اصل ہدف پاکستان ہے

جنرل حمید گل 20نومبر 1936ءکو سرگودھا میں پیدا ہوئے ۔ جنرل صاحب ایک ممتاز عسکری دانشور،مفکر اور منجھے ہوئے تجزیہ کار ہیں ،یہ مارچ 1987ءسے لے کر مئی 1989ءتک پاکستا نی خفیہ ایجنسی آئی ایس آئی کے ڈائریکٹر جنرل بھی رہے ،یہ پاکستان آرمی میں اپنی سروس کے دوران 1965ء اور 1971ءکی پاک بھارت جنگوں ، 1989ءکے افغان جہاد اور کشمیر کے محاذ میں سرگرم رہے ،افغانستان میں روس کو تگنی کا ناچ نچانے میں ان کا بڑا اہم کردار رہا،اسلام، عالم اسلام اور پاکستان سے والہانہ عقیدت ان کی شخصیت کا امتیازی خاصہ ہے،ان کے تجزیئے عمیق تدبر،بصیرت افروز معلومات اور چشم کشا حقائق سے لبریز ہوتے ہیں،اہم قومی و بین الاقوامی مسائل میں ان کا تبصرہ بڑی اہمیت کا حامل ہوتا ہے،ان کے خیالات دور رس اور دور اندیشی پر مبنی ہوتے ہیں۔

نائن الیون کی کوکھ سے جنم لینے والے ”وار آن ٹیرر“ پر جنرل صاحب ایک خاص نظریہ ،ایک چونکا دینے والا فلسفہ اور ایک بالکل الگ موقف رکھتے ہیں،پوری دنیا کہتی ہے کہ یہ جنگ دہشت گردی کی جنگ ہے ،یہ ہماری اپنی جنگ ہے ،یہ جنگ ہم دنیا کو دہشت گردی سے نجات دینے کے لیے لڑرہے ہیں،اس دہشت گردی کی آڑ میں اب تک لاکھوں ”دہشت گردوں“ کے چیتھڑے اڑائے گئے ہیں،لیکن جنرل صاحب اس موضوع پر بالکل الگ رائے رکھتے ہیں،ان کا کہنا ہے کہ یہ جنگ دراصل پاکستان کے خلاف ایک گریٹ گیم کا حصہ ہے۔وہ اس موقع پر ایک جملہ کہتے ہیں :”نائن الیون بہانہ تھا،افغانستان ٹھکانہ جبکہ پاکستان نشانہ ہے“۔

اگر آپ ایک لمحے کے لیے نائن الیون سے اسامہ کی شہادت تک پورے ڈرامے کے اسکرپٹ پر ایک نظر ڈالیں تو آپ کو ان کی یہ بات سو فیصد سچی معلوم ہوگی،آپ کو پتا چل جائے گا کہ امریکا ان گیارہ سالوں سے پاکستان کے خلاف ایک گریٹ گیم کھیل رہا ہے،امریکا سمیت پورا یورپ اس جنگ کی آڑ میں پاکستان کو تباہ کرنے کے درپے ہے۔ہر روز اس کو کمزور کرنے کے لیے ایک نیا پلان،ایک نئی تیکنیک اور ایک نیا حربہ آزمایا جارہا ہے۔

آپ کو یاد ہوگا !11ستمبر2001ءکو ورلڈ ٹریڈ سینٹر اور امریکی وزارت دفاع پینٹا گون کی عمارتوں سے 3مغوی جہاز آٹکرائے تھے،جس کے نتیجے میں تقریبا 5000ہزار افراد ہلاک جبکہ اس حادثے میں امریکا کو اربوں ڈالروں کا نقصان ہوا تھا،اس بدترین دہشت گردی کے فوری بعد غرور کے نشے میں مست امریکا نے بغیر کسی شہادت، ثبوت یا دلیل کے اس کاروائی کا الزام ”القاعدہ“پر تھوپ دیا اور اسامہ بن لادن کو اس پلان کا ماسٹر مائنڈ قرار دے دیا،ان دنوں افغانستان میں طالبان کی حکومت تھی،انہوں نے وہاں اسلامی نظام نافذ کر رکھا تھا،بن لادن بھی انہی دنوں وہیں مقیم تھے،امریکا نے طالبان حکومت سے اسامہ کی حوالگی کا مطالبہ کیا،لیکن طالبان نہیں مانے،طالبان حکمران ملا عمر نے یکسر انکار کردیا کہ اگر افغانستان کی اینٹ سے اینٹ بھی بجا دی جائے، تب بھی وہ اسامہ کو امریکا کے حوالے نہیں کریں گے،پوری عالمی برادری نے افغانستان پر اسامہ کو امریکا کے حوالے کردینے کے لیے بھرپور دباﺅ ڈالا،لیکن وہ ٹس سے مس نہ ہوئے، بالآخر 11ستمبر2001ءکے 28 دنوں بعد8اکتوبر 2001 ءکو امریکا نے افغانستان پر آتش و آہن کی برسات کردی،یوں 13نومبر2001ءکو افغانستان کا انتہائی اہم شہر کابل طالبان کے ہاتھ سے نکل گیا،اس کے بعد رفتہ رفتہ افغانستان طالبان کے کنٹرول سے کرزئی کے تسلط میں آگیا،دوسری طرف پوری دنیا نے افغانستان کے ساتھ معاشی واقتصادی سمیت ہر قسم کابائیکاٹ شروع کردیا،سفارتی تعلقات تک منقطع کر لیے گئے،ادھر پاکستان میں امریکی نائب وزیر خارجہ نے پاکستان کو ایک چٹ تھما دی،ساتھ یہ پیغام بھی تھا کہ ہمارا ساتھ دو ،ورنہ پتھر کے دور میں پہنچا دیے جاﺅ گے!اس شاہی فرمانِ عالی شا ن کا ملنا تھا کہ اس وقت کے پاکستانی آمر پرویز مشرف اپنے تمام حواریوں کے ساتھ اپنی خارجہ پالیسی پر یوٹرن لیتے ہوئے آنکھوں پہ کھوپے چڑھائے شہنشاہِ عالم پناہ کی چوکھٹ پر سربسجود ہوگئے،یہاں سے ایک نئی تاریخ،ایک نیا ڈرامہ اور ایک نئی کہانی شروع ہوئی۔

اس کی ابتداء نائن الیون سے ہوئی تھی اور اسے 2مئی2011ءکو اسامہ بن لادن کی شہادت کے موقع پر ختم ہوجانا چاہئے تھا،لیکن نہیں ! یہ کھیل ابھی ختم ہونے والا نہیں،ابھی اس کھیل کا فائنل راﺅنڈ باقی ہے،جنرل حمید گل کے مطابق اس جنگ کا نشانہ افغانستان ،عراق اور وزیرستان نہیں بلکہ ”بدی کے اس محور“کا اصل ہدف دنیائے اسلام کی پہلی ایٹمی مملکت پاکستان ہے اور اس گیم کا فائنل راﺅنڈ پاکستان میں کھیلا جائے گا ۔

آپ ذرا ان گیارہ سالوں پر ایک نظر ڈالیں تو آپ کو اندازہ ہوگا کہ اس جنگ کا واحد مقصد صرف اور صرف انسانیت کا قتل تھا،اب اس جنگ میں کس نے کیا کھویا ؟یہ دیکھیں تو بالکل واضح ہے کہ پاکستان کے علاوہ کسی بھی ملک کو کوئی قابل ِذکر نقصان ہوا ہی نہیں،جبکہ پاکستان کو اس جنگ کی وجہ سے جو نقصان اٹھانا پڑا ، وہ ناقابلِ تصور ہے،ستم ظریفی دیکھیے کہ اس دوران وجود میں آنے والی دونوں حکومتیں دہشت گردی کے خلاف اس جنگ میں فرنٹ لائن اتحادی ہونے پر فخر کرتی رہیں،پاکستان میں 9سال حکومت کرنے والے دونوں حکمرانوں میں اس لحاظ سے کوئی فرق نہیں کہ دونوں ہی اس پرائی جنگ کو اپنی جنگ کہتے نہیں تھکتے ،ابتداء میں مسئلہ صرف امریکیوں اور طالبان کا تھا،لیکن نہ جانے ہم اس جنگ میں کیوں کود پڑے کہ یہ جنگ ایک دہائی سے ہمارے دامن کو خاکستر کرتی جارہی ہے،نیٹو افواج کے بھاری بوٹوں تلے پوری قوم روندی جارہی ہے،بم دھماکوں نے پورے ملک کا سکون غارت کر رکھا ہے،سوات سے کراچی تک یہاں کی زمینیں موت کی فصل اگا رہی ہیں،شاہراہوں پر انسانی لوتھڑے ،بے گوروکفن لاشے اور خون کے سرخ دھبے بکھرے پڑے ہیں،کوئی ادارہ اس جنگ کی نحوست سے بچا نہیں رہا،ہزاروں بے گناہ سویلین سمیت خود پاک فوج کے سینکڑون جوان اپنی جانوں سے ہاتھ دھو بیٹھے۔

آپ ذرا بتائیے!ایسے واقعات،حادثات اور سانحات امریکا کے کسی اتحادی ملک میں پیش آئے ہیں؟اگر نہیں تو پھر پاکستان کے ساتھ ہی کیوں ایسا ہورہا ہے؟تو کیا ہم اس سے یہ نتیجہ اخذ نہیں کرسکتے کہ یہ جنگ ہم کسی اسامہ بن لادن ،بیت اللہ محسود یا ملا عمر کے خلاف نہیں بلکہ اپنے ہی خلاف لڑ رہے ہیں؟!ہم اپنی جنت اپنے ہی ہاتھوں اجاڑ رہے ہیں،یہ جنگ ہمیں اس ڈگر پر لے جارہی ہے جہاں زندگی کے آثار معدوم ہے،یہ جنگ ہمیں تباہی کے ایک ایسے دہانے پر لاکھڑا کر رہی ہے جس سے واپسی کا کوئی راستہ نہیں اور جس سے آگے بھی تاریکی کا راج ہے۔

پھر سوال یہ اٹھتا ہے کہ اس جنگ کا اصل ہدف پاکستان کیوں ہے؟اس کا جواب یہ ہے کہ پاکستان ایک اسلامی ریاست،عالم اسلام کا قلعہ اور مسلمانوں کی امیدوں کا واحد مرکز ہے،یہ ملک ا سلام کی نشاة جدیدہ کی بنیاد بن کر ابھرا ہے،عالمِ اسلام کے مسلمانوں کی تمام تر امیدیں اس ملک کے تابناک مستقبل کے ساتھ وابستہ ہیں،یہ سرزمین معدنی ذخائر،قدرتی بری و بحری وسائل اور افرادی قوت سے مالامال بلکہ لبالب ہے، یہاں کے باصلاحیت،دردمنداور حساس نوجوان عالمِ اسلام کی قیادت کا ملکہ رکھتے ہیں،یہ اسلامی دنیا میں واحد ایٹمی طاقت ہے جو بہ یک وقت امریکا ،اسرائیل اور بھارت سے ٹکر لینے کی صلاحیت رکھتا ہے،یہ سارے اچھی جانتے ہیں کہ پاکستان کا ایٹم بم ان کے لیے کسی طور نیک شگون ثابت نہیں ہوگا ،اسی لیے یہ سب آج پاکستان کے خلاف صف آرا ہیں،امریکا ،اسرائیل اور بھارت سمیت دنیا بھر کی تمام فرعونی طاقتیں اس ملک کو ناکام ریاست ثابت کرنے پر تلی ہوئی ہیں،مانا کہ ہمارا ایٹم بم محفوظ ہاتھوں میں ہے لیکن کیا کیا جائے کہ جب ہمارے دارالحکومت کے قریب امریکی فوج دھاوا بول دیں ،اس وقت ہمارا ریڈار سسٹم بھی جام ہو،ہمیں پتا ہی نہ چلے کہ اسامہ بن لادن جیسا انتہائی مطلوب شخص ہمارے قلب میں موجود ہے اور جس کی اطلاع ہمیں نہیں امریکیوں کو ہوتی ہے تو کیا بعید ہے کہ کل کو وہ ہمارے کہوٹہ ، ایٹمی پلانٹ یا ایٹم بم تک نہیں پہنچ سکتے ،اس وقت آپ کیا توجیہہ پیش کریں گے جب وہ ہم سے یہ کہہ کر کہ ہمارا ایٹم بم مانگ لیں گے کہ پاکستان دنیا کا سب سے کرپٹ، غیر محفوظ اور ناکام ریاست ہے،تب پھر آپ یہی کہیں گے نا کہ یہ پاکستان کے تحفظ ،سا لمیت اور استحکام کے لیے ضروری تھا کہ ایٹم بم انہی کی حفاظت میں دے دیا جائے، یہ کافر لوگ چاہتے ہی یہی ہیں کہ یہاں انتشار ، خلفشار اور خانہ جنگی کی کیفیت پیدا ہو اور ہمارے ایٹم بم کو طالبان سے خطرہ لاحق ہونے کا بہانہ بنا کر یہ اس بم کو یہاں سے یو این او کے ذریعے اٹھوا کر لے جائیں، تاکہ نہ رہے بانس،نہ بجے بانسری .....!!!

یہ ہے دہشت گردی کی جنگ کا اصل منشور .....!!جس کے پس پردہ پوری دنیائے کفر پاکستان کے خلاف ڈٹی ہوئی ہے،اسی لیے آج ان کا اصل ہدف اور نگاہ ِخونیں کا مرکز پاکستان ہے،جس کے لیے انہوں نے افغانستان کی اسلامی سلطنت کو تاراج کیا ،اسی لیے عراقی مسلمانوں کے خون سے اپنے ہاتھ رنگین کیے ،اسی لیے وزیرستان پر انسانیت کش میزائلوں کی برسات کی گئی،آج یہ اسامہ بن لادن کی شہادت کے واقعے کو بہانہ بنا کر اپنے اصل ہدف کی طرف بڑ ھ رہے ہیں۔

واقعی نائن الیون تو ایک فریب، دھوکہ اور بہانہ تھا،جس کا اصل نشانہ اسلامی جمہوریہ پاکستان ہے،جس کی وجہ سے آج اس کے خلاف انتہائی گہری سازشیں ہورہی ہیں ،جس کے لیے تمام کفریہ طاقتیں واشنگٹن سے جنیوا اور لندن سے برسلز تک سر جوڑے جوڑ توڑ میں مصروف ہیں،اور ایک ہم ہیں کبوتر کی طرح آنکھیں بندکیے ،شتر مرغ کی طرح ریت میں منہ چھپائے اور اندھوں کی طرح تاریک راہوں چلتے جا رہے ہیں،ہم اس بات سے ہی بے خبر ہیں کہ خاکم بدہن پاکستان نہیں رہا تو پورے عالم اسلام کے مسلمانوں کی کمر ٹوٹ جائے گی،دنیا بھر کی اسلامی تحریکوں کو ملنے والی جلا ماند پڑ جائے گی،یہاں ہونے والی خانہ جنگی دنیا کی تیسری جنگ عظیم کا پیش خیمہ ثابت ہوگی !!!
Muhammad Zahir Noorul Bashar
About the Author: Muhammad Zahir Noorul Bashar Read More Articles by Muhammad Zahir Noorul Bashar: 27 Articles with 25813 views I'm a Student media science .....
as a Student I write articles on current affairs in various websites and papers.
.. View More