میاں نواز شریف کا مشکل امتحان․․!!

کہتے ہیں،سیاست بہت بے رحم ہوتی ہے ۔اس کے سینے میں دل نام کی کوئی چیز نہیں ہوتی ،لیکن پاکستانی سیاست میں دل کے ساتھ ضمیر بھی ختم ہو کر رہ گیا ہے ۔گویا ہمارے ہاں سیاست دان دل اور ضمیر دونوں سے آزاد ہوچکے ہیں ۔اَنا کے خول میں لپٹے ہوئے قائدین کے رویوں نے ملک و قوم پر تابکاری اثرات ڈالے ہیں ۔

یوں تو جنرل قمر جاوید باجوہ کا تقرر میاں نواز شریف کی نظر کرم کی بدولت ہوا۔سینئر جرنیلوں کی فہرست میں چوتھے نمبر پر تھے ،لیکن واﷲ عالم میاں نواز شریف کی نگاہِ انتخاب ان پر کیوں ٹھہری ۔اس انتخاب پر میاں نواز شریف کو بہت سے حلقوں کی جانب سے سراہا گیا،کیونکہ جنرل قمر جاوید باجوہ ایک بہترین جنرل کی شہرت رکھتے تھے ۔جمہوریت پر یقین رکھنے والے اور عوامی حکومت کو تنگ نہ کرنے والی سوچ رکھنے والے تھے۔جنرل باجوہ کا دستور کی پاسداری ترجیح دینے والوں میں شمار ہوتا تھا۔لیکن بدقسمتی سے میاں نواز شریف کی نگاہ نے جسے چنا ان سے پہلے روز ہی تعلقات گدلے ہو گئے ۔جب جنرل باجوہ پہلی ملاقات کے لئے وزیر اعظم ہاؤس پہنچے تو ملاقات کا اہتمام معمول سے ہٹ کر کیا گیا تھا۔سولجر کے لئے تو گداز مخملی نشت تو کانٹوں کی ماند سمجھی جاتی ہے ،مگر یہاں پروٹوکول کی عادت اتنی زیادہ ہو چکی ہے کہ اسے اَنا کا مسئلہ بنا لیا جاتا ہے ۔اب میاں نواز شریف بھی تبدیلی چاہتے تھے۔انہیں بھی کسی نے مشورہ دے ڈالا ہو گااور چیف آف آرمی سٹاف کو سادہ سی میز کے ایک جانب بیٹھنا پڑا۔کیونکہ دوسری جانب وزیر اعظم بیٹھے تھے۔یہیں سے میاں نواز شریف کے حریفوں کو موقع ملا اور انہوں نے ہوا دی ۔جنرل قمر جاوید باجوہ ویسے اسے برا نہ مانتے،مگر انہوں نے منوا لیا کہ آپ کے شایان شان پروٹوکول نہیں ملا۔پھر پانامہ کا ہنگامہ،ڈان لیکس اور دن بدن غلط فہمیاں بڑھتی گئیں ۔اس کے نتیجے میں عمران خان کو وزیر اعظم بنا کر اقتدار پر بٹھا دیا گیا ۔عمران خان کے ہر بڑے حریف کو قید میں یا مشکلات میں ڈال دیا گیا۔ملکی معیشت برباد ہو کر رہ گئی ہے ،لیکن پاکستان کی فوجی اور سیاسی قیادت یک جان دو قلب بنے ہیں ۔دیکھنے میں عمران خان کی حکومت کو ’’ستے خیراں نے‘‘۔لیکن کروٹ لینا بھی فطرت میں شامل ہے ۔حزب اختلاف کو یقین ہوتا جا رہا ہے کہ کروٹ لینے کا وقت آ چکا ہے ۔عنقریب تبدیلی کی ہوا چل جائے گی ۔

حزب اختلاف کی قیادت سنگین اور جیل کی صعوبتوں میں مبتلا ہیں ۔قیادت کے لئے مشکلات سے نکلنے کے دو ہی راستے ہیں،ایک طاقت ور طاقتوں کے سامنے جھک جائیں اور بے نامی کی زندگی گزارنے کے لئے جلاوطنی اختیار کرلیں ۔دوسرا راستہ مصائب کا دلیری سے مقابلہ کیا جائے ۔لگ رہا ہے کہ میاں نواز شریف نے دوسری لائن اختیار کر لی ہے ۔یہی فیصلہ میاں نواز شریف کے ’’ووٹ کو عزت دو‘‘کے نعرے کو اجاگر کرنے کے لئے کلیدی حیثیت بھی رکھتا ہے ۔اسٹیبلشمنٹ کی باربار کی مداخلت نے ثابت کیا ہے کہ ان کی غلط پالیسی کی وجہ سے ملک وقوم کو نا قابل تلافی نقصانات سے دوچار ہونا پڑا ہے ۔ملک چند قدم آگے بڑھتا ہے،لیکن مقتدر اداروں کی مداخلت اور حکمرانی کی خواہش ہزاروں قدم پیچھے دھکیل دیتی ہے ۔جب تک مقتدر ادارے انتخابات میں مداخلت یا اثر اندازی ختم کرنے کا مکمل ارادہ نہیں کریں گے ،ملک میں جمہوریت نہیں آئے گی ۔ہم من حیث القوم عجیب ہیں ۔ہم ہمیشہ ماضی یا مستقبل میں پھنسے رہتے ہیں ۔حال کی فکر نہیں کرتے ۔جسے دیکھیں ماضی کی کوتاہیوں ،گناہوں اور غلطیوں کا رونا روتا دکھائی دیتا ہے یاپھر مستقبل کے لئے بلندو بانگ دعوے کی کوئی حد نہیں ۔اس کی مثال موجودہ حکومت سے بڑھ کر اور کیا دی جا سکتی ہے ۔جس نے ماضی کو کریدنے کے علاوہ کیا کیا ہے،مگر اس میں سے ایک روپیہ بھی نہیں نکال سکے ۔مستقبل کے تمام دعوے دھرے کے دھرے رہ گئے ہیں ۔اب رہ گیا حال، اس پر کسی کی توجہ نہیں ہے ۔نہ توجہ دینا کسی کی ترجیح میں شامل ہے ،لیکن حیران کن بیان جنرل جاوید باجوہ کا ہے کہ ہم حکمرانوں کے متحت کام کررہے ہیں اور حکومت درست سمت پر گامزن ہے ۔

حکومت کی جانب سے ماضی پر تو ہر فقرے میں بات کی جاتی ہے ۔چودہ ماہ گزرنے کے بعد بھی تمام تر غلطیوں اور نااہلیوں کا بوجھ ماضی کی حکومتوں پر ڈالا جا رہا ہے۔میاں نواز شریف کے مقابلے میں عمران خان نے کیا آنا ہے ۔اصل مقتدر طاقتوں نے مل کر مقابلہ ڈال لیا ہے ۔انہوں نے میاں نواز شریف کو پہلے والے ’’میاں صاحب ‘‘ سمجھ کر ہاتھ ڈالا تھا،مگر اب وقت ،حالات تبدیل ہو چکے ہیں ۔میاں نواز شریف کے پاس اپنی وراثت میں جو کچھ تھا انہوں نے اپنی اولاد کے نام کر دیا ہے ۔سیاسی گدی مریم نوازکے نام ہو چکی ہے ۔لیکن اس گدی کی منتقلی اتنی آسان نہیں ہوتی ۔یہ مشکل ضرور ہے،مگر ممکن العمل ہے ،لیکن اس کے لئے مزاحمت کی سیاست کا راستہ اختیار کرنا ہو گا۔ اسی لئے میاں نواز شریف نے تمام سودے بازی سے انکار کر دیا ہے ۔یہاں اگر ہم سمجھ لیں کہ یہ سب میاں نواز شریف کی ذاتی جنگ ہے ،پھر بھی ملک و عوام کا بڑا فائدہ ہو سکتا ہے ۔اس لڑائی میں ملک میں سوشل ڈیموکریسی کے امکانات روشن ہوسکتے ہیں ۔اگر میاں نواز شریف اپنے مؤقف پر قائم رہتے ہیں اور حالات ان کے حق میں سازگار ہو جاتے ہیں،تو عوامی بالادستی ممکن العمل ہو سکتی ہے ۔

آج ملک اندرونی اور بیرونی معاملات میں بری طرح الجھ چکا ہے ۔سعودی عرب اور امریکہ کے ساتھ بے لگام بڑھتی دوستی کے نتیجے میں ایران کے خلاف ممکنہ محاذ آرائی میں پاکستان کا حصہ ڈالوایا جائے گا۔جس کی شدید سیاسی مخالفت کا امکان ہے اور داخلی مسائل بے شمار ہیں ۔سب سے بڑھ کر سیاست سے وابسطہ حلقے مضبوط مرکزی اقتدار کے خواہشمند ہیں ۔اسی لئے صدارتی نظام کا شوشہ چھوڑا جاتا ہے ۔یہی وجہ ہے کہ پارلیمانی اداروں کی جس قدر بے توقیری کی جا رہی ہے ۔اس میں ماضی کی حکومتیں بھی برابر کی شریک رہی ہیں ۔پارلیمنٹ کو اہمیت نہیں دی جاتی رہی ہے ۔اس کے وقار کو تیس نیس کر دیا گیا ہے ۔سیاستدانوں ،سیاسی جماعتوں اورعوام کے درمیاں فاصلے دانستہ بڑھائے گئے ہیں ، بے اعتمادی کو فروغ دینے کے لئے ہر ہتھ کنڈا استعمال کیاگیا ہے ۔بال آخر جس کا نتیجہ یہی نکلے گا کہ غیر جمہوری سیاسی بالادستی تسلیم ہو جائے گی۔تمام تر راستے اسی جانب بنائے جا رہے ہیں ۔جو لوگ مولانا فضل الرحمٰن اور میاں نواز شریف کو غلط سمت پر جانے والے لوگ کہہ رہے ہیں اور کوشاں ہیں کہ وہ اپنی سوچ تبدیل کر کے ناخداؤں کے سامنے سر تسلیم خم کر لیں ۔انہیں اپنے طرز عمل پر تنقیدی نظر دوڑانے کی ضرورت ہے ۔کیونکہ یہ ملک ہمارا ہے اور ہم اس کے پاسباں ہیں ۔آج یہ ہم سے اپنا حق مانگ رہا ہے ۔ملک کی سالمیت کو داؤ پر لگا دیا گیا ہے ۔قوم کو غلام اور ملک گروی رکھ دیا گیا ہے ۔لیکن شورو غل اتنا کہ کان پر پڑی آواز بھی نہیں سنائی دیتی ۔یہاں ہر فتح ناچ گانے سے حاصل کرنے کے فارمولے پر عمل پیرا ہے ۔کشمیر فتح ہو گا تو فنکاروں کے کنسرٹ کروا کر کشمیر فتح کیا جا رہا ہے ۔ڈینگی کے لئے کچھ کرنے کی ضرورت نہیں ۔مال روڈ پر ڈینگی سے بچاؤ اور صفائی کے لئے گانے لگا دیئے جاتے ہیں ڈینگی انہی گانوں سے متاثر ہو کر غائب ہوجائے گی ۔یہ سوچ ہے اور یہ انداز ہے ۔واہ کیا کہنے ۔
 

Irfan Mustafa Sehrai
About the Author: Irfan Mustafa Sehrai Read More Articles by Irfan Mustafa Sehrai: 153 Articles with 95139 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.