آزمائش کی گھڑی میں بھی اتحاد کا فقدان کیوں؟

 چین سے پھیلنے والے خطرناک کرونا وائرس سے پاکستان میں دس ہلاکتیں ہو چکی ہیں، مریضوں میں آئے روز اضافہ ہی ہوتا چلا جا رہا ہے تا ہم اس اہم ترین موقع پر بھی وفاق اور صوبائی حکومتوں ، سیاسی جماعتوں میں ہم آہنگی نظر نہیں آ رہی،یران ،سعودی عرب، برطانیہ و دیگر ممالک سے واپس آنے والوں میں کرونا کی تشخیص ہو رہی ہے تو دوسری جانب لوکل ٹرانسمیشن کے مریض بھی سامنے آ رہے ہیں،مردان کی یونین کونسل میں ایک ہلاکت ہوئی تا ہم جب وہاں ٹیسٹ کئے گئے تو 39 مریض سامنے آ گئے،مردان کے رکن اسمبلی میں بھی کرونا کی تشخیص ہو چکی ہے، اسلام آباد کی مقامی مسجد میں تبلیغی جماعت کے ایک فرد میں جو غیر ملکی باشندہ تھا میں کرونا کا ٹیسٹ مثبت آیا تھا بعد ازاں اس علاقے میں سکریننگ کی گئی تو وہاں بھی 13 افراد میں کرونا کی تشخیص ہوئی جس کے بعد حکومت نے اس علاقہ کو مکمل طور پر سیل کر دیا،کرونا وائرس کی وجہ سے صوبائی حکومتوں نے کرفیو لگا رکھا ہے، وزیراعظم عمران خان ابھی تک کرفیو پر قائل نہیں ہوئے، اب انہوں نے یہ بات کی کہ کرفیو لگانے سے پہلے تیاری کرنی پڑے گی ، غریب افراد کو کھانا پہنچانے کے لئے رضاکار چاہئے ، سب کچھ بند ہوا تو معاشی نقصان تو ہو گا ساتھ میں غریبوں کا نقصان بھی ہو گا، لوگ کھانے کو ترس جائیں گے، وزیراعظم نے معاشی پیکج کا بھی اعلان کیا ہے تا ہم کرونا وائرس کے حوالہ سے وفاقی حکومت اور صوبائی حکومتوں میں آپس میں یکجہتی نظر نہیں آ رہی۔

وزیراعظم عمران خان نے قومی سلامتی کمیٹی کا اجلاس بلایا جس میں سب وزراء اعلی، آرمڈ فورسز کے چیفس سمیت اعلیٰ حکام نے شرکت کی تھی، قومی سلامتی کمیٹی اجلاس میں ملک بھر میں تعلیمی ادارے، شادی ہالز وغیرہ بند کرنے کا اعلان کیا گیا تھا تا ہم اس کے بعد کرونا کے کیسز میں اضافہ ہوتا گیا، سندھ میں بات کرفیو تک جانے لگی،اپوزیشن جماعتوں کے رہنما شہباز شریف جو اسوقت لندن میں تھے اور اب پاکستان واپس آ چکے ہیں، بلاول زرداری وہ وفاقی حکومت سے کرفیو کا مطالبہ کر رہے تھے کہ کرفیو لگا دیں اس سے قبل کہ حالات قابو سے باہر ہو جائیں ، وزیراعظم تو نہ مانے لیکن سندھ حکومت نے کرفیو لگا دیا،تین روز قبل وزیراعظم عمران خان نے قوم سے خطاب میں اعلان کیا کہ کرفیو کی طرف ابھی نہیں جائیں گے تا ہم اگلے روز پنجاب حکومت نے جزوی لاک ڈاؤن کا کہہ کر پنجاب بھر میں کرفیو لگا دیا اور فوج طلب کر لی، اب پنجاب ،سندھ، بلوچستان بلکہ تمام صوبوں میں فوج ہے، آزادکشمیر میں بھی کرفیو لگ چکا ہے، وزیراعظم کرفیو نہ لگانے کا اعلان کرتے رہے لیکن صوبائی حکومتوں نے کرفیو لگا دیئے اور وزیراعظم ابھی بھی کہہ رہے ہیں کہ کرفیو لگانے سے قبل تیاری کرنی ہو گی۔

کرونا وائرس کے بڑھتے مریضوں کے پیش نظر سیاسی جماعتوں کے بعد عوامی حلقوں اور میڈیا کی جانب سے بھی ڈیمانڈ کی جا رہی تھی کہ ملک بھر میں کرفیو لگا دیا جائے،وفاق تو اعلان نہ کر سکا تا ہم صوبوں نے اور بعد میں اسلام آباد میں بھی جزوی کرفیو لگا دیا گیا،پاکستان کی سڑکوں پر پاک فوج ، پولیس گشت کر رہی ہے، غیر ضروری کسی کو گھروں سے نکلنے کی اجازت نہیں، کریانہ سٹور، میڈیکل سٹور کھلے ہیں، پبلک ٹرانسپورٹ بند ہے، ریلوے کو بھی ملک بھر کے لئے بند کر دیا گیا ہے.۔
کرونا وائرس کی وبا کے بعد حکومتی فیصلے کون کر رہا ہے؟ بار بار فیصلے بدلے جاتے ہیں، پی آئی اے کی بین الاقوامی فضائی سروس معطل کی گئی، آج اعلان کر دیا گیا کہ انسانی ہمدردی کی بنیاد پر کچھ پروازیں بیرون ملک جائیں گی، کچھ ممالک سے پاکستانیوں کو واپس لایا گیا، پاکستان میں اندرون ملک فضائی سروس بند کرنے کا گزشتہ روز اعلان کیا گیا تا ہم آج دوبارہ اعلان کر دیا گیا کہ باقی ایئر پورٹ پر تو سروس بند رہے گی تا ہم گلگت کے لئے پروازیں جاری رہیں گی، ایک ہی ادارے میں بار بار فیصلوں کو بدلا جا رہا ہے۔کرونا وائرس کے مریضوں کے اعدادوشمار کے حوالہ سے بھی حکومتوں میں ایکا نہیں، وفاقی حکومت نے ایک ویب سائٹ بنائی ہے جس میں اعدادو شمار دیئے جاتے ہیں تا ہم صوبے اپنے الگ الگ اعدادوشمار دے رہے ہوتے ہیں، وزیراعظم کے معاون خصوصی برائے صحت ظفر مرزا پریس کانفرنس کر کے اعدادو شمار دیتے ہیں تو اجمل وزیر بھی پریس کانفرنس کر رہے ہوتے ہیں، پنجاب میں یاسمین راشد، سندھ میں مرتضیٰ وہاب، بلوچستان کے چیف سیکرٹری، چند روز قبل وزیراعظم عمران خان سے اس ضمن میں سوال بھی کیا گیا تھا کہ مریضوں کے اعدادوشمار کے لئے ایک ہی جگہ سے ڈیٹا کیوں نہیں جاری ہوتا،جس پر وزیراعظم نے کہا تھا کہ ہم نے ویب سائٹ بنا دی ہے اسی پر اعدادو شمار جاری ہوں گے تا ہم ایسا دیکھنے میں نظر نہیں آ رہا ، پنجاب کی بھی یہ حالت ہے کہ کل پنجاب میں پہلی ہلاکت ہوئی تو صوبائی وزیر صحت ڈاکٹر یاسمین راشد نے ٹویٹ کر کے اطلاع دی، آج پنجاب میں دوسری ہلاکت ہوئی تو اس کی اطلاع ڈی سی راولپنڈی نے دی، پنجاب میں مریضوں کے اعدادو شمار کبھی وزیراعلیٰ ٹویٹ کر رہے ہوتے ہیں تو کبھی محکمہ صحت دے رہا ہوتا ہے، سندھ میں مرتضیٰ وہاب ٹویٹ کر رہے ہوتے ہیں تو وزیراعلیٰ مراد علی شاہ بھی کبھی کبھار اعدادوشمار دے رہے ہوتے ہیں، ہونا تو یہ چاہئے تھا کہ مریضوں اور اموات کے اعداد و شمار صوبے وفاق کو دیتے اور وفاق تمام ڈیٹا کو میڈیا کے ساتھ شیئر کرتا لیکن یہاں ایسا نہیں ہے .

حکومت سے ہٹ کر سیاسی جماعتیں بھی کرونا پر ایک نہ ہو سکیں، قومی اسمبلی میں قائد حزب اختلاف شہباز شریف لندن میں تھے کرونا کے نام پر بھاگتے بھاگتے پاکستان آئے، پارٹی اجلاس کیا، کرفیو کا مطالبہ کیا، پھر کرونا پر لائحہ عمل دینے کے لئے ویڈیو لنک کے ذریعے خطاب کیا،جس میں میر شکیل الرحمان کی رہائی کا مطالبہ بھی کر دیا، اب بھلا میر شکیل الرحمان کی گرفتاری کا کرونا سے کیا تعلق ؟ پارلیمانی پارٹیوں کی بنائی گئی کمیٹی کا ویڈیو لنک کے ذریعے اجلاس ہوا جس میں وزیراعظم عمران خان نے خطاب کیا اور کہا کہ تمام رہنماؤں کی تجاویز کا خیر مقدم کیا جائے گا، وزیراعظم گئے تو شہباز شریف اور بلاول نے اجلاس کا بائیکاٹ کر دیا،اگرچہ بلاول یہ کہہ چکے ہیں کہ وزیراعظم عمران خان کرونا کے خلاف جنگ میں لیڈ کریں ہم ان کے ساتھ کام کریں گے،تا ہم آج انہوں نے بھی شہباز شریف کے بائیکاٹ کے بعد اجلاس کا بائیکاٹ کر دیا۔

کرونا وائرس کے خلاف جنگ میں وفاقی و صوبائی حکومتوں کا ایک نہ ہونا، پھر اپوزیشن جماعتوں کا حکومت پر اعتماد نہ کرنا اور حکومتی درست اقدامات پر بھی بلا وجہ تنقید کرنا کسی صورت درست نہیں، کرونا وائرس کی وجہ سے لاک ڈاؤن ہوا تو وزیراعظم نے معاشی پیکج کا اعلان کر دیا،شہباز شریف مطالبہ کر رہے تھے کہ پٹرول کی قیمتیں ستر روپے کم کی جائیں تا ہم ان سے سوال کیا جائے کہ ن لیگ پاکستان کی ایک بڑی پارٹی ہے اور نہ صرف پنجاب بلکہ مرکز میں بھی ان کی حکومت رہ چکی ہے، کرونا کے خلاف جنگ حکومت اکیلے نہیں لڑ سکتی، ن لیگ نے کرونا کے لئے کیا پیکج کا اعلان کیا ؟ ن لیگ کے اراکین اسمبلی جو ووٹ لینے کے لئے حلقوں میں جاتے ہین آج حلقوں میں نظر نہیں آتے، حلقہ این اے 125 جس سے نواز شریف الیکشن لڑتے تھے بعد ازاں کلثوم نواز نے بھی الیکشن لڑا تھا اور 2018 کے الیکشن مین ایک نئے امیدوار کو ٹکٹ دے دیا گیا تھا اس حلقے کی عوام اپنے جیتے ہوئے امیدوار سے مدد کی طلب گار ہے، حکومت کی جانب سے بار بار ہاتھ دھونے، گھروں میں رہنے، فاصلہ رکھنے سمیت دیگر احتیاطی تدابیر کا کہا جا رہا ہے لیکن جب سابق وزیراعظم نواز شریف کے حلقے این اے 125 مین دن میں بیس گھنٹے پانی ہی نہ آئے تو شہری ہاتھ کیسے دھوئیں۔ضرورت اس امر کی ہے کہ کرونا کے خلاف جنگ میں وزیراعظم عمران خان جو گائیڈ لائن دیں صوبے بھی اس کی پیروی کریں اور سیاسی جماعتیں بھی وزیراعظم کے اقدامات پر تنقید کی بجائے حمایت کریں کیونکہ کرونا کے خلاف جنگ میں حکومت اکیلے کامیاب نہیں ہو سکتی اس میں سیاسی جماعتوں، عوام کو حکومت کا ساتھ دینا پڑے گا۔

 

Mehr Basharat Siddiqui
About the Author: Mehr Basharat Siddiqui Read More Articles by Mehr Basharat Siddiqui: 20 Articles with 11550 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.