کسان تحریک کو بین الاقوامی حمایت

وطن عزیز میں کسان تحریک کا آغاز پنجاب سے ہوا۔وہاں کے کسان دو ماہ تک احتجاج کرتے رہے ۔جلسہ کیا جلوس نکالا، دھرنا دیا سڑک پر بیٹھے اور ریل تک روک دی لیکن سرکار کے کان پر جوں نہیں رینگی۔ اس کے بعد دہلی چلنے کا فیصلہ کیا تو ہریانہ میں روکا گیا۔ دہلی کی سرحد پر پہنچے تو براڈی کے نرنکاری میدان میں آکر احتجاج کرنے کی اجازت دی گئی ۔ کسانوں نے اسے مسترد کرکے دہلی سے باہر جانے والے ہائی وے جام کردیئے۔ پولس نے کسانوں کودہلی میں داخل ہونے سے روکنے کی خاطر ہریانہ اور راجستھان وغیرہ سے آنے والی چھوٹی سڑکیں بند کردیں ۔ اترپردیش کی جانب یوگی نے اپنے کسانوں کو روکنے کے لیے فورس لگائی تو انہوں نے وہاں ہائی وے بند کردیا ۔ اس طرح ان تینوں نے مل کر دہلی کو الگ تھلگ کردیا ۔ ویسے بھی دہلی کی سرکار اس تحریک کی مخالفت کرکے ملک میں تنہا ہو گئی تھی مگر اب اس کے شعلے دنیا بھر میں پھیلنے لگے۔ پہلے کینیڈا اور اس کے بعد برطانیہ میں اس کی آنچ محسوس کی گئی ۔ اب یہ حمایت جرمنی اور امریکہ سے ہوتی ہوئی آسٹریلیا پہنچ گئی ہے۔

کینیڈا نے سب سے کسان تحریک کی حمایت کی مگر اس کےاور امریکہ کے درمیان چولی دامن کا رشتہ ہے اس لیے یہ نہیں ہوسکتا کہ ایک جگہ آگ لگے اور دوسرے مقام پر دھواں نہ اٹھے۔ امریکہ میں ردعمل دھیما تو ہے مگر شروع ہوچکا ہے ۔ سب سے پہلے مودی جی کے چہیتے ٹرمپ کی ریپبلکن پارٹی کے نمائندے ہر میت ڈھلون کا بیان آیا۔ انہوں نے لکھا پنچاب نژاد ہونے کی حیثیت سے میرا دل پنجابی کسانوں پر ہونے والے حملے کو دیکھ کر ٹوٹ گیا ہے۔ وہ حکومت ہند بڑے کارپوریٹس کی حمایت میں لانے والے قانون کی مخالفت کررہے ہیں۔ یہ ان کے کھیت، ان کی طرزِ زندگی اور تہذیب کو برباد کردے گا ۔ وزیر اعظم مودی ان کی سنیں ، ان سے ملاقات کریں اور مصالحت کرلیں ۔ میرے رشتے دار پنجاب میں کاشتکاری کرتے ہیں۔ مجھے یقین ہے کہ ان کے لیے کیا بہترہےوہ خوب جانتے ہیں۔ انہیں اس بابت سرکاری رہنمائی درکار نہیں ہے۔ کم ازکم ہندوستانی جمہوریت میں انہیں احتجاج کرنے اور سنے جانے کا حق ہے۔ جگمیت سنگھ جیسے مختلف سماجی جہد کاروں نے بھی مودی سرکار پر تنقید کی۔

ہرمیت ڈھلون تو خیر پنجابی ہیں لیکن انہیں کی جماعت کانگریس مین ڈگ لمالفا نے کہا کہ ’’میں ہندوستان کے پنجابی کسانوں کے ساتھ اظہار یکجہتی کرتا ہوں جو اپنی روزی روٹی اور گمراہ کن حکومتی ضوابط کے خلاف احتجاج کر رہے ہیں۔‘‘ریپبلکن قانون ساز نے مزید کہا کہ ’’پنجابی کسانوں کو تشدد کے خوف کے بغیر اپنی حکومت کے خلاف پرامن طور پر احتجاج کرنے کی اجازت دی جانی چاہیے۔‘‘اس زبانی مخالفت کے بعد میدان میں اتر کر مظاہرے کا مرحلہ آیا۔ امریکی سکھوں نے نیو یارک میں ہندوستانی قونصل خانہ کے باہر نئے زرعی قوانین کے خلاف احتجاج کرتے ہوئے ہندوستان میں کسانوں سے یکجہتی کا اظہار کرنے لیےایک مظاہرہکیا ۔مظاہرین میں بڑی تعداد سکھوں کی تھی جو پلے کارڈز اٹھا کرمودی مخالف نعرے لگارہے تھےْ۔ان تختیوں پر لکھا تھا ، “ہم کسانوں کی حمایت کرتے ہیں”۔ سکھوں نے شہر کے دیگر حصوں میں بھی کار ریلی نکالی۔اس موقع پر امریکہ میں مقیم سکھ برائے انصاف (ایس ایف جے) کے جنرل کونسل ، گورپتونت سنگھ پنن نے ایک بیان میں کہا ہے کہ نیویارک کی ریلی امریکہ اور یورپ میں ہندوستانی سفارتخانوں کے باہر کسان نواز اور آزادی کے حامی جلسوں کا سلسلہ ہے۔ اس گروپ نے پنجاب کے کسانوں کی خاطر 10 لاکھ امریکی ڈالر کی امداد کا اعلان بھی کیا ہے۔ یہ مدد احتجاج میں آتے ہوئےپولیس کے ساتھ جھڑپوں میں زخمی ہونے والوں کو دی جائے گی اور ان کی گاڑیوں وغیرہ نقصان کو اس سے پورا کیا جائے گا۔ایس ایف جے نے 30 نومبر کو امریکہ ، کینیڈا ، برطانیہ ، فرانس اور جرمنی میں 24 گھنٹوں کے کال سینٹرز کھولنےکااعلان کیا تھا تاکہ پنجاب اور ہریانہ کے کسانوں سے ان کے نقصانات کی تلافی کے لیے آن لائن اعانت جمع کی جائے ۔

یوروپ کے اندر کسانوں کی حمایت کا آغازجرمنی سے ہوا۔ ایک غیر منافع بخش تنظیمانڈین اوورسیز نے زراعت کے قوانین کے خلاف احتجاج کرنے والے کسانوں کو ایک کروڑ روپئے کی مالی مدد کا اعلان کیا ہے۔ایک بیان میں IOC جرمنی کے صدر پرمود کمار نے کہا کہ وہ مختلف شعبوں جیسے میڈیکل کیئر ، کسانوں کے بچوں کی تعلیم ، (دورانِ احتجاج) جاں بحق ہونے والوں کے اہل خانہ کی مالی اعانت کا فیصلہ کیا ۔ برطانیہ میں کینیڈا کی مانند سکھوں کی بہت بڑی آبادی ہے۔ برطانیہ میں کئی بین الاقوامی سکھ تنظیموں مثلاً خالصہ ایڈ، یونائیٹیڈ سکھ اور سکھ کاونسل آف انڈیا نے سب سے پہلے صدائے احتجاج بلند کی اس کے بعدایوان کے ارکان نے بھی مودی حکومت کو تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے کسانوں کے پر امن احتجاج کی حمایت کی ۔ سلوغ سے رکن پارلیمان تن منجیت دیشی نے اپنے ٹوئٹ میں لکھا:’’جن لوگوں نے کسانوں کی تحریک کو دبانے اور مارنے کا حکم دیا انہیں مزہ چکھانا چاہیے۔ میں پرامن احتجاج اور زراعت کی نجکاری کے خلاف مظاہرہ کرنے والےپنجابی اور ملک بھر کے کسانوں کے ساتھ ہوں۔

برطانیہ کی لیبر پارٹی کے رکن پارلیمان جون میک ڈونلڈ نے تن منجیت سنگھ کی حمایت میں لکھا میں ان سے اتفاق کرتا ہوں۔ مظاہرین کے خلاف یہ جبر و استبداد ناقابلِ تسلیم ہے اور اس سے ہندوستان کی ساکھ بگڑتی ہے۔ برمنگھم کی رکن پارلیمان پریت کور نے کہا دہلی سے چونکانے والے مناظرآرہے ہیں۔ کسان ایسے متنازع قوانین کے خلاف پر امن احتجاج کررہے ہیں جو ان نے روزگار پر اثر انداز ہونے والے ہیں۔ ان کی آواز کو دبانے کے لیے پانی کی بوچھار اور آنسو گیس کے گولے چھوڑے جارہے ہیں ۔ پرامن مظاہرین کے ساتھ یہ سلوک مناسب نہیں ہے۔ سینٹ جان کے پارلیمانی رکن ہیرس نے اپنے ٹوئٹ میں لکھاکہ حکومت ہند کے ذریعہ ایک ایسے قانون کے خلاف احتجاج کرنے والے پر امن مظاہرین کو دبانے کے اقدامات دیکھ کر صدمہ ہوا جو ان کے روزگار پر اثر انداز ہونے والے ہیں۔ ان پر پانی بوچھار کرنے اور آنسو گیس چھوڑنے کے بجائے حکومت ہند کو کسانوں سے بات چیت کرنی چاہیے۔

کسانوں کے احتجاج کی حمایت کے لیے لندن میں ایک مظاہرے کے دوران متعدد مظاہرین نے گرفتاری بھی دی ۔ یہ لوگ برطانیہ کے مختلف حصوں کے ہزاروں کی تعداد میں ایلڈ وِچ کے اندر واقع ہندوستانی سفارتخانے کے باہر جمع ہوئے تھے تاکہ مودی حکومت کے نئے زرعی قوانین کے خلاف احتجاج کرنے والے کسانوں سے اظہار یکجہتی کریں۔ اس احتجاج میں شامل زیادہ تر افراد برطانوی سکھ تھے ۔ وہ لوگ سڑک بند کرکے نعرے لگارہے تھے۔ انھوں نے ’’کسانوں کے لیے انصاف‘‘ کے پیغامات والے پلے کارڈ بھی لے رکھے تھے۔فی الحال لندن میں 30 سےزائدافرادکےاجتماعات پر پابندی ہے اس لیے کورونا وائرس پروٹوکول کی خلاف ورزی کی بنیاد پرمیٹروپولیٹن پولیس نے انتباہ جاری کرنے کے بعد 13 مظاہرین کو گرفتار کرلیا اور چار افراد کو جرمانے کے ساتھ اسی وقت چھوڑ دیا گیا۔

کسانوں کی حمایت میں براعظم آسٹریلیا کے مختلف شہروں مثلاً میلبورن، ایڈیلیڈ، پرتھ، کینبیرا اور سڈنی میں احتجاج ہوا۔ آسٹریلیا کے ارکان پارلیمان راب میشیل اور رسل ورٹلی نے اپنی تشویش کا اظہار کرتے ہوئے مظاہرہ کرنے والے کسانوں کے ساتھ نرمی کا سلوک کرنے پر زوردیا۔ وکٹوریہ کی پارلیمنٹ کو خطاب کرتے ہوئے میشیل نے کہا کہ انہیں کئی لوگوں نے پنجابی کسانوں اور حکومت ہند کے درمیان پیدا ہونے والی کشیدگی کی جانب توجہ دلائی ۔ آسٹریلیا میں خاندانی زراعت کو کارپوریٹس کا شکار کیا گیا تو کئی خاندانوں کو مجبوراً کھیتوں سے الگ ہونا پڑا۔ انہوں نے کہا ہندوستان کے اندر قرض، زراعت کی خستہ حالی اور قحط سالی کے سبب ۲۸کسان روزآنہ خودکشی کرتے ہیں۔ ہم جمہوریت کے اندر پرامن احتجاج کو بنیادی حقوق میں شمار کرتے ہیں۔ میں ان لوگوں کے ساتھ ہوں جو جن کے پرامن احتجاج پر خطرات منڈلا رہے ہیں۔ دنیا بھر میں گفت و شنید ہی مسائل کے حل کابہترین طریقۂ کار ہے ۔ تشدد سے گفتگو بہتر ہے ۔ ہمیں امید ہے کہ یہ آواز سنی جائے گی ۔

کینیڈا سمیت مختلف ممالک کے سیاستدانوں کی حمایت کو تو یہ کہہ کر نظر انداز کیا جاسکتا ہے کہ وہ لوگ اپنے رائے دہندگان کی خوشنودی کے لیے یہ سب کررہے ہیں اقوام متحدہ کے افسران کو تو انتخاب لڑنے کی مجبوری نہیں ہوتی۔ اقوام متحدہ میں جنرل سکریٹری انتونیو گٹیرس کے ترجمان اسٹیفن ڈوجارک نے کسانوں کی حمایت میں کہا کہ ہندوستان میں کسانوں کو پر امن طریقے سے مظاہرہ کرنے کا حق حاصل ہے اور حکام کو انھیں اس کی اجازت دینی چاہیے۔ اپنی یومیہ پریفنگ کے دوران ہندوستانی حکومت کے خلاف کسانوں کے احتجاج سے متعلق ایک سوال کے جواب میں وہ بولے ’’ہم یہ دیکھنا چاہتے ہیں کہ لوگوں کی زندگی میں ایک آواز ہو۔‘‘انھوں نے مزید کہا کہ ’’لوگوں کو پرامن طریقے سے مظاہرہ کرنے کا حق ہے اور حکام کو انھیں اس کی اجازت دینے کی ضرورت ہے۔‘‘ان واقعات کو دیکھ کر اندازہ ہوتا ہے کہ پانچ سال قبل دنیا بھر کی سیر کرکے اور کروڈوں روپئے پھونک کر مودی جی نے اپنی جو ساکھ قائم کی تھی کسانوں کے عظیم احتجاج نے اس پر خاک ڈال دی ہے۔

 

Salim
About the Author: Salim Read More Articles by Salim: 2049 Articles with 1238206 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.