|
|
انسان کی شخصیت کو مؤثر بنانے میں اس کی مسکراہٹ کا اہم کردار ہوتا
ہے جو کہ خوبصورت دانتوں کے ساتھ ہی ممکن ہو سکتی ہے- مگر اگر یہ
دانت گندے پیلے اور ٹیڑھے میڑھے ہوں تو ان کو دیکھ کر سامنے والے
کا تاثر کسی صورت مثبت نہیں ہو سکتا ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ ہر انسان
کی کوشش ہوتی ہے کہ وہ اپنے دانتوں کی صفائی پر خصوصی توجہ دے اور
ان کو سفید اور چمکدار بنائے مگر پاکستان کے علاقے خیبر ایجنسی کے
علاقے ملا گوری کا ایک قبیلہ ایسا بھی ہے جن کو اپنے پیلے اور گندے
دانتوں پر فخر ہے اور وہ اس کو اپنے اجداد کی میراث قرار دیتے ہیں |
|
تفصیلات کے مطابق ملاگوری کے علاقے میں دو قبائل آباد ہیں جن کو اسپن شیخان
اور طور شیخان کہا جاتا ہے پشتو زبان میں طور کالے رنگ کو اور اسپن سفید
رنگ کو کہتے ہیں طور شیخان قبیلے کے اس نام کی وجہ یہی قرار دی جاتی ہے کہ
اس قبیلے کے تمام افراد کے دانت پہلے پیلے اور اس کے بعد کالے ہو جاتے ہیں
اور یہاں تک کہ عمر کے ساتھ ساتھ یہ ٹوٹ ٹوٹ کر گر جاتے ہیں اور ہر ممکن کی
صفائی کی کوشش کے باوجود ان کے رنگ پر کوئی اثر نہیں پڑتا ہے اور مرد و زن
سب کے دانت ایک خاص وقت کے بعد ختم ہو جاتے ہیں- |
|
اب جیسے جیسے تعلیم عام ہوتی جا رہی ہے اس قبیلے کے نوجوان دانتوں کی صفائی
کے لیے جدید طریقوں کا بھی استعمال کر رہے ہیں- ان میں سے کچھ بھاری رقم کے
عوض دندان سازوں سے اپنے دانتوں کی صفائی کروا رہے ہیں- مگر چونکہ یہ علاقہ
ایک غریب علاقہ ہے اس لیے زيادہ تر آبادی اس سہولت سے فائدہ نہیں اٹھا سکتے
ہیں- |
|
|
|
اس قبیلے کے ایک فرد عظمت خان کا اس حوالے سے یہ کہنا ہے کہ ان کے قبیلے کے
لوگوں کے دانت صدیوں سے ایسے ہی ہیں اور اس کا سبب وہ اپنے ایک بزرگ کی دعا
کو قرار دیتے ہیں جس نے یہ دعا کی تھی کہ اللہ ان کی آنے والی نسلوں کے
دانت بھی کالے کر دے- اس حوالے سے ان کا یہ کہنا ہے کہ ان کو اپنے ٹیڑھے
میڑھے اور کالے دانتوں پر فخر ہے کیوں کہ یہ کسی بیماری کے سبب نہیں ہے
بلکہ یہ ان کے بزرگوں کی میراث ہے جس پر وہ جتنا فخر کریں کم ہے- |
|
جب کہ میڈیکل سائنس کے حوالے سے اس قبیلے کے تمام افراد دانتوں کی ایک
بیماری فلوریسس میں مبتلا ہیں جو کہ پینے کے پانی میں فلورائڈ کی
زيادتی کے باعث ہوتی ہے اور اس کا علاج بہت مہنگا ہوتا ہے جس کو تمام
لوگ برداشت نہیں کر سکتے- |
|
مہمند اور وارسک ڈيم کے قریب آباد لوگ پینے کے پانی کے حوالے سے شدید ترین
مشکلات کا شکار ہیں پینے کے پانی کے لیے ان کے گاؤں میں صرف ایک کنواں
موجود ہے جس کی گہرائي بہت زیادہ ہے اور جس میں فلورین کی مقدار حفظان صحت
کے مطابق نہیں ہے- یہی سبب ہے اس علاقے کے تمام افراد تیس سال کی عمر کے
بعد گھٹنوں کے شدید درد میں بھی مبتلا ہو جاتے ہیں- |
|
|
|
اس کنوئيں کے علاوہ پینے کے پانی کے حصول کے لیۓ یہاں کے افراد کو میلوں کا
سفر طے کر کے پہاڑی چشموں سے پانی بھر کر لانا پڑتا ہے یہی وجہ ہے کہ اس
قبیلے کے افراد حکومت سے مطالبہ کرتے نظر آتے ہیں کہ ان کو پینے کا صاف
پانی ٹیوب ویل لگا کر فراہم کیا جاۓ تاکہ ان کی آئندہ نسلیں اس خطرناک
بیماری سے محفوظ رہ سکیں- |