ملائشیا کانفرنس ،اسلامی دنیا میں تقسیم کی کوشش

ملائشیا میں ہونے والی چار روزہ کانفرنس اختتام پذیر ہورہی ہے جس میں او آئی سی کے رکن 57ممالک کے سربراہان کو شرکت کی دعوت دی گئی تھی تاہم ان میں سے صرف بیس ممالک کے سربراہ اور نمائندگان نے شرکت کی۔ کوالالمپور کانفرنس میں پاکستان، سعودی عرب، انڈونیشیا، مصر، متحدہ عرب امارات اور دیگر ملک شریک نہیں ہوئے۔ سعودی عرب اور یو اے ای کو تو اس میں شرکت کی دعوت ہی نہیں دی گئی جبکہ پاکستان سمیت دوسرے ممالک نے شریک نہ ہونے کی وجہ بیان کرتے ہوئے کہا کہ پاکستان امت مسلمہ کے اتحاد کا داعی ہے۔ اس لئے وہ ایسے کسی سمٹ میں شریک نہیں ہو سکتا جس سے مسلم امہ کے اتحاد کو نقصان پہنچنے کا اندیشہ ہو۔ کانفرنس کی افتتاحی تقریب میں ترک صدر رجب طیب اردوان، ایرانی صدر حسن روحانی اور قطر کے امیر شیخ تمیم بن حماد الثانی شریک ہوئے۔ بین الاقوامی میڈیا میں شائع ہونیو الی رپورٹوں میں کہا گیا ہے کہ اس کانفرنس کا مقصد او آئی سی کے متبادل پلیٹ فارم قائم کرنا ہے۔ اسی طرح یہ بھی کہا گیا ہے کہ سعودی عرب کو تنہا کرنے کیلئے اس کانفرنس میں اخوان المسلمون اور یمن کے حوثی باغیوں کی حمایت یافتہ طاقتوں کو اکٹھا کیا گیا یہی وجہ ہے کہ اخوان المسلمون نے اس کانفرنس سے متعلق ردعمل ظاہر کرتے ہوئے کہا ہے کہ وہ ملائشیا میں کانفرنس کی صورت میں ہونے والی ہر سرگرمی کو قدر کی نگاہ سے دیکھتے ہیں جس میں ایران، قطر اور ترکی شرکت کر رہے ہیں۔ العربیہ ٹی وی کی رپورٹ کے مطابق اخوان المسلمون کا کہنا ہے کہ ترکی اور قطر کے اخوان کے ساتھ براہ راست تعلقات ہیں جبکہ ایران بھی اخوان سے متعلق نرم گوشہ رکھتا ہے۔اخوان کی حمایت کی ایک بڑی وجہ یہ بھی بیان کی گئی ہے کہ کوالالمپور کانفرنس میں متعدد ایسے ممالک نے شرکت کی جنہوں نے اخوان المسلمون کے مفرور لیڈروں کو پناہ دے رکھی ہے۔ یمن کے حوثی باغیوں کی قیادت نے بھی ملائشیا میں ہونے والی کوالالمپور کانفرنس کا خیر مقدم کیا اور حوثی ملیشیا کی انقلابی کونسل کے رکن محمد علی الحوثی نے کہا ہے کہ موجودہ حالات میں ملائشیا میں مسلم ملکوں کے رہنماؤں کا جمع ہونا غنیمت ہے اور یہ کہ ہم ملائشیا کے وزیراعظم مہاتیر محمد کو سربراہ اجلاس منعقد کرنے پر مبارکباد پیش کرتے ہیں۔

کوالالمپور کانفرنس کے لیے کوئی ایجنڈا جاری نہیں کیا گیا تاہم میڈیا رپورٹس میں بتایا گیا ہے کہ کانفرنس میں مسئلہ کشمیر اور مشرق وسطیٰ کے مسائل، شام اور یمن کے تنازعہ، میانمار کے روہنگیا مسلمانوں اور چین میں کیمپوں میں محصور یغور مسلمانوں کے حوالے سے کی جائے گی۔ اس چار روزہ کانفرنس کا اختتام مشترکہ اعلامیہ کے بعد ہو گا۔ملائشیا کے وزیراعظم مہاتیر محمد نے کہا ہے کہ یہ سمٹ مذہب یا مذہبی معاملات پر بحث کے لیے پلیٹ فارم نہیں بلکہ اس میں امت مسلمہ کو درپیش مسائل پر گفتگو کی جائے گی لیکن ملائشیا کے پاس ان سوالات کا جواب نہیں ہے کہ اگر اس کانفرنس کا مقصد محض یہی ہے تو پھر اس کیلئے ایک نئے پلیٹ فارم کی کیا ضرورت ہے؟ کیا یہ کام اسلامی تعاون تنظیم کے تحت نہیں ہو سکتا تھا؟اور کیا ایک نیا بلاک تشکیل دیکر مسلم امہ کے اتحاد و یکجہتی کو کمزور نہیں کیا جارہا؟ مسلمان ملکوں میں ایک نیا بلاک تشکیل دینے کی کوششوں کو بین الاقوامی اسلامی اداروں کی اجتماعی کاوشوں کو نقصان پہنچانا قرار دیا گیاہے۔ اس لئے سعودی عرب اور او آئی سی کی پچاس سالہ خدمات کو یکسر نظر انداز کرنا دینا کسی طور درست نہیں ہے۔ ملائشیا کے وزیراعظم مہاتیر محمد چند دن قبل او آئی سی سے متعلق کھل کر اظہار خیال کر چکے ہیں اور ان کا کہنا ہے کہ یہ پلیٹ فارم مسلمانوں کے مسائل حل کرنے میں ناکام رہا ہے۔ ان کی اسی گفتگو کے تناظر میں یہ سمجھا جارہا ہے کہ وہ او آئی سی کے متبادل پلیٹ فارم قائم کرنے کی کوشش کر رہے ہیں لیکن کوالالمپور کانفرنس میں اہم اسلامی ملکوں کی عدم شرکت اور ان کے بائیکاٹ کو دیکھ کر واضح نظر آرہا ہے کہ یہ مقصد کامیاب نہیں ہو سکا۔ ملائشیا میں ہونے والی کانفرنس پر مسلم دنیا کے مختلف اہم ممالک کی جانب سے سخت تحفظات کا اظہار کیا جارہا ہے۔مبصرین کی جانب سے کہا گیا ہے کہ ایران اور قطر کو کانفرنس میں بلانا اور سعودی عرب جیسے ملکوں کو دعوت نہ دینا مسلمانوں کے دینی مرکز سعودی عرب کو تنہا کرنے کی کوشش ہے جسے کسی طور درست قرار نہیں دیا جاسکتا۔ او آئی سی نے اپنے قیام سے لیکر آج تک مسلم امہ کیلئے بے شمار خدمات انجام دی ہیں۔اسلامی تعاون تنظیم کو یہ اعزاز حاصل ہے کہ یہ دنیا کے ڈیڑھ ارب مسلمانوں کی آواز ہے اور یہ تنظیم اقوام متحدہ اور دیگر عالمی اداروں کے ساتھ بھی مشاورتی عمل میں منسلک ہے تاکہ دنیا بھر میں مسلمانوں کے مفادات کا تحفظ اور رکن ممالک کے اختلافات کو دور کیا جاسکے۔ اس تنظیم کا مقصد مسلمانوں کے مفادات کا تحفظ کرنا، مسلمانوں کو یک آواز رکھنا، اور قوموں کے تعلقات کو مضبوط کرنا ہے۔ او آئی سی کی تاسیس اس تاریخی سربراہی کانفرنس کی قرارداد کے نتیجے میں ہوئی جومراکش کے دار الحکومت رباط میں 25 ستمبر 1969 میں مقبوضہ بیت المقدس میں مسجد اقصی کو آگ لگانے کے مجرمانہ عمل کے رد عمل کے طور پر منعقد کی گئی تھی۔ پچھلی چار دہائیوں کے دوران رکن ممالک کی تعداد 30 سے بڑھ کر 57 ہوگئی، بعد ازاں تنظیم کے چارٹر میں کچھ تبدیلیاں کی گئیں تاکہ عالمی پیشرفت سے مطابقت رکھی جاسکے۔

مملکت سعودی عرب نے ہمیشہ اسلامی تعاون تنظیم(او آئی سی) کو سپورٹ کرنے کا اہتمام کیا ہے تاکہ یہ تنظیم مسلم دنیا کے مسائل کے حل کے لیے بہتر انداز سے اپنا کردار ادا کر سکے۔ دنیا میں ایک اہم ملک ہونے کے اعتبار اور حیثیت سے،برادر ملک کا اسلامی یکجہتی کے فروغ کے لیے ایک اہم اور با اثر تزویراتی کردار رہاہے۔ اقوام متحدہ کے ادارے کے بعد، اسلامی تعاون تنظیم دنیا کا دوسرا بڑا عالمی ادارہ تصور کیا جاتا ہے۔ مملکت سعودی عرب، مصیبت کی گھڑی میں جب کبھی بھی امت مسلمہ سیاسی، معاشی، یا قدرتی آفات میں مبتلا ہوتی ہے، تو اپنے بھائیوں کی طرف مدد کا ہاتھ بڑھاتی ہے۔ خادم الحرمین شریفین ہمیشہ عرب اور اسلامی ممالک کے درمیان دوستی، اخوت اور یکجہتی کی فضا قائم رکھنے کے لیے کوشاں رہتے ہیں، تاکہ مسلمانوں کی صفیں متحد رہیں اور ان کے درمیان اختلافات نہ پیدا ہوں۔ اسلامی مسائل کے حل کے لیے اٹھائے گئے اقدامات کا مقصد مسلمانوں کے درمیان اخوت اور بھائی چارے کی فضا کو قائم رکھنا اور باہمی تعلقات کو کدورتوں سے پاک رکھنا ہے تاکہ اسلامی یکجہتی کو مضبوط کیا جا سکے۔ مملکت سعودی عرب، بانی شاہ عبدالعزیز کے دور سے لیکر آج خادم حرمین شریفین شاہ سلمان بن عبدالعزیز کے دور تک، امت مسلمہ کی پریشانیوں کا بغور جائزہ لیتی رہی ہے اور اسلامی یکجہتی کو مضبوط بنانے کرنے کے لیے انتھک کاوشیں کرتی رہی ہے۔ برادر ملک ہمیشہ امت مسلمہ کے مسائل کے خاتمے کے لیے عالمی قوانین اور اسلامی سربراہی کانفرنسوں کی قراردودوں اور اسلامی ممالک کے وزراء خارجہ کی ملاقاتوں کے ذریعہ اسلامی تعاون تنظیم کے سائے میں منصفانہ حل تلاش کرتا رہا ہے۔

ملائشیا کانفرنس سے متعلق کہا گیا ہے کہ اس سے اسلامی دنیا دو حصوں میں تقسیم ہو گئی ہے۔ سنگاپور کی یونیورسٹی میں مشرق وسطیٰ اور عالمی امور کے ماہر جیمز ڈور نے کہا ہے کہ اصل مسئلہ یہ ہے کہ دو دھڑے بن گئے ہیں۔ قطر اور ترکی سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات کے خلاف ہیں جبکہ پاکستان ان دونوں گروپوں کے درمیان تعلقات بہتر کرنے کی کوششوں میں مصروف ہے۔حقیقت یہ ہے کہ جب پہلے سے او آئی سی کا فورم موجود ہے تو پھر نیا بلاک بنانے کی کوششیں مسلم دنیا کو تقسیم کرنے کے سوا کچھ نہیں ہیں۔ انڈونیشیا کے سربراہ بھی اسی لئے اس کانفرنس میں شریک نہیں ہوئے۔ او آئی سی کے جنرل سیکرٹری یوسف العثیمین نے کہا ہے کہ کوالالمپور میں اسلامک فورم کا انعقاد عالم اسلام کے قافلے سے باہر نکل کرشور کے مترادف ہے۔ اسلامی تعاون تنظیم پوری دنیا کے مسلمانوں کی نمائندہ تنظیم ہے اور اس کا میکانزم اس کی حدود کے اندرکسی بھی اجتماع اوراجلاس کی اجازت دیتا ہے۔ انہوں نے وضاحت کی کہ عالم اسلام کی سطح پرکوئی بھی ایکشن او آئی سی کے فورم سے کیا جانا چاہیے۔
 

Unaiza Qamar
About the Author: Unaiza Qamar Read More Articles by Unaiza Qamar: 5 Articles with 3664 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.