اور سارے دانے بھارت کی جھولی میں گرا دیئے جائیں یا یوں بھی ہو سکتا ہے کہ پاکستان سارے قندھاری انار امریکہ کی جھولی میں ڈال دے اور ساس سارے دانے اپنے بچوں (بھارت)کو کھلا کر ڈکار مار دے ۔
 

Sheraz Khokhar
About the Author: Sheraz Khokhar Read More Articles by Sheraz Khokhar: 23 Articles with 14613 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.