ہاں جی حکومت کتھے ہے ریمنڈ ڈیوس؟

یہ کسی باقاعدہ تحقیق کا نتیجہ تو نہیں لیکن میرا خیال ہے کہ کوئی سر پھرا اگر اسے ثابت کرنے پہ تل جائے تو شاید یہ بات پایہ ثبوت کو بھی پہنچ جائے کہ مزاح اور انسان اکھٹے ہی تخلیق کیے گئے تھے۔اگر طالبان کا ڈر نہ ہوتا تو میں خود بھی اس ضمن میں کافی ثبوت بہم پہنچا سکتا تھا اور اس حرکت سے اسلام کی بنیادی اور آفاقی نظام اور پیغام کو بھی کوئی گزند پہنچنے کا اندیشہ نہ ہوتا ۔لیکن اب تو اسلام اور اس کی عظیم روایات بھی نسوار کی عنایات کے تلے یوں دب کے رہ گئی ہیں کہ اب اسلام طالبان کی مرضی اور منشاء کا مرہون منت ہے۔ذاتی خواہشات اور روایات کو اسلامی شریعت کا نام دے کے فدایان اسلام نے اسلام کا جو نیا ورژن نکالا ہے اس میں مزاح نام کی کسی چیز کی گنجائش نہیں۔چونکہ جان ہر ایک کو پیاری ہوتی ہے اس لئے میں بھی کسی "مزاحیہ خود کش "ہی کے انتظار ہی کو مناسب سمجھتے ہوئے مزاح اور تخلیق آدم کے موضوع پہ ہونے والی کسی تحقیق کا منتظر رہوں گا۔

ریمنڈ دیوس گرفتار ہوا تو میرے سمیت لکھنے والوں نے لکھ لکھ کے دفتر کے دفتر سیاہ کر دئیے۔کس کس غیرت حمیت اور حرمت کا ڈھنڈورہ تھا جو پیٹنے والوں نے نہیں پیٹا۔غیرت بریگیڈ کے طعنے بھی سنے لیکن ریمنڈ پھر بھی نکل گیا اور اب ہم صرف لکیر پیٹ رہے ہیں یا اپنا سینہ۔ادھر ریمنڈ کی موج ہوگئی کہ تین نا حق خون کر کے بھی وہ امریکہ میں اپنی گوری کے ساتھ جوانیاں مانڑ رہا ہے یا پھر لواحقین کی جنہوں نے جھولیاں بھر بھر کے خون بہا لیا ہے اور اب وہ اس ڈر سے چھپتے پھر رہے ہیں کہ حکومت کہیں اس رقم پہ بھی کہیں کوئی ٹیکس نہ لگا دے۔ویسے سنا یہ ہے کہ پاکستان کی لاکھوں خواتین نے باقاعدہ امریکی سفارت خانے اور اس ملک میں سات سو کے قریب موجود ریمنڈوں سے یہ درخواست کی ہے کہ وہ بھی فہیم اور فیضان والے پیکج پہ اپنے اپنے خاوندوں کی رضا کارانہ شہادت کے لئے تیار ہیں۔ بلکہ کچھ نے تو اپنے اپنے "میاؤں "کو قربانی کے جانوروں کی طرح سجا کے خود امریکی ایمبسی چھوڑنے کا بھی اعلان کیا ہے۔ ذرائع بتاتے ہیں کہ اگر عمران خان کی نیٹو سپلائی لائن بند کرنے کی دھمکی کی بنا پہ کچھ دن مجبوراََ ڈرون روکنے پڑے تو پھر ان مہربان خواتین کی آفر پہ غور کیا جاسکتا ہے۔ایسا ہوا تو آنے والے کچھ ہفتے میاں صاحبان(میاں برادران نہیں)پہ کافی بھاری ہو سکتے ہیں۔

بات ہو رہی تھی مزاح کی اور میں مذاق کی طرف چل نکلا۔ یہ مذاق نہیں تو اور کیا ہے کہ دیت کا خالص اسلامی قانون حرکت میں آیا بھی تو ریمنڈ ڈیوس کے لئے۔اس قانون کو جو حکومت حرکت میں لائی وہ نعوذباللہ اسے اور ان جیسے دوسرے قوانین کو کالے قانون کہتے نہیں تھکتی۔یہ بھی تو مذاق ہی کہلائے گا کہ امریکہ بہادر ہمیں ہمارے ہی ملک میں ان قوانین کو نافذ نہیں کرنے دیتا لیکن اس کا اپنا بندہ پھنس جائے تو اسے اسی قانون کی آڑ لے کے صاف بچا کے نکال لیتا ہے۔میں صدقے اور واری جاؤں ان عدالتوں پہ جو اپنے لوگوں کو انصاف اس تیزی سے مہیا کرتی ہیں کہ دادا کے مقدمے کا فیصلہ بعض اوقات پڑپوتا سنتا اور سر دھنتا ہے لیکن ریمنڈ کے مقدمے میں ان آزاد عدالتوں نے بھی چٹ منگنی اور پٹ بیاہ کے محاورے کو شرمندہ کر کے رکھ دیا۔بیمار کوئی بھی ہو اور بیماری کیسی بھی کیوں نہ ہو دکھ کی بات ہے لیکن عین اس موقع پہ مجھے نواز شریف کی بیماری اور شہباز اعظم جناب شہباز شریف کی تیمارداری بھی مذاق ہی لگتی ہے۔ کہتے ہیں جنگ کے ہنگام گھوڑے نہیں بدلا کرتے ۔ہمارے بھی گھوڑے تو نہیں بدلے البتہ انہوں نے جنگ کا میدان بدل لیا۔ پیچھے رہ گیا بے چارہ رانا ثناءاللہ جسے گھوڑوں کا چارہ اور لوٹوں کی پالش تلاش کرنے سے فرصت ملے گی تو اسے بحیثت وزیر قانون معلوم پڑے گا کہ اس کی ناک کے عین نیچے ایک جہاز کھڑا ہے جو کل اس کی حکومت کے سب سے ہائی پروفائل مجرم کو پھر کر کے لے اڑے گا۔

اللہ جانے میرے خیالات اتنے پراگندہ کیوں ہوتے ہیں۔میں خالصتاََ ایک مزاحیہ مضمون لکھ کے اپنے قلم کو دوبارہ رواں کرنا چاہ رہا تھا کہ یہ بد بخت ریمنڈ ڈیوس نجانے کدھر سے آٹپکا۔لوگ کہتے ہیں کہ اسے امریکہ کے حوالے کرنا ہماری قومی سلامتی کے لئے ضروری تھا۔اس لئے یہ فیصلہ بھی قومی سلامتی کے اداروں نے کیا۔ مجھے چونکہ طالبان سے ڈر لگتا ہے اس لئے اس حوالے سے میں نے اپنے قلم کا منہ باندھ دیا ہے۔ ویسے بھی بھائیوں! قوم کہیں ہو گی تو پھر سلامتی ہو گی جب قوم ہی نہیں تو کیا قومی سلامتی اور کیا اس کے ادارے؟لطائف اور انسان کا چولی دامن کا ،ازل اور ابد کا ساتھ ہے۔لطائف پہلے بھی سنے اور سنائے جاتے تھے۔ موبائیل کے آنے سے یہ سہولت ہوگئی ہے کہ اب یہ نعمت گھر گھر اور در در مہیا ہے اور بچہ بچہ اس سے لطف اندوز ہو رہا ہے۔آئیے جاتے جاتے ہم بھی اس نعمت سے لطف اندوز ہو ہی لیں۔

ریمنڈ چلا گیا۔آزاد میڈیا نے بھی چند دن اپنی دکانداری چمکائی اور اس کے بعد وہ بھی ٹائیں ٹائیں فش۔انہیں اس کے بعد ورلڈ کپ کا بہتر روزگار مہیا ہوگیا اور اس طرح انہوں نے بھی اپنے حصے کی دیت وصول کرنا شروع کر دی۔پاکستان آفریدی کی قیادت میں سیمی فائنل تک پہنچ گیا۔یہ الگ بات کہ سیمی فائنل میں پہنچ کے ہمارے شہزادوں کا" ہاسا" نکل گیا لیکن بہر حال یہ ضرور ہوا کہ کچھ منچلوں نے چند دن خوب موج مستی کی اور کچھ نئے لطیفے بھی منظر عام پر آئے۔جن میں سے کچھ گفتنی ہیں اور کچھ نا گفتنی۔میچ کے پینتیویں اوور میں بیٹنگ کرتے ہوئے آفریدی کی طرف سے آنیوالی یہ اپیل حاصل غزل تھی کہ ا ب تمام پاکستانی وضو کر لیں، مصلے بچھا لیں۔تسبیح ہاتھ میں پکڑ لیں کہ معاملہ اب تقریباََ ہمارے ہاتھ سے نکل گیا ہے۔جب ٹیم ہار گئی تو آخری میسج آیا ۔لکھا تھا لو جی ورلڈ کپ بخار ختم ۔۔۔۔۔۔ہاں جی حکومت ،کتھے ہے ریمنڈ ڈیوس؟کاش ہماری حکومت بھی آفریدی کی طرح عوام سے بر وقت یہ اپیل ہی کر لیتی کہ پاکستانی اب اپنے وضو مضبوط کر لیں ۔مصلے بچھا لیں ،تسبیحیں ہاتھ میں پکڑ لیں۔ریمنڈ کا معاملہ بھی ہمارے ہاتھ سے نکلنے ہی والا ہے تو شاید عمران خان اس وقت نیٹو سپلائی بند کرنے کے لئے دھرنے کا اعلان کرتا۔ کہتے ہیں وہ مکا جو رنگ میں لڑائی کے بعد یاد آئے اسے پھر اپنے ہی منہ پہ مار لینا چاہئیے۔
Qalandar Awan
About the Author: Qalandar Awan Read More Articles by Qalandar Awan: 63 Articles with 54467 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.