لمحہ فکریہ

لمحہ فکریہ.. پاکستان میں موجودہ حکومت کے پہلے ہی سال2008ء میں7ہزار افراد نے جان گنوا دی کیوں...
ورلڈ بینک کی حکمرانوں، سیاستدانوں اور عوام .....!کے لئے عبرتناک رپورٹ.....!
مہنگائی، پُراِسرار بیماریاں،کرپشن اور پاکستان میں خودکشی کے بڑھتے ہوئے رجحان کے ذمہ دار حکمران ہیں....

ورلڈ بینک کی جانب سے حالیہ جاری ہونے والی ایک رپورٹ میں اسلامی دنیا کے پہلے ایٹمی ملک پاکستان سے متعلق جس قسم کا انکشاف کیا گیا ہے وہ ہمارے ملک کے لئے یقیناً ایک الارمنگ پوزیشن ہے جس میں واضح طور پر یہ بتایا گیا ہے کہ پاکستان میں حکمرانوں کی جانب سے کئے جانے والے ناقص اقدامات اور غیر ضروری منصوبہ بندیوں کی وجہ سے آج جہاں پاکستان میں مہنگائی کا تناسب تیزی سے بڑھا ہے تو وہیں غربت کے ساتھ ساتھ پاکستانی معاشرے میں بسنے والے مہنگائی سے پریشان اور مفلوک الحال عوام کو مختلف اقسام کی ذہنی طور پُراِسرار بیماریوں میں مبتلا ہونے کے شواہد بھی ملے ہیں جن کی وجہ سے اِن بیماریوں میں مبتلا افراد میں خودکشی کا رجحان بھی بڑھتا جا رہا ہے رپورٹ میں اِس حوالے سے خاص طور پر یہ بھی بتا دیا گیا ہے کہ موجودہ حکومت کے پہلے ہی سال یعنی صرف 2008ءمیں سات ہزار افراد نے حکمرانوں کی ناقص اور فرسودہ پالیسیوں کی وجہ سے ملک میں بڑھتی ہوئی مہنگائی، بھوک وافلاس اور تنگدستی کے ہاتھوں مجبور ہوکر خودکشی کرنے کو اپنی زندگی پر ترجیح دی اور یوں یہ سات ہزار افراد مہنگائی اور حالات کے ہاتھوں خودکشی کر کے حکمرانوں کے منہ پر ایک ایسا زور دار طمانچہ مار گئے کہ جس سے انسانیت بھی تھرا گئی مگر افسوس کے ہمارے حکمرانوں کے کانوں پر جوں تک نہ رینگی اور یہ آج تک ملک میں مہنگائی اور بھوک و افلاس کے چڑھتے طوفان کو نہ تو تھام سکے اور نہ ہی وہ اِس کا رخ کسی اور جانب موڑنے میں کامیاب ہی ہوسکے۔اُلٹا اِس کے بگولوں میں قوم کو کچھ اِس طرح گھسیٹ رہے کہ جیسے قوم کے ایک ایک فرد کو یہ اِس میں جھونکنے کا تہیہ کرچکے ہیں۔

اِس کے علاوہ اِس رپورٹ میں جلی حرفوں میں یہ بھی تحریر ہے کہ آج پاکستان میں جہاں صرف2008میں 7ہزار افراد نے خودکشی کی ہے وہیں 1990سے قبل اِسی پاکستان میں خودکشی کے چند سو واقعات ہی رونما ہوتے تھے جبکہ موجودہ حکومت کے حالیہ سالوں کے دوران اِن واقعات میں کئی گنا اضافے کا ہوجانا بڑی حد تک خطرے کا باعث ہے نہ صرف یہ بلکہ اِسی رپورٹ میں اِس جانب بھی گہری تشویش کا اظہار کیا گیا ہے (جو شائد ہمارے بے حس اور بے پرواہ حکمرانوں کے لئے اتنی اہمیت کی حامل نہ ہو کیوں کہ اِن کے نزدیک اِن کی قومی خزانے سے عیاشی کے سوائے اور سب کچھ اِس ملک میں فضول ہے جس میں غریب کا حصہ ہو ) پاکستان میں مہنگائی اور غربت کے ہاتھوں مجبور افراد کی خودکشی کے بڑھتے ہوئے رجحان کے علاوہ جو سب سے زیادہ خطرناک صورت حال پیدا ہو رہی ہے وہ یہ ہے کہ پاکستان میں ذہنی امراض والے افراد کی تعداد بھی خطرناک حد تک بڑ ھتی جارہی ہے رپورٹ میں بتایا گیا ہے ایک اندازے کے مطابق10سے 16فیصد افراد ایسے ہیں جو انتہائی نچلے درجے کے نفسیاتی امراض میں مبتلا ہیں۔اِس لحاظ سے اِس رپورٹ میں یہ بھی بتایا گیا ہے کہ دنیا کے چھٹے بڑے ملک پاکستان جس میں شہری علاقوں کی 16.5فیصد اور دیہی علاقوں کی 13.9فیصد آبادی ذہنی امراض میں مبتلا ہے اور حکمرانوں کی ناقص اور فرسودہ پالیسیوں کی وجہ سے پریشان عوام اَب ذہنی سکون اور آسودگی کے خاطر بے چین رہنے لگی ہے جس کے حصول کے لئے اِس نے نشہ آور اشیاء کے استعما ل سے بھی گریز کرنا چھوڑ دیا ہے اور یہی وجہ ہے کہ پاکستان کے طول ُ ارض میں قوم کا رجحان سگریٹ نوشی کی جانب تیزی سے بڑھنے لگا ہے اور یہ انکشاف ہم سب کے لئے یقیناً پریشانی کا باعث ہے کہ ہمارے اسکولوں کے لگ بھگ15.8فیصد بچوں میں دمہ جیسی مہلک بیماری ہے اور پاکستان میں 32انتہائی اہم دواؤں میں سے صرف8دوائیں سرکاری اسپتالوں میں میسر ہوتی ہیں اور باقی پورے ملک میں نایاب ہیں جبکہ موجودہ حکومت کے تین ،ساڑھے تین سال گزر جانے کے بعد بھی حکمرانوں کی بے حسی کا وہی پہلے دن اور سال کی طرح آج بھی یہی عالم ہے کہ یہ ڈھٹائی کے ساتھ اپنی اُسی روش پر قائم ہیں اور قومی خزانے سے مزے سے وہی سب کچھ کر رہے جس سے متعلق یہ پہلے سے اپنے منصوبے بناکر آئے ہیں جبکہ ورلڈ بینک کی رپورٹ میں ہونے والے انکشاف نے موجودہ حکومت کی اُس قلعی کو بھی کھول کر رکھ دیا ہے جس کی یہ حکومت بڑے دعوے کیا کرتی تھی کہ ہم نے اپنے اقتدار کے ساڑھے تین سالوں میں عوام کی ہر سہولت اِس کی دہلیز تک پہنچا دی ہے
بیٹھ جائیں راہ میں جو توڑ کر اپنے قدم
راہ رَواسودِ منزل وہ ہوسکتے نہیں

خود فریبی میں،جو رہتے ہوں ہمیشہ مبتلا
خود کفالت کی طرف مائل وہ ہوسکتے نہیں

جبکہ ورلڈ بینک کی رپورٹ واضح طور پر یہ ظاہر کررہی ہے کہ موجودہ حکومت نے اپنے قیام کے پہلے ہی دن سے اپنی عوام کے لئے کچھ کیا ہے اور نہ ہی ملک کی معیشت کے استحکام کے لئے وہ کچھ کرسکی ہے جس کی اِس کو ضرورت ہے۔

اگرچہ یہ حقیقت ہے کہ ورلڈ بینک کی اِس رپورٹ سے یہ اندازہ ضرور ہوتا ہے کہ دنیا کے دوسرے بڑے ایٹمی ممالک کے مقابلے میں ہمارے ایٹمی ملک ِ عظیم پاکستان کی معاشی،سیاسی، سماجی اور اقتصادی حیثیت اِن حوالوں سے کتنی خطرناک حد تک بگڑ چکی ہے کہ اِن حالات میں وقت کا تقاضہ یہ ہے کہ ہمارے حکمرانوں ، سیاستدانوں اور عوام کو اَب اپنی بقا و سا لمیت کے خاطر لمحہ فکریہ ہے اِس رپورٹ کی روشنی میں ہمارے حکمرانوں کو کئی ایسے عملی اقدامات ضروری طور پر جلد ہی کرنے ہوں گے کہ جن کے ترجیحی بنیادوں پر کرنے سے یہاں کے بگڑتی ہوئی صورت حال میں بڑی حد تک بہتری آنے کے اثرات نہ صر ف نمایاں طور پر محسوس ہی کئے جائیں بلکہ نظر بھی آئیں اور اِن کے ثمرات عوام تک بھی جلد پہنچیں..... تاکہ ہمارا ملک اِس نازک صورت حال سے جلد نکل سکے ۔

جبکہ اِس منظر اور پس منظر کے حوالے سے میں یہاں ایک بار پھر یہی عرض کرتا چاہوں گا اَب بھی ہمارا کچھ نہیں بگڑا ہے،اگر آج بھی ہم ہوش کے ناخن لے لیں اور ملک کی معاشی ، سیاسی ، سماجی ،اقتصادی اور مذہبی لحاظ سے بگڑتی ہوئی اِس صورت حال میں ہمارے حکمران،سیاستدان اور اپوزیشن سے تعلق رکھنے والی ملک کی تمام سیاسی اور مذہبی جماعتوں کے رہنما اپنے اپنے تراشے گئے انا کے بتوں کو ملک اور قوم کی فلاح وبہبود کے خاطر پاش پاش کردیں اور یہ سب کے سب باہم متحد و منظم رہ کر ملک کو اِس نازک گھڑی میں سہارا دینے کے لئے سیسہ پلائی ہوئی ایک ایسی دیوار ثابت ہوجائیں کہ جس پر کوئی برائی اثر انداز نہ ہوسکے تو کوئی حرج نہیں کہ ہمارے ملک میں بھی ہر گلی کوچے ، بازار ، محلے اور ہر گھر کے آنگن میں خوشیاں نہ رقص کرنے لگیں ....

اور اگر ملک کو خطرات سے دوچار کرنے والی اِس صورت حال میں بھی ہمارے حکمرانوں، سیاستدانوں اور اپوزیشن سے تعلق رکھنے والی سیاسی اور مذہبی جماعتوں کے رہنماؤں نے ذرا برابر بھی کان نہ دھرا....اور یہ یوں ہی اپنی اپنی ہٹ دھرمی میں مگن رہے .....تو پھر یہ سب یاد رکھیں کہ ملک کی تباہی اور بربادی کے ذمہ دار بھی یہ سب کے سب ہی ہوں گے ....کیوں کہ اِن کی عدم توجہ سے ملک میں جو افراتفری اور لاقانونیت کا بازار گرم ہوگا پھر اِس سے نمٹنا کسی کے بس میں نہ ہوگا۔اور ملک میں انقلاب کی صورت میں تبدیلی کی جو کیفیت پیدا ہوگی وہ بالآخر کسی خونی انقلاب کی شکل میں سامنے آکر سچ ثابت ہوکر رہے گی۔

اور اِس کے ساتھ ہی ہمیں یہاں اپنے آج کے کالم کے اختتام پر یہ کہنے دیجئے کہ آج شائد حکمرانی کے نشے میں چُور رہنے والے ملک کے اِن استحصالی طبقوں کو اِس بات کا ذرا برابر بھی احساس نہ ہو کہ استحصال زدہ طبقے کی غربت اور غصے کے درمیان نظر نہ آنے والی جو ایک لکیر ہوتی ہے وہ اتنی باریک ہوتی ہے کہ یہ ایک عام آنکھ سے آسانی سے نہیں دیکھی جاسکتی اور جب استحصال زدہ طبقہ اپنی برداشت کی تمام حدوں کو پار کر جانے کے بعد اِس لکیر کو مٹا دیتا ہے تو استحصالی طبقوں کا نام ونشان تک مٹ جایا کرتا ہے اور مجھ سمیت ممکن ہے کہ آپ کو بھی اِس بات پر یقین ہو کہ عنقریب ہمارے ملک سے بھی استحصالی طبقوں کا صفایا استحصال زدہ طبقہ کرنے والا ہے......
Muhammad Azim Azam Azam
About the Author: Muhammad Azim Azam Azam Read More Articles by Muhammad Azim Azam Azam: 1230 Articles with 891754 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.