مولانا فضل الرحمن پر قاتلانہ حملوں کے مقاصد

جمعیت علماء اسلام کے قائد اور پاکستانی سیاست کے اہم رہنما مولانا فضل الرحمن پر 30 اور 31 مارچ 2011ء کو صوابی اور چار سدہ میں مسلسل دو قاتلانہ حملے ہوئے۔ ان خودکش بم دھماکوں کے نتیجے میں25 سے زائد افراد جاں بحق اور درجنوں زخمی ہوئے۔ مولانا پر ہونے والے ان حملوں کے حوالے سے اب تک میڈیا میں بہت کچھ آچکا ہے۔ جمعیت علماء اسلام اور دیگر مذہبی جماعتوں کے رہنما ان حملوں کو عالمی اور مقامی سامراج کی دینی قوتوں کے خلاف سازش قرار دے رہے ہیں جبکہ بعض لوگ ان حملوں کو ایجنسیوں کی کارستانی سمجھتے ہیں اور کچھ کا یہ کہنا ہے کہ ان حملوں کا مقصد عوامی ہمدردی حاصل کرنا ہے۔ یہ رائے رکھنے والے لوگوں کا اشارہ مولانا فضل الرحمن کی جماعت جمعیت علماء اسلام یا پھر ان کے ہمدردوں کی طرف ہے۔ دوسرے الفاظ میں یہ بھی کہا جاسکتا ہے کہ اس طرح کی رائے رکھنے والوں کا خیال ہے کہ ان حملوں کے پیچھے مولانا کی خود مرضی شامل ہے۔ اسی طرح دیگر آراء بھی پائی جاتی ہے لیکن اس ساری صورتحال کو مدنظر رکھتے ہوئے ان حملوں کے مقاصد پر غور کرنے کی ضرورت ہے تاکہ اس بات کو سمجھنے میں آسانی ہو کہ آخر مولانا فضل الرحمن کسی کے نشانے پر کیوں یا پھر واقعی وہ اس طرح کے حملوں کے ذریعے سستی شہرت حاصل کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ پہلی بات تو یہ ہے کہ پاکستانی سیاست اور معاشرے کی بدقسمتی یہ ہے کہ جب تک کوئی آدمی نقصان سے دوچار نہیں ہوتا اس وقت تک لوگ اس کے خلاف ہونے والے ہر عمل کو اس کی اپنی سازش یا پھر ڈرامہ قرار دینے کی کوشش کرتے ہیں۔

18 اکتوبر 2007ء کو کارساز کے مقام پر بےنظیر بھٹو کی ریلی پر بم دھماکہ ہوا جس کے نتیجے میں 140 سے زائد افراد جاں بحق اور سیکڑوں افراد زخمی ہوئے۔ بعض لوگوں نے اس کاروائی کو بھی ڈرامہ قرار دینے کی بھرپور کوشش کی اور یہاں تک کہا گیا کہ پیپلز پارٹی نے عوامی ہمدردیاں حاصل کرنے کے لئے ایسا کیا ہے لیکن جب 27 دسمبر 2007ء کو لیاقت باغ راولپنڈی میں بےنظیر بھٹو قاتلانہ حملے میں جاں بحق ہوئیں اس وقت تک ان لوگوں کو یہ یقین آیا کہ یہ ڈرامہ نہیں بلکہ حقیقتاً ایک سازش تھی۔ کچھ اسی طرح کی صورتحال مولانا فضل الرحمن کے ساتھ بھی ہے۔ جو لوگ اس کو ہمدردی حاصل کرنے کی سازش قرار دینا چاہ رہے ہیں کیا وہ قوم کو یہ بتا سکیں گے کہ کسی شخص کو ذاتی فائدہ پہنچانے کے لئے کوئی دوسرا فرد اپنی جان دے سکتا ہے۔ یقیناً ایسا نہیں۔ مولانا فضل الرحمن پر ہونے والے وہ دونوں خودکش حملے اس بات کا ثبوت ہیں کہ ان حملوں کا مقصد کسی فرد یا جماعت کو فائدہ پہنچانا نہیں بلکہ مولانا فضل الرحمن کی ذات کو نشانہ بنانا تھا۔ اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ آخر اس موقع پر مولانا فضل الرحمن کو نشانہ بنانے کی کوشش کیوں کی گئی اور اس کے مقاصد کیا ہیں۔ اگر ہم پاکستانی سیاست کے گزشتہ چالیس سالوں میں مذہبی قیادت کے کردار اور مختلف مکاتب فکر کے اثرورسوخ کو مدنظر رکھیں تو ساری صورتحال سامنے آجاتی ہے۔ چند سال قبل تک اس ملک میں تقریباً سارے ہی مکاتب فکر کے مذہبی قائدین سیاست کے میدان میں سرگرم تھے جن میں جمعیت علماء پاکستان کے علامہ شاہ احمد نورانی، مرکزی جمعیت اہلحدیث کے علامہ احسان الٰہی ظہیر اور دیگر شامل ہیں مگر دیکھا گیا کہ ان قائدین کے منظر عام سے ہٹ جانے کے بعد نہ صرف ان کی اپنی جماعتیں بلکہ وہ مکاتب فکر بھی کم از کم سیاسی میدان میں یتیمی کا شکار ہوگئے۔ 80ء کی دہائی میں ایم آر ڈی کے پلیٹ فارم سے سرگرم کردار ادا کرنے والی مرکزی جمعیت اہلحدیث علامہ احسان الٰہی ظہیر کی وفات کے بعد سیاسی منظر سے تقریباً ختم ہوچکی ہے۔

کچھ اسی طرح کی صورتحال علامہ شاہ احمد نورانی کے انتقال کے بعد جمعیت علماء پاکستان کی بھی ہے۔ اس وقت پاکستان میں مذہبی قوتوں میں مولانا فضل الرحمن واحد مذہبی رہنما ہیں جو پاکستان کے چاروں صوبوں، آزاد کشمیر، گلگت بلتستان، بھارت، بنگلہ دیش اور دنیا بھر میں مسلمانوں بالخصوص اپنے مکتبہ فکر کے حوالے سے ایک مسلمہ طاقت ہیں جس کا اعتراف ان کے بہت سے معاصر سیاسی اور مذہبی قائدین بھی کرتے ہیں۔ مولانا فضل الرحمن کی سیاست اور ان کے سیاسی اقدامات سے لاکھ اختلاف سہی لیکن یہ ایک حقیقت ہے کہ انہوں نے نائن الیون کے بعد جس دانش مندی سے سیاسی میدان میں اپنے آپ کو سرگرم عمل رکھتے ہوئے اپنے مکتبہ فکر اور دینی اداروں کو سازشوں سے بچانے کے لئے ہر ممکن کوشش کی یہ ان کا ایک بہت بڑا کارنامہ ہے۔ حالانکہ عالمی سامراج ہو یا پاکستان کے سابق آمر پرویز مشرف یا مذہب دشمن قوتیں انہوں نے مولانا فضل الرحمن اور ان کے حامیوں کو جذباتی بنا کر تصادم کے میدان میں لانے کی بھرپور کوشش کی لیکن مولانا کی سیاست بصیرت نے ان سازشوں کو ناکام بنا دیا۔

مولانا فضل الرحمن پاکستانی سیاست کے وہ واحد مذہبی رہنما ہیں جو نظریاتی، سیاسی اور فروعی اختلافات کے باوجود تمام مذہبی قوتوں کو ایک جگہ جمع کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں جس کی واضح مثال حال ہی میں ناموس رسالت کے حوالے سے مذہبی قوتوں کی ہونے والی سرگرمیاں ہیں اور یہ کہ مولانا فضل الرحمن جس مکتبہ فکر سے تعلق رکھتے ہیں وہ دنیا بھر میں مضبوط اور مستحکم دینی اداروں کے مربوط نظام اور اثر ورسوخ کی وجہ سے مسلمانوں میں مؤثر کردار ادا کر رہا ہے۔ سابق آمر پرویز مشرف نے امریکا اور دیگر سامراجی قوتوں کی مدد سے اس مضبوط اور مربوط نظام پر نقب لگانے کی کوشش کی لیکن وہ ناکام رہے۔ اس ناکامی میں بھی مولانا فضل الرحمن اور ان کی سیاسی بصیرت کا بڑا اہم کردار رہا۔ آنے والے دنوں میں یہ نظر آرہا ہے کہ مولانا فضل الرحمن ایک بار پھر پاکستانی سیاست میں مذہبی قوتوں کے کلیدی کردار کے لئے اہم ثابت ہوسکتے ہیں جو عالمی سامراج اور مقامی مذہب دشمن قوتوں کو کسی صورت قبول نہیں۔

یہی وجہ ہے کہ یہ قوتیں مولانا فضل الرحمن کو راستے سے ہٹانا چاہتی ہیں اور ان قوتوں کا یہ مقصد بھی ہے کہ مولانا فضل الرحمن کو نشانہ بنانے کے بعد جمعیت علماء اسلام کا سیاسی کردار بھی مرکزی جمعیت اہلحدیث اور جمعیت علماء پاکستان کی طرح ہوگا جس کے بعد علمائے حق کے مدارس اور مکاتب پر ہاتھ ڈال کر ان کے اس مضبوط اور مربوط پوزیشن کو کمزور کرنا آسان ہوگا اور یہ کہ دنیا بھر میں عالمی سامراج کے خلاف برسر پیکار علمائے حق سیاسی میدان میں دیگر مذہبی جماعتوں اور مکاتب فکر کی طرح سیاسی یتیمی کا شکار ہو جائیں گے۔ مذہبی قوتوں کی بدقسمتی یہ ہے کہ ان کی قیادت نے ہمیشہ متبادل تیار کرنے کی کوشش نہیں کی بلکہ افراد پر ہی نظر رکھی گئی جس کی وجہ سے افراد کے اس دنیا سے جاتے ہی یہ مذہبی قوتیں کمزور ہوئیں اور کوئی اہم کردار ادا نہیں کرسکیں تاہم اس حوالے سے جماعت اسلامی کی صورت حال کافی مختلف رہی ہے کیونکہ یہ جماعت صرف افراد پر انحصار نہیں کرتی بلکہ اس کا سارا عمل جماعتی نظم پر ہوتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ جماعت اسلامی میں افراد کے تبدیل ہونے سے کوئی فرق نہیں پڑتا لیکن دیگر جماعتوں میں یقیناً اس کا فرق پڑتا ہے جس کی چند مثالیں ہم نے اوپر پیش کردی ہیں۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ اس مشکل مرحلے پر تمام مذہبی قوتیں متحد اور منظم ہو کر عالمی سامراج کا مقابلہ کریں ورنہ پھر سیاسی میدان میں ان کا بھی انجام وہی ہوگا جو اس وقت بھارت، بنگلہ دیش، عرب اور دیگر ممالک میں دینی قوتوں کا ہوچکا ہے۔ مولانا فضل الرحمن کو نشانہ بنانے کا مقصد بھی مذہبی قوتوں کو اسی پوزیشن پر لا کھڑا کرنا ہے۔
Abdul Jabbar Nasir
About the Author: Abdul Jabbar Nasir Read More Articles by Abdul Jabbar Nasir: 136 Articles with 97296 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.