یاد رفتگاں:سعادت حسن منٹو-دنیائے ادب کا ایک انمول اور منفرد ستارہ

نظامِ کائنا ت چل رہا ہے اور چلتا رہے گا۔اس دارِ فانی سے ایک حکمِ اجل پاکر رختِ سفر باندھتا ہے تو دوسرا اس خلا کو پُر کرنے کے لیے جہانِ عدم سے جہانِ آب وگِل میں وارد ہوتا ہے۔
تاریخِ ادبِ اردو پر نظر دوڑائی جائے تو مختلف اصناف ِ شاعری اورنثر پر لکھنے والے شعراء اور ادباء کی ایک طویل فہرست ہمارے سامنے آجاتی ہے؛لیکن تمام ادیب اور شاعر ایسے نہیں ہوتے کہ جن کے مقام و مرتبے سے ہر نقاد متفق ہو۔
1935ء میں جب ترقی پسند تحریک کا آغاز ہوا تو اس تحریک کے زیرِ اثر بہت سے نئے لکھنے والے سامنے آئے جن میں کرشن چندر، رجندر سنگھ بیدی، عصمت چغتائی، حسن عسکری، ممتاز مفتی، بلونت سنگھ اور احمد ندیم قاسمی کے علاوہ ایک بڑا نام سعادت حسن منٹو کا ہے۔۔۔

سعادت حسن منٹو-دنیائے ادب کا ایک انمول اور منفرد ستارہ
افضل رضوی۔آسٹریلیا
نظامِ کائنا ت چل رہا ہے اور چلتا رہے گا۔اس دارِ فانی سے ایک حکمِ اجل پاکر رختِ سفر باندھتا ہے تو دوسرا اس خلا کو پُر کرنے کے لیے جہانِ عدم سے جہانِ آب وگِل میں وارد ہوتا ہے۔انسانوں کے آنے یا جانے سے نظامِ کائنات میں کوئی فرق نہیں پڑتا؛ تاہم کچھ لوگ ایسے ہوتے ہیں جو اس جہانِ فانی سے کوچ کرجانے کے بعد بھی حیاتِ جاوید کے مالک بن جاتے ہیں اور تاریخ ایسے لوگوں کو کبھی فراموش نہیں کرتی۔مورخ اور نقاد ہم آہنگی کا مرقع ہوتے ہیں۔مورخ تاریخ کا صحیح آئینہ ہمارے سامنے پیش کرتا ہے اور نقاد ادیب اور شاعر کی شخصی خوبیاں اور خامیاں نیز فنی محاسن ترازو میں اس طرح تول کر ہمارے سامنے رکھتا ہے کہ جس کو جو چیزپسند آئے، اُس کا انتخاب کر لے۔ اگرچہ کسی کی خامیاں تلاش کرنا نہایت سہل کام ہے اور خوبیوں پر خامہ فرسائی کرنا جرأت و بے باکی کی بات ہے مگر سچ تو یہ ہے کہ ایسا ادیب جو سچ لکھے اور معاشرے کے ناسور سے افرادِ معاشرہ کو آگاہی دلائے خال خال ہی ملتا ہے۔
تاریخِ ادبِ اردو پر نظر دوڑائی جائے تو مختلف اصناف ِ شاعری اورنثر پر لکھنے والے شعراء اور ادباء کی ایک طویل فہرست ہمارے سامنے آجاتی ہے؛لیکن تمام ادیب اور شاعر ایسے نہیں ہوتے کہ جن کے مقام و مرتبے سے ہر نقاد متفق ہو۔نثر میں ناول اور افسانہ دو ایسی اصناف ہیں کہ جن کے موضوعات ہماری معاشرت کی عکاسی کرتے ہیں۔ ناول کا آغاز انیسویں صدی میں ہوا اور مولوی نذیر احمد کے بعد کئی لوگوں نے اس میدان میں طبع آزمائی کی اور موجودہ دور تک پہنچتے پہنچتے بہت سے لوگ بقائے دوام حاصل کر گئے۔ اسی طرح افسانے کے میدان میں پریم چند سے لے کر احمد ندیم قاسمی تک بہت سے ایسے نام ہمارے سامنے آتے ہیں جنہوں نے افسانے کی ہمہ گیری کو سمجھ کر ایسے مثالی نمونے ہمارے سامنے پیش کیے جو ان کی وجہ ئ شہرت بن گئے۔ اگرچہ اردو افسانے کی تاریخ کم و بیش ایک صدی پر ہی محیط ہے لیکن پریم چند سے احمد ندیم قاسمی تک سارا عہد ایک ہی عہد دکھائی دیتا ہے۔اردو کے ابتدائی افسانے کی تخلیق کا فریضہ پریم چند اور سجاد حیدر یلدرم نے ادا کیا۔ ان کے بعد1919ء سے 1938ء تک افسانوں کے مجموعوں کا ایک سیلاب منظرِ عام پر آیا۔ ان ابتدائی افسانہ نگاروں میں سلطان حیدر جوش، نیاز فتح پوری، مجنون گورکھپوری، حجاب امتیاز علی، علی عباس حسینی، علامہ راشد الخیری اور سجاد ظہیر قابلِ ذکر ہیں۔
1935ء میں جب ترقی پسند تحریک کا آغاز ہوا تو اس تحریک کے زیرِ اثر بہت سے نئے لکھنے والے سامنے آئے جن میں کرشن چندر، رجندر سنگھ بیدی، عصمت چغتائی، حسن عسکری، ممتاز مفتی، بلونت سنگھ اور احمد ندیم قاسمی کے علاوہ ایک بڑا نام سعادت حسن منٹو کا ہے۔ سعادت حسن منٹو11/مئی 1912ء سمبرالا ضلع لدھیانہ میں پید ا ہوئے۔ان کا تعلق کشمیریوں کے مشہور خاندان منٹو سے ہے۔ان کے والد غلام حسن جج تھے۔منٹو کی ابتدائی تعلیم گھر پر ہی ہوئی۔1931ء میں میٹرک کا امتحان پاس کیا۔ 1935ء میں علی گڑھ یونیورسٹی میں داخل ہو گئے لیکن بیماری نے سلسلہئ تعلیم کو منقطع کرنے پر مجبور کر دیا۔ بعد ازاں باری علیگ کی سفارش پر انہیں لاہور کے ایک اخبار(پارس) میں ملازمت مل گئی لیکن یہ سلسلہ زیادہ دیر نہ چل سکا اور محض چھے ماہ کا قلیل عرصہ اس اخبار سے منسلک رہنے کے بعد اسے الوداع کہہ کر بمبئی چلے گئے اور وہاں 1940ء تک ہفت روزہ مصور، سماج اور کارواں کے علاوہ مختلف فلم کمپنیوں کے ساتھ بحیثیت کہانی اور مکالمہ نویس کام کیا۔اسی دوران آل انڈیا ریڈیو میں سٹاف آرٹسٹ کی ملازمت کا ذائقہ بھی چکھا۔یہ وہ زمانہ تھا جب اس دور کے نظمِ آزاد کے معتبر شاعر ن۔م۔ راشد پروگرام پروڈیوسر تھے۔انہوں نے منٹو کی کہانی ”آوارہ“ کو تنقید کا نشانہ بنایا اور اسے اصلاح کے بعدشائع کرنے کا ارادہ کیا لیکن منٹو کی طبع نازک پر یہ اتنا گراں گزرا کہ نہ صرف ن۔م۔ راشد سے اپنی کہانی واپس لے لی بلکہ ساتھ ہی ملازمت بھی ترک کردی۔اس سے انہیں بہت تکلیف ہوئی کیونکہ وہ تنقید بالکل برداشت نہیں کرتے تھے۔چنانچہ دل کو بہلانے اور زندگی کی گاڑی کو چلانے کے لیے فلمستان سے اپنا ناطہ جوڑ لیا۔اس کمپنی سے وابستہ ہونا گویا ان کے لیے سونے پر سہاگہ ہوا اور یہاں ان کا طوطی بولنے لگا مگر افسوس کہ یہ طوطی بھی کچھ زیادہ عرصہ نہ بول سکا اور وہ اشوک کمار کے ساتھ فلمستان سے الگ ہوگئے اور پھر جب اشوک کمار نے اپنی فلم کمپنی بنائی اور اس کی پہلی دو کہانیاں نذیر اجمیری اور کمال مروہی کی لیں تو منٹو یہ برداشت نہ کر سکے اور دل برداشتہ ہو کر جنوری 1948ء میں پاکستان چلے آئے اور اپنی وفات کے دن منگل 18جنوری 1955ء تک قلم کی مزدوری کرتے رہے۔
۔

Afzal Razvi
About the Author: Afzal Razvi Read More Articles by Afzal Razvi: 118 Articles with 176239 views Educationist-Works in the Department for Education South AUSTRALIA and lives in Adelaide.
Author of Dar Barg e Lala o Gul (a research work on Allama
.. View More