پولیس اصلاحات انفرادی کوششوں تک محدود کیوں؟

ماضی اور حال کے حکمرانوں کے تمام تر دعوؤں اور شوقیہ بیان بازی کے باوجود پولیس کاقابل رحم حد تک فرسودہ مگر خوفناک حدتک بگڑا ہو ا نظام آج بھی جوں کا توں موجود ہے اور پولیس کے نظام کو بدل دینے کے ان سب منصوبہ سازوں کامنہ چڑا رہا ہے ،سرکار کے دوسرے تمام محکموں کی طرح عام آدمی پولیس سے مایوس اور تھانوں سے خوفزدہ ہے مایوسی اسقدر زیادہ ہے کہ اب اگر رشوت دے کر بھی کام ہو جائے تو لوگ اسے غنیمت سمجھتے ہیں جھوٹی ایف آئی آرز کے اندراج ، جانبداری پہ مبنی تفتیش ، منشیات جواء اور قحبہ خانے چلانے جیسے منظم جرائم کی پولیس کی جانب سے کھلی سر پرستی نے پولیس کے لئے بدنامی کا لفظ چھوٹا کر دیا ہے لیکن ان سب سے بڑھ کر یہ کہ تھانوں کی سطح پر خوش اخلاقی کا وہ بحران ہے کہ شریف آدمی توپولیس کے منہ نہ لگنے کی دعائیں کرتا رہتا ہے ، جرائم پولیس کو ا س حال تک پہنچانے میں حکومتوں میں بیٹھے سیاستدانوں کی حد سے زیادہ مداخلت ، نااہل افسران کی اقرباء پروری اور رشوت کی بنیاد پر کی گئی نچلی سطح کی بھرتیوں سے لے کر اعلیٰ سطح کی تقرریوں نے اپنا اپنا حصہ ڈا لا ہے، نیچے سے لے کر اوپر تک رشوت ستانی میں بری لتھڑے ہوئے پولیس کے اس نظام عام طور پر دریا کے بہاؤ کے ساتھ ساتھ چلنے والے’’ ہومیوپیتھک ٹائپ ‘‘افسران زیادہ بڑی تعداد میں پائے جاتے رہے ہیں جن کے پاس وژن کا جتنا شدید قحط ہوتا ہے اتنا ہی وہ کچھ کر گزرنے کے جذبے سے بھی عاری ہوتے ہیں ایسے افسران ہر روز اپنے دفتر میں چند گھنٹے قید تنہائی گزارنے کے بعد گھر واپسی کو ہی اپنے لئے کافی سمجھتے ہیں ، پولیس کے نظام کو ٹھیک کرنے کے بارے میں کبھی خیال تک نہیں آتا ، چنانچہ ایسے پولیس سربراہان کی موجودگی میں جرائم خوب پھلتے پھولتے ہیں اور معاشرہ گوجرانوالہ میں بہت کم افسران ایسے گزرے ہیں جو پولیس اصلاحات کے بارے میں فکر اور سوچ رکھتے ہوں البتہ بعض پولیس سربراہان کی انفرادی اصلاحات ، جرائم کی بیخ کنی کے لئے غیر معمولی اقدامات اور انکی عوام کے جان و مال کی حفاظت کے لئے چٹان جیسی کمٹمنٹ نے انہیں کامیابیوں کی اس راہ پر گامزن کیا جسکی نظیر تاریخ میں نہیں ملتی چنانچہ یہ لوگ پولیس نظام کے مردہ گھوڑے میں جان ڈالنے میں کامیاب رہے اور تمام تر خرابیوں کے ہوتے ہوئے اپنی سچی لگن محنت اور انتہا درجے کی جرات مندی کی وجہ سے عزت اور شہرت کی بلندیوں پر جا پہنچے اپنی جان ہتھیلی پر رکھ جرم کی دنیا کے ان بڑے ناموں کو قانون کے سامنے سرنگوں کیا جن کی دہشت سے لوگ تھر تھر کانپ رہے تھے ، انہی افسران میں سر فہرست ڈی آئی جی ذوالفقار احمد چیمہ کاآتا ہے جنہوں نے گوجرانوالہ میں اپنی تعیناتی کے دوران جرات و شجاعت کے وہ ناقابل یقین کارنامے انجام دیئے جو آج بھی تاریخ کا سنہرا باب ہیں ، اپنی انفرادی صلاحیتوں اور کوششوں سے انہوں نے گوجرانوالہ پولیس میں بجلیاں بھر دیں اور پولیس کا مورال اسقد بلند کیا کہ ماضی ایسی کوئی مثال موجود نہیں ہے ، اپنی تعیناتی کے بعد انہوں نے پولیس اصلاحات کے لئے چاربنیادی اصول وضع کئے جن میں خوش اخلاقی ، ایمانداری ، بہادری اور غیر جانبداری شامل ہے چنانچہ انہوں نے پولیس کا گندا روایتی کلچر بدلنے کے لئے فوری طور پر کرپٹ افسران کو فارغ کیا ، غیر معمولی اختیارات استعمال کرتے ہوئے اچھی شہرت کے مالک ایسے افسران کو ایس ایچ اوز لگایا جن کی شاید عام حالات میں کبھی باری ہی نہیں آتی ، روایتی بدمعاش ایس ایچ اوز خود ہی دیگر اضلاع میں تبادلوں کے لئے بھاگ دوڑ کرنے لگ گئے ایمانداری کی حوصلہ افزائی کے لئے ہر اچھی کارکردگی پر ایک ایک لاکھ روپے انعام کی روایت شروع کی جس سے خاص طور پر نوجوان افسران میں کام کرنے کی لگن بڑھی ، ضلع میں نئے تھانے قائم کئے گئے، ماڈل تھانوں کا قیام عمل میں لایا گیا ، عام نوعیت کے جھگڑوں اور گھریلو مسائل کو نمٹانے کے لئے مصالحتی کمیٹیاں قائم کر دی گئیں، خوف کی علامت سمجھے جانے والے نامی گرامی اور عالمی شہرت رکھنے والے وڈو گینگ اور ننھو گورائیہ جیسے بھتہ خوروں اور اغوا ء برائے تاوان میں ملوث جرائم پیشہ عناصر کو انکے انجام تک پہنچایا ، ذوالفقار احمد چیمہ نے اپنے دور میں تمام ماتحت افسران پر دعوتیں اڑانے اور تحائف لینے پر بھی پابندی عائد کی افسران پرزور دیا کہ حکومت کی بجائے ریاست اور عوام کے خادم بن کر کام کریں، انہوں نے پولیس کے ادارے کو کو خیراتی ادارے کی بجائے سرکاری وسائل کے بل بوتے پر تبدیل کرنے کی کوشش کی تاجروں اور صنعتکاروں کو بھتہ خوری سے نجات دلانے کے باوجود ان سے کبھی عطیات وصول نہیں کئے اور انکی سب سے بڑی خوبی بطور ڈی آئی جی گوجرانوالہ یہ تھی کہ انہوں نے اپنے کام میں سیاسی مداخلت قبول نہ کرنے کی بھی نئی روایت قائم کی ، قارئین کو نوشہرہ ورکاں کے ایک حلقے کا وہ الیکشن اچھی طرح یاد ہو گا جس میں انہوں نے حکومتی جماعت کے امیدوار کے لئے جانبداری کے سیاسی دباؤکو قبول کرنے سے صاف انکار کر دیا تھا جسکے نتیجے میں حکومتی ا میدوار کو شکست ہو گئی تھی ، باوجود اسکے کہ انکے اپنے سگے بھائی جسٹس (ر) افتخار احمد بھی حکومتی جماعت کی طرف سے وزیر آباد کی سیٹ پر امیدوار تھے یہ اپنی نوعیت کی ایک منفرد مثال ہے ،ڈی آئی جی ذوالفقاراحمد چیمہ اپنے اس اقدام کی وجہ سے آئی جی پنجاب کی تعیناتی سے محروم کر دیئے گئے لیکن ان کانام آج بھی گوجرانوالہ کی تاریخ کے بہترین پولیس سربراہان میں کی جاتا ہے، انکے دور میں پولیس کا مورال بلند ہوا اور افسران میں کام کرنے کی تڑپ پیدا ہوئی، انہی کے دور میں آج کے مقبول ترین پولیس آفیسر ڈی ایس پی عمران عباس چدھڑ جنہیں دنیا کرائم فائٹر آفیس کے طور پر جانتی ہے اہم ذمہ داریوں پر تعینات کئے گئے، جنہوں نے انتہائی جرات اور دلیری سے جرائم پیشہ عناصر کا پیچھا کیا اور انہیں کیفر کردار تک پہنچایا ، بطور انچاج سی آئی اے انہوں نے اغواء برائے تاوان بھتہ خوری قتل اور ڈکیتی کے لاتعداد ملزمان کو قانون کے سامنے سرنگوں ہونے پر مجبور کیا ، عمران عباس چدھڑ نے ڈی آئیء جی ذوالفقار احمد چیمہ کے وضع کئے ہوئے اصولوں پر عمل کر ے وہ عزت پائی جو بہت کم لوگوں کے حصے میں آتی ہے ، بلاشبہ ایسے افسران پولیس کے محکمے کے لئے فخر کاباعث ہیں ، بدقسمتی کی بات ہے کہ ڈی آئی جی ذوالفقار احمد چیمہ جیسے خدادا صلاحیتوں کے مالک افسر کے جانے کے بعد آج انکی جانب سے کی گئی تمام اصلاحات قصہ ء ماضی بن چکی ہیں ، پولیس کھابے کھانے ، سرمایہ داروں سے فنڈز اکھٹے کرنے اور سائلین کی جیبیں کاٹنے ہی نہیں بلکہ انہیں جھڑکیاں دینے میں بھی ایک بار پھر ٹاپ پر پہنچ چکی ہے ، وژن رکھنے والے باصلاحیت اور جراتمندافسران کی ذاتی کاوشوں سے کی جانے والی اصلاحات انکے جاتے ہی دم توڑ چکی ہیں ، پولیس میں ٹاؤٹ ازم عروج پر ہے ، جھوٹی ایف آئی آرز معمول کی بات ہے ، تھانوں میں بیٹھامنشی مافیامال اکٹھا کرنے میں مصروف ہے ان حالات میں پولیس کے ہاتھوں دن رات اپنی تذلیل کرانے والے عوام پھر کسی ڈی آئی جی ذوالفقار احمد چیمہ جیسے مسیحا کے منتظر ہیں۔
 

Faisal Farooq Sagar
About the Author: Faisal Farooq Sagar Read More Articles by Faisal Farooq Sagar: 107 Articles with 67279 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.