میرا نام پاکستان ہے

میرا نام پاکستا ن ہے آج سے تریسٹھ سال پہلے مجھے یہ نام دیا گیا تھا ۔ میں اپنے فرزندوں کی نا اہلی کی وجہ سے ہندو بنّیوں اور فرنگیوں کے ہاتھوں ایک عرصے سے یر غمال بنی ہوئی تھی ۔پھر مجھے کچھ غیرت مند اور فرض شناس فرزند نصیب ہوئے۔ اور 14اگست 1947کو مجھے آزادی ملی اس دن سے میرا نام پاکستا ن رکھ دیا گیا۔مجھے اپنے اس نام پر بڑا فخر ہے اور جب بھی کوئی مجھ سے میرا نام پوچھتا تو میں فخر سے سر اًٹھا کر کہتی کہ میرا نام پاکستان ہے میں 12کروڑ بچّوں کی ماں ہوں اور مجھے اپنے بچّوں پر فخر ہے۔ سبز ہلالی چادر میری عزّت و تکریم کی علا مت ہے۔ مگر آج میرا دل خون کے آنسو روتا ہے کہ میں اپنے دائیں بائیں گھوم کر دیکھتی ہوں تو سر شرم سے جھک جاتا ہے میرے دشمن مجھ پر ہنس رہے ہیں ۔ جو فخر کل اپنے فرزندوں پر تھا آج انہی فرزندوں نے میری روح کو کرید کرید کر خون آلود کردیا ہے۔ کل میرے بچّوں نے مجھے انہی فرنگیوں سے آ زا د کروا کر مجھے عزّت دلوائی تھی آج میر ی عزّت کو سر بازار نیلام عام کر رہے ہیں ۔ میرے صحن میں بیٹھ کر میرے بچّے خون کے ہولی کھیل رہے ہیں مجھے آزادی ملے زیادہ عرصہ نہیں ہوا تھا کہ میرے کچھ نااہل اور ناعاقبت اندیش فرزندوں نے ذاتی حرص و ہوس میں ڈوب کر میرا ایک بازو مجھ سے الگ کردیا۔ یہ زخم آج بھی تازہ ہے مگر میں نے کسی کو محسوس تک نہیں ہونے دیا حالانکہ میں اندر سے ٹوٹ چکی تھی مگر پھر بھی انہی بچّوں کی خاطر میں سر اًٹھا کر دنیا کے سامنے کھڑی رہی اور کسی کو یہ محسوس تک نہیں ہونے دیا کہ میں زخم خوردہ ہوں ۔ میں نے دشمن کی چالاکیوں اور شاطر حرکتوں سے اپنے بچّوں کو بچانے کے لئے اپنا تن من دھن سب کچھ نچھاور کیا مگر کسی نے یہ سوچنے کی زحمت تک نہ کی کہ آخر ماں کی عزّت بھی کوئی چیز ہوتی ہے۔ میں نے عبدالقدیر جیسا فرزند پیدا کیا جس کی وجہ سے مجھے پھر سے جینے کا حوصلہ ملا۔دشمن کی نظر نیچی ہوگئی ، دنیا میں میر ی عزّت اور قدر بڑھنے لگی۔ میں نے بھٹّو جیسا بہادر بیٹا پیدا کیا جس نے میر ی عزّت کے لئے دنیا کی مانی ہوئی طاقتوں کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کی بات کی ۔ دشمن کھسیا نا ہوگیا مگر افسوس دنیا کو میر ی سبز ہلالی چادر کی عزّت بنّنا گوارا نہ ہوا اور یہ بات اًن دشمنوں سے ہضم نہ ہوسکی اور بالاخر میر ی نافرمان اولاد ان کے آلہ کار بن گئے مجھے میرے بہادر بیٹے سے جدا کردیا۔ میر ی روح کو جو زخم میرے ہی دربانوں نے دیا وہ کوئی دشمن بھی نہ دے سکا۔میرے عبدالقدیر جس نے دشمنوں کی جرآت اور ناپاک قد م کو باندھ دیا تھا آج اًسی کے ہاتھ پیر باندھ کر کونے میں ڈالا ہوا ہے۔ میرے نا اہل اولاد مجھے دیمک کی طرح چاٹ رہی ہے مجھے جسم اور روح کا رشتہ بر قرار رکھنے میں مشکل پیش آرہا ہے مگر میں ایسے کیسے مر سکتی ہوں میرے 18کروڑ فرزند آج بھی میرے سائے تلے بیٹھے ہیں کچھ نہ سہی صرف اس آس پر جی لیتی ہوں کہ جب تک مجھ میں ہمّت ہے میں اپنے بچّوں کو ماں کی آغوش میں پناہ دوں گی۔ میں یہ برداشت نہیں کر سکتی کہ میر ی بچیّاں عراق ۔افغانستان اور فلسطین کے بچیّوں کی طرح روتی پھریں میں اپنے جیتے جی اپنے آنگن میں دشمن کا قدم کبھی بر داشت نہیں کرسکتی میں اپنے اولاد کی آنکھوں میں آنسو کیسے دیکھ سکوں گی میں تو ماں ہوں میں زمانے کی گرمی سردی طوفان اور بارش برداشت کر سکتی ہوں مگر ان بچّوں پر کوئی برا وقت آئے میں کبھی برداشت نہیں کرسکتی۔خدا نہ کرے کہ میری بچّیاں پھر کسی ماں کے لئے در در کی ٹھوکریں کھائیں۔

کیا کوئی ہے جو اپنی دھرتی ماں پاکستان کی حفاظت اور اپنی بہنوں بیٹیوں کی عزّت و توقیر کا ضامن بنے۔ پھر کوئی جناح کوئی عبدالقدیر کوئی بھٹو ہے جو میر ی شان اور عظمت کی قسم کھا کر میدان میں اًترے پھر اپنی بہنوں کے سر پر سبز ہلالی چادر سجا دے کہ کوئی ان کی چادر کھیچنے کی ہمّت بھی نہ کرے۔ پھر دشمن کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر بتا سکے کہ ابھی میرا خون سرخ ہے اور میں فخر سے سر اٹھاکر بتا سکوں کہ میں زندہ ہوں اور زندہ رہوں گی میر ی سبز ہلالی چادر کی شان باقی رہے گی۔۔۔۔
habib ganchvi
About the Author: habib ganchvi Read More Articles by habib ganchvi: 23 Articles with 21460 views i am a media practitioner. and working in electronic media . i love to write on current affairs and social issues.. .. View More