نام نہاد بھارتی مسلم لیڈران۔ سیتارام اور کشمیر

پاکستان کی تمام مذہبی و سیاسی جماعتوں اور تمام بائیں بازو کی قیادتیں مسئلہ کشمیر پر ایک پیج پر موجودہیں اور کشمیریوں سے اظہار یکجہتی کے لیے مختلف اوقات میں جلسے جلوس کرتے نظر آتے ہیں۔ مگردیکھنا یہ ہے کہ بھارتی نام نہاد مسلم لیڈران اپنے کشمیری بھائیوں کے لیے کتنے متفکر ہیں۔ بھارتی مسلم و سیاسی لیڈران کا تذکرہ کرنے سے پہلے بطورنمونہ ایک مثال پیش کرنا ضروری ہے۔ سی پی آئی(ایم)یعنی کمیونسٹ پارٹی آف انڈیا مارکسی بھارت کی ایک بائیں بازو کی سیاسی جماعت ہے جس کے جنرل سیکریٹری سیتارام یچوری کو سرینگرہوائی اڈے پر اس وقت حراست میں لیاگیا جب وہ اپنی پارٹی کے ایم ایل اے یوسف تریگامی سے کشمیر میں ملاقات کرنے جا رہے تھے۔ بعد ازاں رہائی وہ بھارتی سپریم کورٹ پہنچے اور اپیل کی کہ عدالت حکومت کو حکم جاری کرے کہ وہ اپنے بیمار ساتھی اور پارٹی رہنما اور وادی میں سی پی ایم کے واحد رکن یوسف تریگامی سے ملاقات کی اجازت دیں، عدالت نے ملاقات کی اجازت دے دی۔ سیتارام کو اپنے ایک ساتھی کی فکر تھی اس لیے تو سپریم کورٹ کا دروازہ کھٹکھٹایا اور عدالت کو ماننا پڑا کہ یہ انکا بنیادی حق ہے، سوچئیے کہ کیا ہوتا اگر ہزاروں مسلمانوں نے اس طرح کی درخواستیں کورٹ میں دائر کی ہوتیں ۔ وادی جنت نظیر میں 80 لاکھ مسلمان ہیں جو گزشتہ 68دنوں سے گھروں میں قید ہیں۔ عبادت گاہوں کو تالے لگے ہوئے ہیں، تعلیمی ادارے مسلسل بند ہیں۔ نیٹ فون ، مواصلات کا نظام معطل ہے، انسانی حقوق کی مسلسل پامالی ہورہی ہے، کاروبار ملیں ، دکانیں بازار بند ہیں اربوں روپے خسارے کا سامنا ہے،گرفتاریاں تشدد جاری ہے، پھر بھی ایک بھی مسلم مغربی لیڈر کو کشمیر جانے کی توفیق نہیں ہوئی۔ کوئی تو مسلم لیڈر کمیونسٹ پارٹی آف انڈیا کے لیڈر سیتارام کی تقلید کرتا اور اپنے کشمیری بھائیوں کا درد محسوس کرتا۔ کشمیریوں کو حق حاصل ہے کہ ان نام نہاد مسلم لیڈروں سے پوچھیں پنچائیت کے قارئین آئیے، سب سے پہلے بات بات پر مسلمانوں کا دم بھرنے، مسلمانوں کا نمائندہ ہونے کا دعوی کرنے والے رکن پارلیمنٹ اسدالدین اویسی شیروانی اور ٹوپی والے کشمیر کی آزادی کی بات نہ کرو، مگرسی پی آئی کے لیڈر کی تقلید کرتے ہوئے لاکھوں کشمیریوں کے زخم پر پٹی کرنے کے لیے کشمیر میں چلے جاؤ۔ آخر اس انسانی بحران سے وہ کیوں منہ پھیرے ہوئے ہیں؟ ہاں مولانا نے پارلیمنٹ میں 370 اور 35اے کی مخالفت ضرور کی ہے لیکن پارلیمنٹ کے باہر انہیں کیا ہوا؟کون سی قیامت ہے جو اب اسی کو کشمیر جانے سے روک رہی ہے؟ اویسی تو ایک بیرسٹر ہیں انہوں نے اب تک سپریم کورٹ کے دروازے پر دستک نہیں دی۔ سیتارام یچوری کے مقابلے میں تو ان کا کیس زیادہ مانا جاتا! سیتارام اپنے ایک ساتھی لیے عدالت جاسکتے ہیں تو اویسی اپنے لاکھوں مسلم بھائیوں کے لیے کیوں نہیں؟ صرف اویسی ہی نہیں بلکہ بھارتی مسلمانوں کے سب سے اہم مذہبی لیڈران ، دیوبند کے مولانا محمود مدنی اور ان کے چچا ارشد مدنی کی بات کرتے ہیں، دیوبند میں سب سے بڑے مسلم مذہبی جماعت جمیع علما ہند جس میں محمود مدنی جنرل سیکرٹری اور ارشد مدنی صدر نے اپنے سالانہ اجلاس 12 ستمبر 2019کو کشمیر کے خصوصی درجہ کے خاتمہ کی حمایت میں قرارداد پاس کر دی اور 35 ایکو خارج کیے جانے کی بھی حمایت کرتے ہوئے مودی جی کی گود میں جابیٹھے اتنا ہی نہیں ارشد مدنی نے دہلی میں آر ایس ایس کے سربراہ موہن بھاگوت سے طویل دورانیہ کی ملاقات کی۔یاد رہے کہ ایک وقت تھا جب جمیعت علما ہند اور سنگھ یعنی آر ایس ایس ایک دوسرے کے سخت مخالف رہے ہیں اب دیوبند کو آرایس ایس سے کوئی تکلیف نہیں ہے تبھی تو کشمیر پر حکومت کی کارروائی کے ایک ہفتے کے اندر حمایت پر مبنی قرارداد پاس کرکے آر ایس ایس کی آئیڈیالوجی کی حمایت کردی۔ کشمیریوں پر سودے بازی کیوں نہ کرتے؟ کیونکہ جمیعت ہند کو بیرون ملکی فنڈ، خاص کر سعودی عرب اور مشرق وسطی کے ممالک سے آنے والی مدد پر حکومت نے شکنجہ کسا ہوا تھا۔ مزید مدنی کی غیر قانونی تعمیرات اور تجاوزات سے منسلک باتیں بھی تیز ہوتی جارہی تھیں۔ رام پور کے مضبوط تصور کیے جانے والے رکن پارلیمنٹ اعظم خان بھی وکیل ہیں مگر کشمیر پر خاموش ہیں۔ نئی لوک سبھاکے کل 27 مسلم اراکین میں سے کئی ارکان نے پارلیمنٹ کے اندر مذہبی نعرے لگا کر خود کی مسلم پہچان زوروشور سے قائم کرنے کی کوشش کی لیکن ان میں سے ایک بھی کشمیر جانے ان کے لئے آواز اٹھانے سپریم کورٹ کے دروازے تک آج تک نہیں پہنچا۔ ایک اور مذہبی لیڈر دہلی کی جامع مسجد کے شاہی امام احمد بخاری اور بریلی مدرسہ سے جڑے مذہبی قیادت نے نہ کشمیریوں کا حال پوچھا اور نہ ہی کشمیر جانے کی کوشش کی۔ سب سے اہم یہ کہ شعیہ لیڈر کلب جواد نے کشمیر پر حکومتی موقف کی تائید ہی نہیں کی بلکہ خوش بھی ہیں۔ ان کی صحت پر کوئی اثر نہیں پڑتا کہ کشمیریون کے حقوق سلب ہوں یا گرفتاریاں جبکہ کشمیر کے 80 لاکھ مسلمانوں میں سے 25 سے 30 فیصد تو شیعہ ہی ہیں۔ ان دونوں مذکورہ علما پر پولیس کی طرف سے کئی مقدمات درج کر رکھے ہیں جن میں بیرون ملکی فنڈ اکٹھا کرنے کے الزام شامل ہیں۔ یہ الزام جواد کے ہی ایک معاون وسیم رضوی نے لگا رکھے ہیں۔ رضوی فی الحال شیعہ وقف بورڈ کے چئیرمین ہیں۔ نام نہاد بھارتی علما کے پاس اپنے مفاوات کے لئے بہت وقت ہے لیکن کسی کے پاس اس مشکل وقت میں کشمیریوں کا ساتھ دینے اور حکومتی ظلم کے خلاف آواز اٹھانے کا وقت نہیں۔ آخر میں ابوالکلام آزاد کا ایک قول: مسلمانوں کو حق گوئی کا جو نمونہ ان کی قومی تاریخ دکھاتی ہے وہ تو ایہ ہے کہ ایک جابر حکمران کے سامنے ایک بے پرواہ انسان کھڑا ہے، اس پر الزام یہی ہے کہ اس نے حکمران کے ظلم کا اعلان کیا۔ اس کی پاداش میں اس کا ایک عضو کاٹا جا رہا ہے، لیکن جب تک زبان کٹ نہیں جاتی وہ یہی اعلان کرتی رہتی ہے کہ حکمران ظالم ہے ۔ یہ واقعہ خلیفہ عبد الملک کے زمانے کا ہے جسکی حکومت افریقہ سے سندھ تک پھیلی ہوئی تھی۔ تم دفعہ 124 الف کو اس سزا کے ساتھ تول سکتے ہو۔ میں اس درد انگیز اور جانکاہ حقیقت سے انکار نہیں کرتا کہ اس انقلاب کی حالت کے ذمہ دار خود مسلمان ہی ہیں۔انہوں نے اسلامی زندگی کے تمام خصائص کھو دیئے اور ان کی جگر غلامانہ زندگی کے تمام رذائل قبول کرلئے ۔ ان کی موجودہ حالت سے بڑھ کر دنیا میں اسلام کے لئے کوئی فتنہ نہیں، جبکہ میں یہ سطریں لکھ رہاہوں تو میرا دل شرمندگی کے غم سے پارہ پارہ ہو رہا ہے کہ اسی ہندوستان میں ایسے مسلمان بھی موجود ہیں جو ایمانی کمزوری کی وجہ سے اعلانیہ ظلم کی پرستش کر رہے ہیں۔ ظلم کی پرستش کرنے والے مسلمان دین فروش ہیں۔

 

Idrees Jaami
About the Author: Idrees Jaami Read More Articles by Idrees Jaami: 26 Articles with 19169 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.