کشمیریوں کا قتل عام

سوپور میں ایک اور نوجوان کو بھارتی فورسز کی حراست میں قتل کر دیا گیا ہے۔جس کے خلاف بڑے پیمانے پر حکومت مخالف مظاہرے ہو رہے ہیں۔اگر چہ اہل خانہ واقعہ کی جوڈیشل تحقیقات کا مطالبہ کر رہے ہیں مگر مقبوضہ کشمیر میں قتل عام میں ملوث آج تک کسی بھی بھارتی اہلکار کو سزا نہیں دی گئی۔ فورسز ہمیشہ کشمیریوں کو فرضی جھڑپوں میں یا زیر حراست قتل کرنے کے بعد بلا جواز ان کا تعلق مجاہدین کے ساتھ جوڑ دیتے ہیں۔یا ان کے قبضہ سے اسلحہ بر آمد کرنے کادعویٰ کیا جا تا ہے۔ مذکورہ نوجوان، 24 سالہ عرفان احمد ڈار کو حراست میں لینے کے بعد قتل کیا گیا ۔ اس کی لاش ایک باغ میں پھینک دی گئی۔پھر روایتی طور پر اس کا تعلق بھی مجاہدین کے ساتھ جوڑ دیا گیا۔کہا گیا کہ وہ پولیس حراست کے دوران فرار ہوا۔حقائق شہیدعرفان کے بڑے بھائی جاوید احمد ڈار میڈیا کو بتائے کہ ’’ہمارے گھر میں سی سی ٹی وی کیمرے لگے ہیں، ڈیڑھ ماہ کی فوٹیج چیک کریں اور اس کے علاوہ میرے اور میرے بھائی کے موبائل فونز کو چیک کریں، اگر مجاہدین کے ساتھ تعلق کے بارے میں کچھ نکلا تو جو چاہیں ہمارے ساتھ کریں‘‘۔’’ عرفان کو منگل کو دن کے پونے ایک بجے ٹاسک فورس نے گرفتار کیا، اس کے بعد مجھے بھی گرفتار کیا گیا اور وہاں ہمیں کہا گیا کہ آپ کا راز فاش ہوگیا ہے۔‘‘جاوید نے مزید کہا ’’عرفان میرا بھائی ہی نہیں بلکہ میرا دوست بھی تھا وہ میرے ساتھ ہر بات اور ہر مسئلہ شیئر کرتا تھا، وہ صبح سات بجے سے شام نو دس بجے تک دکان پر کام کرتا تھا۔ دس روز قبل ہمارے گھر کی تلاشی لی گئی لیکن کچھ بھی برآمد نہیں کیا گیا‘‘۔’’دس روز قبل ہمارے گھر کا محاصرہ کیا گیا، کوئی الماری، کوئی چیز ٹھیک نہیں ہے، ہم نے فورسز سے کہا کہ آپ کیمرہ چیک کریں اور دیکھیں کہ یہاں کون آتا جاتا ہے، یہاں کچھ بھی برآمد نہیں کیا گیا‘‘۔ جاویدنے کہا’’ہم دونوں کوپولیس ٹاسک فورس کیمپ میں الگ الگ رکھاگیا‘‘۔جاوید کے بقول’’میں بیمارتھا،اوررات کے تقریباً11بجے مجھے پولیس نے رہاکردیالیکن میرے چھوٹے بھائی کوحراست میں ہی رکھاگیا‘‘۔جاوید احمد کا بھائی عرفان غیرشادی شدہ تھا، اس کی تحویل سے کچھ اسلحہ برآمد کرنے کادعویٰ کیا گیا جو کہ بے بنیاد ہے۔ عرفان کو دوران حراست قتل کیا گیا۔ واقعے کی غیرجانبدارانہ تحقیقات کامطالبہ کیاجا رہا ہے مگر بھارتی فورسز ہی قاتل اور جج بنے ہیں۔ عرفان احمد کی لاش سوپور کے تجرشریف میں سیب کے ایک باغ میں پائی گئی۔عرفان احمد کے حراستی قتل کی خبرپھیلتے ہی قصبہ میں تشویش کی لہردوڑگئی۔ صدیق کالونی سے خواتین نے ایک جلوس نکالا،اورانہوں نے نعرے بازی کرتے ہوئے سب ڈسٹرکٹ اسپتال سوپورتک مارچ کیا۔ اقبال مارکیٹ کے نزدیک بھی کچھ خواتین نے جمع ہوکر احتجاج کرتے ہوئے ٹریفک کی آمدورفت بند کرا دی۔کئی علاقوں میں فورسز کے خلاف مظاہرے ہو رہے ہیں۔
عرفان کی لاش ان کے اہل خانہ کے حوالے نہیں کی گئی بلکہ اسے جابرانہ طور پر سوپور سے بہت دور سرینگر کرگل شاہراہ پر سونہ مرگ میں پولیس سٹیشن کے متصل قبرستان میں سپرد خاک کیا گیا۔شوپیان فرضی انکاؤنٹر میں تین کشمیریوں کے قتل کے بعد سوپور میں عرفان کے حراستی قتل نے مقبوضہ کشمیر میں فضا سوگوار بنا دی ہے۔ بھارت فورسز کی جانب سے زیادتیوں کے نئے ریکارڈ قائم کئے جارہے ہیں۔بھارت نواز نیشنل کانفرنس رکن پارلیمان جسٹس (ر) حسنین مسعودی نے بدھ کو یہ معاملہ بھارتی پارلیمنٹ کے اجلاس کے دوران وقفہ صفر میں اٹھایااور کہا کہ 5اگست2019کے غیر آئینی فیصلے کے بعد جموں وکشمیر میں ظلم و جبر کی ایک داستان لکھی جارہی ہے۔بھارتی حکومت نے اپنے فیصلوں کو صحیح جتلانے کیلئے ہزاروں کی تعداد میں گرفتاریاں عمل میں لائیں اور اب فرضی انکاؤنٹروں اور حراستی ہلاکتوں سے جبر و استبداد کے نئے ریکارڈ قائم کئے جارہے ہیں۔ ایک ماہ قبل شوپیان میں ایک تصادم آرائی میں 3 نوجوانوں کو گولی مار کر قتل کیا گیا تھا اور یہ دعویٰ کیا گیا تھا کہ یہ تینوں خوفناک جنگجو تھے لیکن کچھ دن بعد پتہ چلا کہ وہ راجوری کے بے گناہ مزدور ہیں اور ایک فرضی انکاؤنٹر میں قتل کر دیئے گئے۔ڈی این اے کے نمونے اگرچہ ایک ماہ قبل حاصل کئے گئے لیکن اب تحقیقات میں بلا وجہ تاخیر کی جارہی ہے۔بھارتی حکومت کو یاد دہانی کرائی جا رہی ہے کہ ظلم و تشدد اور جبر و استبداد سے کوئی بھی نتائج سامنے نہیں آسکتے بلکہ اس سے مقبوضہ جموں وکشمیر کے عوام کی بھارت سے نفرت اور زیادہ بڑھے گی۔بھارت کشمیریوں کا قتل عام کر رہا ہے۔ شوپیان اور سوپور جیسے انکاؤنٹروں کے حقائق جانے کی کوشش کا مطالبہ کیا جا رہا ہے۔
کشمیر میں بھارتی قابض مسلح افواج کو نہتے اور بے گناہ لوگوں کو حراست میں لینے، ان پر تشدد کرنے یا ان کو قتل کرنے کے لئے قطعی استثنیٰ دے دیا گیا ہے اور اسی طرح 23 سالہ عرفان احمد ڈار، جو پیشہ سے ایک دکاندار ہے، کو غلط طور پر مجاہدین سے تعلق کا الزام لگاکر اس کا قتل کیا گیا۔ کشمیر میں بندوق اور گولی لوگوں کو قائل کرنے کیلئے بھارت کی واحد علامت بن چکی ہے۔پاکستان نے مقبوضہ جموں وکشمیر میں بھارتی فورسز کی جانب سے دکاندار عرفان احمد ڈار کو ماورائے قانون تشدد کا نشانہ بناکر قتل کرنے کی شدید مذمت کی ہے۔ترجمان دفترخارجہ زاہد حفیظ چوہدری کے مطابق بچوں اور خواتین سمیت تین سو سے زائد معصوم کشمیریوں کو بھارتی قابض فورسز گزشتہ ایک برس کے دوران جعلی مقابلوں، نام نہاد جامع تلاشی اور پیلٹ گنز کی فائرنگ کا نشانہ بناچکے ہیں۔بھارتی کی کشمیر کے لوگوں کو غیر انسانی طریقے سے قتل، تشدد، جبری گمشدگیوں اور قتل وغارت پر مبنی پالیسی ماضی میں ناکام ہوچکی ہے اور مستقبل میں بھی کامیاب نہیں ہوگی۔بھارت کا ریاستی دہشتگردی اور غرورکشمیریوں کے عزم کو نہیں توڑ سکتا اور نہ ہی اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی متعلقہ قرار دادوں اور بین الاقوامی قانون کے عین مطابق حق خود ارادیت کے حصول کے لیے ان کی کوششوں کو روک سکتا ہے۔ عالمی برادری کو مقبوضہ جموں و کشمیر سنگین تر ہوتے حالات کا فوری نوٹس لینا چاہیے اور دنیابھارت کو کشمیری عوام کے خلاف سنگین جنگی جرائم پر ذمہ دار ٹھہرائے۔بھارت سے بین الاقوامی قوانین کی پاسداری نہ کرنے اور کشمیریوں کے زندہ رہنے کے حق سمیت بنیادی انسانی حقوق کا احترام نہ کرنے پر جواب طلب کیا جائے۔ اقوام متحدہ سمیت عالمی برادری کی مشترکہ ذمہ داری ہے کہ وہ جنوبی ایشیا میں پائیدار امن اور استحکام کے لیے اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی قراردادوں اور بین الاقوامی قانون کے مطابق مسئلہ جموں و کشمیر کے پرامن حل کے لیے کام کرے۔
 

Ghulamullah Kyani
About the Author: Ghulamullah Kyani Read More Articles by Ghulamullah Kyani: 710 Articles with 490811 views Simple and Clear, Friendly, Love humanity....Helpful...Trying to become a responsible citizen..... View More