شِعروں کے ”ارتکاب“ نے رُسوا کیا مجھے

پکے اور ٹھیٹھ راگوں کے ایک ماہر کے ہاں ایک صاحب راگ راگنیاں سیکھنے جایا کرتے تھے۔ کسی نے دیکھا کہ ایک خاصا معقول آدمی ٹپّہ، ٹھمری، دادرا وغیرہ میں مہارت حاصل کرنے کی کوشش کر رہا ہے تو اُن سے رہا نہ گیا اور پوچھ بیٹھے کہ آپ کلاسیکی موسیقی کو کیوں گلے لگا رہے ہیں! اُن صاحب نے مسکراتے ہوئے وضاحت فرمائی ”جناب! میں گویّا بننے کا ارادہ نہیں رکھتا۔“
”تو پھر یہ سب۔۔ گا، ما، پا، دھا، نی، سا۔۔ کیا ہے؟“
وہ بولے ”میں شاعر ہوں۔ لوگ میری شاعری کی طرف ”بہ وجوہ“ متوجہ نہیں ہو رہے اِس لئے ایک سینیر شاعر کے مشورے کے مطابق کلاسیکی موسیقی سیکھ رہا ہوں تاکہ مشاعروں میں رنگ جمانے کے قابل ہو جاؤں اور کچھ کھا، کماؤں!“

سُنا ہے بعد میں اُن صاحب نے بیاض چھوڑ کر ”پیٹی باجا“ اپنا لیا کیونکہ اِس صورت میں آمدنی اور عزت دونوں میں غیر معمولی تناسب سے اضافہ ہو رہا تھا! شاعری میں کوئی اُستاد ماننے کو تیار نہ تھا اور پیٹی باجے کی مہربانی سے اُنہیں لوگ اُستاد بھی کہنے لگے۔

ویسے موسیقی کے اسرار و رموز سے شغف رکھنے والے شعراء میں ایک خوبی تو ہم نے بھی پنپتی دیکھی ہے، وہ کسی نہ کسی طرح اپنی شاعری میں بحر اور وزن کا اہتمام کرنے کے قابل ہو جاتے ہیں! ماتروں کی تعلیم اور لےَ کاری اُنہیں ”بے بحرا“ ہونے سے بچالیتی ہے! یہی سبب ہے کہ کبھی کبھی ہمیں جوش ملیح آبادی کی انقلابی شاعری کی گھن گرج میں استاد بڑے غلام علی خاں کی تانیں اور پلٹے سُنائی دیتے ہیں!

جہاں آوے کا آوا بگڑا ہوا ہو وہاں کسی کو کسی کام سے روکا نہیں جاسکتا۔ آپ خود دیکھ لیجیے، کیسے کیسے لوگ با اختیار ہوکر ہم پر مُسلّط ہیں! ہم نے ایک دن یہی بات مرزا تنقید بیگ کے روبرو کہی تو اُنہوں نے ہر بات میں کیڑے نکالنے کی عادت بالائے طاق رکھتے ہوئے ہماری بات سے مکمل اتفاق کیا! ہمیں قدرے خوش اور مطمئن دیکھ کر اُنہوں نے وضاحتی شرارت فرمائی۔ ”اِس سے بڑی مثال کیا ہوگی کہ آج کل تم بھی کالم لکھ رہے ہو!“

ہم نے جب اُن کی رائے سُن کر ذرا سا ”وہ“ والا منہ بنایا تو مرزا نے فوراً اباؤٹ ٹرن لیا اور بولے ”ایک تم ہی موردِ الزام ٹھہرائے جانے کے قابل نہیں ہو۔ ایک کو ڈھونڈنے نکلو تو ہزار ملتے ہیں۔ جس طور صحافت سے معمولی سا شغف رکھنے والے آؤ دیکھا نہ تاؤ (تمہاری طرح) کالم لکھنے بیٹھ جاتے ہیں بالکل اُسی طرح ادب سے معمولی سی بھی دلچسپی رکھنے والے سوچے سمجھے بغیر شعر گوئی پر کمر کَس لیتے ہیں! سُنا ہے کسی زمانے میں تم بھی شاعری فرماتے تھے۔ یہ تمہاری اعلیٰ ظرفی ہے کہ یہ بھاری پتھر چُوم کر رکھ دیا!“

ہم نے مرزا کی بات سے اتفاق کرتے ہوئے جوابی وار کے طور پر عرض کیا کہ آپ بھی تو جو منہ میں آئے وہ بَکنے کی روش پر گامزن رہتے ہیں! اِس بات کا مرزا نے ذرا بھی بُرا نہ مانا کیونکہ جو منہ میں آئے وہ بَک دینا اُن کے نزدیک ”جینیس“ ہونے کی نمایاں ترین علامات میں سے ہے! اور وہ اِس خوش فہمی میں مبتلا ہیں کہ ایک دن اِسی وصف کی بنیاد پر وہ صفِ اول کے دانشور گردانے جائیں گے!

مرزا فرماتے ہیں ”ایک زمانہ تھا جب شعر کہنا خون تھوکنے کے مترادف تھا۔ آج کے شعراء خون کی اہمیت جانتے ہیں اِس لئے محض تھوکنے پر اکتفا کرتے ہیں! اور ایسی شاعری کو پڑھنے والے بھی جواب آں غزل کے طور پر حسب توفیق تھوکتے ہیں! ویسے جس قسم کی شاعری اب ہو رہی ہے اُس کا مطالعہ بعض قارئین کو خون تھوکنے پر مجبور کردیتا ہے!“

ایک دن ہم نے جوش کے عالم میں آج کی شاعری کو وباء قرار دیا تو مرزا نے اختلافی کارڈ کھیلتے ہوئے فرمایا کہ شاعری کو آج اور کل کے پنجرے میں قید کرنا درست نہیں۔ یہ زمان و مکان کے دائرے میں محدود نہیں کی جاسکتی۔ اور آج کل کی شاعری تو ویسے بھی تمام زمانوں پر محیط ہونے کے ساتھ ساتھ اُن سے پرے ہے! پھر وباء سے متعلق وضاحتی لیکچر دیا ”ہر سال سردیوں اور گرمیوں میں مختلف وبائیں پھوٹتی ہیں۔ ہر وباء کسی نہ کسی موسم کی محتاج ہوتی ہے، مگر شاعری چونکہ کسی موسم کی محتاج نہیں اِس لئے ہم اِسے کسی طور وباء قرار نہیں دے سکتے! یہ کیفیت تو وہ ہے کہ سال بھر قوم پر مُسلّط رہتی ہے! ثابت ہوا کہ ہر قوم کو اِسی دُنیا میں گناہوں کی سزا ملتی ہے! کوئی بھی وباء کسی نہ کسی طور زیر دام لائی جاسکتی ہے، مگر شعر گوئی کا کوئی علاج اب تک دریافت نہیں ہوا! یقیناً یہ وباء سے آگے کی کوئی چیز ہے!“

بعض شعراء اِس خوش فہمی میں مبتلا رہتے ہیں کہ وہ بھرتی کے شعر نہیں کہتے اور یہ کہ اُن کی شاعری آورد کا نتیجہ نہیں! حقیقت یہ ہے کہ اِس دنیا میں خود اُن کی آمد بھی آورد سے کم نہیں! اور جس ”ذوق و شوق“ سے وہ بھرتی کے شعر کہتے ہیں اُس کی بنیاد پر اُن کا ”استحقاق“ بنتا ہے کہ کسی فوج میں بھرتی کئے جائیں، جلد از جلد کوئی جنگ ہو اور وہ پہلے ہی معرکے میں اگلے مورچوں پر تعینات کئے جائیں!

بعض شعراء کو شعر کہنے کا ”ہَوکا“ ہوتا ہے! طبیعت موزوں نہ ہو تب بھی وہ شعر کہنے پر کمربستہ اور بضد رہتے ہیں! ”سُخن ظریفی“ تو دیکھیے کہ اِس حالت میں وہ کبھی کبھی کام کا ایک آدھ شعر کہہ جاتے ہیں! ایسے شُعراء مشق سُخن کے نام پر دراصل سُخن کی مشکیں کس دیتے ہیں! بسیار گوئی کو بھی وصف گردانتے ہوئے یہ شعراء اِتنے زیادہ شعر کہتے ہیں کہ اِسِ عمل کو ”زیادتی“ سے کم کچھ بھی قرار نہیں دیا جاسکتا!

ہر معاملے کی طرح اب شعر کہتے وقت بھی سوچنا بمنزلہ کفر ہے، یعنی سوچیے تو شعر کا حُسن گہنا جاتا ہے! سوچنے کی مشق اب اہل ذوق یعنی سُخن فہم قارئین کے نصیب میں لکھ دی گئی ہے! ”بے فکری“ کی حالت میں کہے جانے والے اشعار سے مرعوب ہوکر لوگ اُن میں معنی خود تلاش کرلیتے ہیں! اچھے شعر کو پرکھنے کا ایک آسان اور آزمودہ طریقہ یہ بھی ہے کہ وہ سمجھ میں بالکل نہ آئے! مشاعروں میں ایسے اشعار پر زیادہ داد ملتی ہے جو کسی کی سمجھ میں ”ککھ“ بھی نہ آئیں اور گھر پہنچ کر لاکھ یاد کرنے پر بھی اُنہیں یاد نہ آئیں!

مرزا کہتے ہیں کہ آج کل کے شعراء جس ڈھب کی شاعری کر رہے ہیں اُسے شعر گوئی سے زیادہ شعری ارتکاب قرار دیا جاسکتا ہے اور اِس بنیاد پر اُن کے خلاف قانونی کاروائی بھی لازم قرار دی جاسکتی ہے! ہم اُن کی رائے سے متفق ہیں کیونکہ ہمیں اندازہ ہے کہ شعر کہنا کِس قدر ذمہ داری کا کام ہے۔ جب ہم شاعری کرتے تھے تب بدخواہ ہماری ہر غزل میں کوئی نہ کوئی انٹ شنٹ شعر تلاش کرکے ہمیں اُس کا ذمہ دار قرار دیتے تھے! ہم نے حفظِ ماتقدم کے طور پر اپنا شعری اثاثہ محفوظ نہ رکھا۔ اب افسوس ہوتا ہے۔ ہماری شاعری محفوظ ہوتی تو شاید آج ہم کالم نگاری نہ سہی، شاعری کی بنیاد پر کچھ نام ضرور کما لیتے!
M.Ibrahim Khan
About the Author: M.Ibrahim Khan Read More Articles by M.Ibrahim Khan: 572 Articles with 483772 views I am a Karachi-based journalist and columnist. .. View More