کسان تحریک کو کینیڈا کی زبردست حمایت

موجودہ سرکار پر یہ مشہور مثل صادق آتی ہے کہ ناک دبائیں تو منہ کھلتا ہے۔ کسانوں سے بات چیت کرنے کی خاطر شرطیں لگانے والا مغرور وزیرداخلہ بلآخر کامیاب بھارت بند کے بعد گفت و شنید پر راضی ہوگیا ۔ اس طرح اونٹ جو پہاڑ کے نیچے آیا ہے اس میں دہلی کی ناکہ بندی کے علاوہ بین لاقومی دباو کا بھی بہت بڑا دخل ہے۔ اس معاملے میں کینیڈا کے وزیر اعظم جسٹن ٹروڈو نے سب سے پہلے نہایت جرأتمندانہ پہل کی اور کسان تحریک کی حمایت کرنے والے اولین غیر ملکی رہنما بن گئے ۔انہوں نے ہندوستان میں جاری کسانوں کی تحریک کے ساتھ اپنی ہمدردی اور تعاون کا باضابطہ اعلان کیا ۔ اس کے سبب ہندوستان اور کینیڈا کے درمیان سفارتی تناؤ تو پیدا ہو ا لیکن ٹروڈو نے اس کی پروا نہیں کی۔ ان کے نزدیک کسانوں کے حقوق اور کینیڈا میں بسنے والے ہندوستانی نژاد پنجابیوں کی تشویش زیادہ اہمیت کی حامل ہے۔ جسٹن ٹروڈو نے اپنے ویڈیو پیغام میں کسی لاگ لپیٹ کے بغیر موجودہ صورت حال میں کسانوں کی تحریک کا دفاع کرتے ہوئے اپنی تشویش کا اظہار کیا ۔ انہوں نے کہا، ”بھارت سے کسانوں کے احتجاج کی خبریں آ رہی ہیں۔ یہ صورت حال بہت تشویش ناک ہے۔ ہم سبھی اپنے اہل خانہ اور دوستوں کے تئیں فکر مند ہیں‘‘۔ جسٹن ٹرو ڈو نے ان کے(پنجابیوں کے اہل خانہ ) کہنے کے بجائے اپنے کہا ۔ کاش کے حکومت ہند بھی اس اپنائیت کا اظہار کرتی لیکن اس بار تو من کی بات کرنے والے وزیر اعظم نے گرونانک جینتی کا یک سطری پیغام بھی بڑی بے دلی سے بھیجا ۔

وزیر اعظم ہر سال دیوالی منانے کے لیے سرحد پر تعینات جوانوں کے پاس جاتے ہیں ۔ اس بار انہوں نے جیسلمیر بارڈر سے چین اور پاکستان کو دھمکایا۔ اسی طرح ا گر وہ اس بار گرونانک جینتی کے دن گرو پورب منانے کے لیے دہلی سرحد پر ڈٹے ہوئے کسانوں کے پاس پہنچ جاتے ۔ ان کا سڑک پر بنایا ہوا پرساد کھاتے اور انہیں گلے لگا کر مبارکباد دیتے تو اس تحریک کا نقشہ بدل جاتا لیکن جس سنگھ میں انہوں نے تربیت حاصل کی ہے وہاں فراخدلی نہیں بلکہ تنگ نظری سکھائی جاتی ہے ۔ جعلی فخر و نقلی برتری کا نشہ چڑھایا جاتا ہے اور اگر اس پر اقتدار کی پرت چڑھ جائے تو یہ خمار دوبالا ہوجاتا ہے ۔ اسی لیے کسانوں سے ملنے کے بجائے وزیر اعظم اپنے حلقۂ انتخاب وارانسی کی جانب نکل گئے ۔ وہاں جاکر انہوں نے نئی سڑک کا سنگ بنیاد رکھا ۔ وہ سڑک تو جب بنے گی تب بنے لیکن فی الحال جو سڑک بند ہے اسے کھلوانے کی فکر ہونی چاہیے ۔

لاک ڈاون کے بعدگزشتہ ۹ ماہ میں وزیر اعظم صرف ایک بار طوفان اور اس کے بعد چار بار انتخابی مہم کے لیے گھر سے نکلے لیکن جب سے کسانوں کی تحریک نے زور پکڑا تو سب سے پہلے گجرات میں سردار ولبھ بھائی پٹیل کے مجسمہ کو سلام کرنے کی خاطر پہنچ گئے۔ مودی سرکار جب سے اقتدار میں آئی ہے وہ ہرسال سردار ولبھ بھائی کے یومِ پیدائش کو’ قومی یوم اتحاد‘ کے طور پر مناتی ہے ۔ وزیر اعظم نے اس کا جشن منانے کے لیے چین میں بنے سردار ولبھ بھائی پٹیل کے مجسمہ پر جاکر خراج عقیدت پیش کرنے کا ارادہ کیا تو سیاحوں کو پانچ دنوں تک وہاں جانے سے روک دیا گیا یعنی وزیر اعظم کی زیارت سے پہلے تین دن اور بعد میں بھی ایک دن ، یہ ملک میں سلامتی کا عالم کہ اس کے آس پاس کی جنگل سفاری کو ۲۰ اکتوبر سے ہی یعنی دس دنوں کے لیے بند کردیا گیا۔

دنیا بھر کے کئی رہنما عام لوگوں کے درمیان رہتے ہیں ۔ ان میں سے ایک جسٹن ٹروڈو بھی ہیں جو اپنے پورے خاندان کے ساتھ سیکیورٹی کے بغیرعوام کے درمیان چھٹیاں مناتے ہیں۔ انہیں اپنے لوگوں سے ڈر نہیں لگتا لیکن ۵۶ انچ کے سینے والے وزیر اعظم کے لیے یہ ناممکن ہے۔ کسانوں کی آمد انہیں کبھی ویکسین کی تلاش میں ملک بھر کی سیر کراتی ہے تو وہاں سے لوٹنے کے بعد کاشی وشوناتھ کی یاتر ا پر لےجاتی ہے۔ ایسا لگتا جب سے کسان آئے ہیں پردھان سیوک کا دل دہلی میں نہیں لگتا ۔ بہت بے چین رہتا ہے اسی لیے اِدھر اُدھر بھاگے بھاگے پھرتے ہیں۔ جسٹن ٹروڈو نے اپنے ویڈیو پیغام میں کہا ہے کہ ’’ مجھے معلوم ہے کہ (تشویش میں مبتلا) ایسے بہت سے لوگ ہیں۔ میں آپ کو یاد دلانا چاہتا ہوں کہ کینیڈا پرامن احتجاج کرنے کے حق کا دفاع کرتا ہے۔ ہم بات چیت پر یقین رکھتے ہیں اوراسی لیے ہم بھارتی حکام کو اپنے تحفظات سے آگاہ کرنے کے لیے کئی ذرائع سے ان تک پہنچ رہے ہیں۔ یہ وقت سب کے متحد ہونے کا ہے۔"

یہ حیرت کی بات ہے کہ ہندوستان میں یوم اتحاد منای نے کے باوجود ایک غیر ملکی صدر کو ہمیں متحد ہونے کی دعوت دینی پڑتی ہے۔ وزیراعظم ٹروڈو سے قبل کینیڈا کے وزیر دفاع ہرجیت سنگھ نے بھی ٹوئٹر پر کسان تحریک کی حمایت میں لکھا تھا، ”ہندوستان میں پرامن مظاہرین کے خلاف بے رحمی برتنا پریشان کن ہے۔ میرے حلقے کے کئی رائے دہندگان کے خاندان وہاں ہیں اور انہیں اپنے رشتے داروں کے بارے میں تشویش ہے۔ صحت مند جمہوریت پرامن مظاہروں کی اجازت دیتی ہے۔ میں اس بنیادی حق کی حفاظت کی اپیل کرتا ہوں۔" وزیر اعظم اگر اپنوں کی نہیں سنتے تو کم از کم غیروں کی سنیں ۔ اب تو یہ آواز بہت دور دیس سے آرہی ہے۔

کینیڈا کی راجدھانی کے صوبے اونٹاریو میں حزب اختلاف کے رہنما اینڈریا ہوارتھ نے بھی کسانوں کی حمایت میں ٹوئٹ کرکے کہا کہ ہندوستان میں کسان پر امن احتجاج کررہے ہیں ۔ اسی کے ساتھ ان کے اعزہ و اقارب اونٹاریو میں ان پر تشدد کو ہیبت سے دیکھ رہے ہیں۔ ہر کسی کو بلا خوف و خطر اور ریاستی تشدد کے اپنے جمہوری حقوق کے استعمال کا حق ہونا چاہیے ۔ برمپٹن (مشرق) کے رکنِ(صوبائی) پارلیمان گرُرتن سنگھ نے ایوان کے اندر کسانوں کے احتجاج کی حمایت کا اعلان کیا۔ انہوں نے کہا کسانوں پر حملہ ہورہا ہے ۔ اس لیے میں ایوان کو کسانوں کے ساتھ حکومت ہند کے غیر منصفانہ قانون کے خلاف کھڑے رہنے کی دعوت دے رہا ہوں۔ برمپٹن (شمال) کے رکن (صوبائی) پارلیمان کیوین یارڈے نے اپنے ٹویٹ میں لکھا کہ پنجابی کسانوں کے ساتھ کیا جانے والا سلوک دہشت ناک ہے۔ وہ ایک ایسے قانون کی مخالفت کررہے ہیں جس کے اثرات بہت سارے لوگوں پر پڑیں گے۔ کسان پنجاب کے ریڑھ کی ہڈی ہیں ان کے ساتھ احترام کا سلوک ہونا چاہیے۔ ہندوستان حکومت کو ان کے ساتھ گفت و شنید کرنی چاہیے۔

برمپٹن وسط کی رکن ایوان سارہ سنگھ نے ٹویٹ کیا: پنجاب کے کسان کی پوتی کی حیثیت سے میں کسانوں کے ساتھ کھڑی ہوں۔ اس لیے کہ وہ اپنے روزگار کے تحفظ اور ایذا رساں قانون کے خلاف لڑ رہے ہیں۔ یہ مناظر گہری تشویش پیدا کرتے ہیں ۔ ہر کسی کو سرکاری تشدد کے بغیر اپنے جمہوری حقوق کی ادائیگی کی اجازت ہونی چاہیے۔ حکومت ہند نے جسٹن ٹروڈو اوردیگر لوگوں کے بیانات کو’غیرضروری‘ اور دوسرے ملک کے گھریلو معاملات میں مداخلت قرار دیا ہے۔ یہ بڑادلچسپ معاملہ ہے کہ ہندوستان آئے دن بلوچستان کے مظاہرین کی حمایت کرتا ہے مگر وہ غیر ملکی معاملات میں مداخلت نہیں قرار پاتا ۔ مقبوضہ کشمیر اور گلگت و بلتستان کے احتجاج کی حمایت بھی اسی زمرے میں آتی ہے۔ ماضی میں ہندوستان تبت کے اندر دلائی لامہ ، سری لنکا میں تمل ٹائیگرس اور بنگلا دیش میں مکتی باہنی کی حمایت میں فوج تک بھیج چکا ہے ۔ وہ بھی کسی کے اندرونی معاملات میں مداخلت نہیں تھا۔
امریکہ میں جاکر وزیر اعظم ’’پھر ایک بار ٹرمپ سرکار‘‘ کا نعرہ لگا آئیں وہ تو کسی ملک کے داخلی معاملات میں ہرگز مداخلت نہیں قرار پاتا مگر جب کینیڈا کے رہنما پنجابی کسانوں کی حمایت کردیں تو وزارت خارجہ کے ترجمان انوراگ سریواستوا فرماتے ہیں ”ہم نے ہندوستان میں کسانوں سے متعلق کینیڈیائی رہنماوں کے کم علمی پر مبنی تبصرے دیکھے ہیں۔اس طرح کے تبصرے غیر ضروری ہیں بالخصوص اس وقت جب یہ کسی جمہوری ملک کے داخلی معاملات کے سلسلے میں ہوں۔ یہ بات زیادہ بہتر ہے کہ سفارتی بات چیت کا سیاسی مقاصد کے لیے غلط استعمال نہیں ہونا چاہئے۔“ یہ بات ہماری حکومت کب سمجھے گی کہ کسانوں کی یہ تحریک سیاسی نہیں بلکہ انسانی حقوق کی علمبردار ہے ۔ جب تک کہ یہ نقطۂ نظر نہیں بدلتا مسئلہ حل نہیں ہوگا۔
(۰۰۰۰۰۰جاری)
 

Salim
About the Author: Salim Read More Articles by Salim: 2055 Articles with 1244300 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.