بنگال کا ہنگامہ: شہروں شہروں خونریزی میں شیطانوں کا نام نہ لو

دہلی کے مسلمان اروند کیجریوال کو اپنا مسیحا مانتے تھے لیکن شاہین باغ کی تحریک نے ان کی قلعی کھول دی ۔ ان کو ۱۰۱ دن تک چلنے والی تحریک کے لیےدس منٹ کا وقت نہیں ملا جبکہ دس دن کے اندر وہ کسانوں نے ملنے سنگھو بارڈر پر پہنچ گئے ۔ اس کا مطلب ہے پنجاب کی سکھ تو ان کے لیے اہم ہیں لیکن دہلی کے مسلمانوں کی کوئی اہمیت نہیں ہے ۔ اس کے بعد انہوں نے نئے زرعی قوانین کےمسئلہ پر دہلی اسمبلی کا اجلاس طلب کیا ،جس میں ان قوانین کی پرزور مخالفت کی گئی۔ اسی دوران عآپ اراکین اسمبلی نے ایوان میں ہی زرعی قوانین کے مسودے کو پھاڑ دیا۔ اس کی ابتداء عآپ رکن اسمبلی مہندر گویل اور سومناتھ بھارتی نے کی اور ایوان میں’جے جوان، جے کسان‘ کا نعرہ لگایا۔ عآپ اراکین اسمبلی نے اعلان کیا کہ کسانوں کے خلافکوئی بھی قانون نہیں مانیں گے۔کسان تحریک کی حمایت میں وزیر اعلیٰ کیجریوال نے ایک دن کی بھوک ہڑتال بھی کرچکے ہیں لیکن ان کے اندر سی اے اے کے کالے قانون کو اس طرح پھاڑنے کی ہمت نہیں ہوئی۔

اروند کیجریوال کے ذریعہ کسان تحریک کی حمایت نے بی جے پی کی مرکزی حکومت کو ان کا دشمن بنا دیا ۔ زعفرانیوں نے ان کے گھر پر توڑ پھوڑ کی اور نائب وزیر اعلیٰ منیش سسودیہ کے گھر میں گھس گئے۔بی جے پی کا جواب دینے کے لیے عآپ نے اپنی ترجمان آتشی مارلینا کو میدان میں اتارا ۔ انہوں نے کہا پولس کی ملی بھگت سے نائب وزیر اعلی کے گھر پر حملہ کیا گیا ۔ ایسا واقعہ دہلی کی سیاسی تاریخ میں کبھی نہیں ہوا۔ انہوں نے سوال کیا کہ کیا مرکزی وزیر داخلہ امیت شاہ اتنے گر گئے ہیں کہ وہ نائب وزیر اعلی کے اہل خانہ کو مروانا چاہتے ہیں۔ کیا بی جے پی دہلی اسمبلی انتخابات میں نقصان کا بدلہ لے رہی ہے؟ ویسے وزیر داخلہ کا ٹریک ریکارڈ دیکھتے ہوئے یہ سوال بیجا نہیں لگتا اس لیے کہ وہ مخالفت میں حدود و قیود کے قائل نہیں ہیں ۔ جسٹس لویا کے علاوہ اس مقدمہ کے سارے گواہوں کا عبرتناک انجام سب کے سامنے ہے۔ آتشی نے یہ بھی پوچھا کہ کیا امیت شاہ بی جے پی کے غنڈوں بھیج کر عام آدمی پارٹی کے سارے رہنماوں کے گھر والوں پر حملہ کرائیں گے؟ کیونکہ امیت شاہ کے پاس ایک طرف تو پارٹی کے غنڈے ہیں اور دوسری طرف دہلی پولس ہے۔ آتشی کے مطابق غنڈے جب گھر کی طرف بڑھ رہے تھے تب پولس والے پیچھے پیچھے ٹہلتے ہوئے چل رہے تھے ۔ پولس والے غنڈوں کو روک سکتے تھے لیکن ایک طرف ہوگئے۔

مارلینا آتشی کی ساری باتیں درست ہیں لیکن کیا یہ دہلی میں پہلی بار ہورہا ہے ؟ جے این یو کے طلباء کو بی جے پی کے غنڈوں نے ہاسٹل میں گھس کر مارا۔ پولس تماش بین بنی رہی ۔ عام آدمی پارٹی دہلی میں برسرِ اقتدار تھی ۔ اس نے صرف یہ کہنے پر اکتفاء کیا کہ پولس پر اس کا کوئی اختیار نہیں ہے ۔ اس وقت ان لوگوں نے سوچا بی جے پی اپنے نظریاتی مخالفین سے نمٹ رہی ہے۔ عآپ سے اس کا کوئی نظریاتی اختلاف نہیں ہے اس لیے وہ حملے کی زد میں نہیں آئے گی۔ امیت شاہ کی پولس نے جامعہ کے اندر اور باہر زبردست آتنک مچایا ۔ اس کے ویڈیو ساری دنیا بھرمیں پھیل گئے لیکن سسودیہ میدان میں نہیں آئے ۔ انہوں نے سوچا ہوگا وہ برسرِ اقتدار ہیں اس لیے پولس ان کی حفاظت کرے گی ۔ دہلی کے فسادات میں معصوموں کے خون سے ہولی کھیلی گئی مگر عام آدمی پارٹی نے شتر مرغ کی مانند اپنا سر ریت میں چھپا لیا یہ سوچ کر کہ مجبور مسلمان بی جے پی کو ہرانے کے لیے اسی کو ووٹ دیں گے ۔ عآپ کے بے قصور رہنما طاہر حسین کو جب انکت شرما کے قتل کی سازش میں پھنسایا گیا تو اس کا دفاع کرنے کے بجائے انہیں پارٹی سے نکال دیا گیا تاکہ ہندو ووٹر ناراض نہ ہو ۔ اس کے بعد بے شمار بے قصور لوگوں کو فسادی بناکر جیل کی سلاخوں کے پیچھے ٹھونس دیا گیا لیکن جھاڑو حرکت میں نہیں آیا ۔ اب جبکہ خود پر پڑی تو احتجاج کیا جارہا ہے ۔ یہی سب اگر جامعہ میں ہونے والے مظالم کے خلاف کیا جاتا تو یہ نوبت نہیں آتی ۔ کاش کہ عآپ والے نواز دیوبندی کے ان اشعار سے سبق سیکھتے؎
جلتے گھر کو دیکھنے والو پھونس کا چھپر آپ کا ہے
آگ کے پیچھے تیز ہوا ہے آگے مقدر آپ کا ہے
اُس کے قتل پر میں بھی چپ تھا میرا نمبر اب آیا
میرے قتل پر آپ بھی چپ ہیں اگلا نمبر آپ کا ہے

بی جے پی کو اندازہ ہوگیا ہے کہ عآپ کے ساتھ دہلی کے عوام تو ہیں لیکن اس کے رہنماوں میں سڑک پر اتر کر ظلم کے خلاف لڑنے کی جرأت نہیں ہے۔ اقتدار کا اولین استعمال ظلم کے خاتمہ اور عدل کے قیام کی خاطر ہونا چاہیے لیکن اب تو اسے عیش و عشرت کے حصول کا ذریعہ بنا لیا گیا ہے۔ کسانوں کے معاملے میں بھی عآپ کے نرم رخ کی اصل وجہ یہ ہے کہ دہلی سے باہر اس کا اثر و رسوخ صرف پنجاب میں تھاجو اب تقریباً ختم ہوچکا ہے۔ بہت تاخیر سے وزیر اعلیٰ اروند کیجریوال کسانوں کی کھل کر حمایت کا اعلان کیا۔ اس کے بعد انہیں بھی کشمیری رہنماوں کی مانند دہلی کے اندر گھر میں نظر بند کردیا گیا لیکن چونکہ انہوں کبھی کسی مظلوم کی حمایت میں اپنی آواز نہیں بلند کی تھی اس لیے کوئی ان مدد کے لیے نہیں آیا ۔ عام آدمی پارٹی کے رہنما سورو بھاردواج وزیر داخلہ امیت شاہ کو وزیر اعلی کے نظربند کرنے کا حوالہ دے کر نائب وزیر اعلی کے گھر پر بی جے پی غنڈوں کے حملہ کیسرپرستی کرنے کا الزام لگا رہے ہیں اور کہتے ہیں دہلی پولیس نے بی جے پی کے غنڈوں کی حملہ کرنے میں مدد کی ہے۔
عام آدمی پارٹی کے چار ارکان اسمبلی نے اس حملے کے خلاف وزیر داخلہ کی رہائش گاہ کے باہر مظاہرہ کرنے کی درخواست اجازت مانگی جس کو نامنظور کر دیا گیا ۔ عآپ لیڈران کا غم غصہ تو سسودیہ کے گھر پر حملے کو لے تھا لیکن انہوں نے پولس سے اجازت طلب کرتے وقت این ڈی ایم سی میں فنڈ کی بے ضابطگیوں کے خلاف احتجاج کرنے کا بہانہ بنایا حالانکہ اس کا وزیر داخلہ سے کوئی تعلق نہیں تھا ۔ راگھو چڈھا، ریتو راج، کلدیپ کمار اور سنجیو جھا کو اجازت کے بغیر احتجاج کرنے پر حسبِ توقع حراست میں لے لیا گیا ۔ عآپ والوں کی بے چینی ناقابلِ فہم ہے کیونکہ دہلی میں یہ پہلی بار تو نہیں ہوا ہے بلکہ یہ سب تو عرصۂ دراز سے ہورہا ہے لیکن اب چونکہ خود منیش سسودیہ نشانے پر ہیں اس لیے وہ امیت شاہ سے سوال کرتے ہیں کہ آپ دہلی کی سیاست میں ہار گئے تو اب اس طرح ہمیں نمٹائیں گے؟ کمبھ کرن کی نیند سونے والے اروند کیجریوال بھی اب نیند سے بیدار ہوئے ہیں انہوں نے وزیر اعظم یا وزیر داخلہ کو مخاطب کرنے کے بجائے وزیر دفاع راجناتھ سنگھ سے سوال کیا کہ دہلی حکومت کے کسانوں کی حمایت پر بی جے پی اس قدر بوکھلاہٹ کا شکار کیوں ہے؟ یہ بی جے پی کی بوکھلاہٹ نہیں ہے ۔ کیجریوال جب تک اس کے لیے بے ضرر تھے انہیں نظر انداز کیا گیا لیکن جب مصیبت بنے تو وہ ان کو اپنے روایتی انداز میں ٹھیک کرنے کی سعی کی جارہی ہے اس لیے وہ خود بوکھلائے ہوئے ہیں۔ کیجریوال نے اگر مظلوموں کے خلاف اپنے حامیوں کو لڑنا سکھایا ہوتا تو آج وہ لوگ اپنے رہنما کی خاطر دہلی سر پر اٹھالیتے لیکن انہوں جس بزدلی کا بیج بویا اسی کا پھل نوش فرما رہے ہیں ۔ کیجریوال جیسے محتاط سیاستدانوں کو یاد رکھنا چاہیے کہ ؎
جسے نہ جلنے کی خواہش نہ خوف بجھنے کا
وہی چراغ ہوا کے اثر سے باہر ہے

یہ حسن اتفاق ہے کہ جس دن بی جے پی والوں نے دہلی میں حملہ کیا اسی دن کولکاتہ میںبی جے پی کے صدر جے پی نڈا کے قافلے پر مبینہ طور پر پتھروں اور اینٹوں سے حملہ ہو گیا ۔ موٹر گاڑیوں کے قافلے پر جب پتھراؤ ہوا تو اُس وقت وہ ڈائمنڈ ہاربر جارہے تھے ۔ اس حملے میں پارٹی کے قومی جنرل سکریٹری کیلاش وجے ورگیہ سمیت کئی لیڈر زخمی ہوگئے ۔ مظاہرین نے نڈا کے راستے کو بند کرنے کی کوشش کی اور ٹیلی ویژن چینلس کی گاڑیوں کو بھی نقصان پہنچایا ۔ اس پرمغربی بنگال کے گورنر جگدیپ دَھنکر نے تشویش کا اظہار کیا مگر دہلی کے لیفٹننٹ جنرل نے ایسی کوئی حرکت نہیں کی۔ اس کے بعد 24 پرگنہ ضلع میں ایک جلسۂ عام سے خطاب کرتے ہوئے جے پی نڈا نے الزام لگایا کہ مغربی بنگال میں ممتا بنرجی کی زیرِ قیادت ترنمول کانگریس سرکار کے دور میں نراج کی کیفیت ہے ۔ انہوں نے کہا کہ ریاست میں انتظامیہ ٹھپ ہوکر رہ گئی ہے۔ کاش کہ نڈا جی دہلی کی انارکی پر بھی تشویش کا اظہار کرتے۔
عآپ نے دہلی میں جس طرح کے الزامات بی جے پی پر لگائے اسی طرح بی جے پی نے ترنمول کانگریس کو مورد الزام ٹھہراتے ہوئےکہا کہ یہ برسراقتدار ٹی ایم سی کی سازش ہے۔ مغربی بنگال میں بی جے پی سربراہ دلیپ گھوش نے کہا کہ پارٹی صدر جے پی نڈا کے ریاستی دورہ کے دوران سیکورٹی میں کوتاہی ہوئی ہے۔ ان کے پروگرام میں پولیس کی موجودگی نہیں تھی اس لیے مرکزی وزیر داخلہ امیت شاہ کو خط لکھا گیا ۔ان الزامات کا جواب ترنمول کانگریس نے اسی طرح دیا جیسے بی جے پی نے دہلی میں دیا ۔ ترنمول نے الٹا بی جے پی کو نڈّا کے قافلے پر حملہ کا ذمہ دار ٹھہرا دیا۔ وزیر اعلیٰ مغربی بنگال ممتا بنرجی پہلے ہی بی جے پی پر الزام عائد کرچکی تھیں کہ پارٹی منصوبہ بند سازش کے تحت خود اپنے کارکنوں پر گولی چلوا تی ہے۔نڈا کے قافلے پر حملے کو بھی ممتا بنرجی نے’’نوٹنکی‘‘ قراردے دیا اور کہا چونکہ بی جے پی اپنی ریلی کے ذریعہ عوام تک نہیں پہنچ پا رہی تھی ، اس لئے میڈیا میں تشہیر کیلئے اس نے یہ ڈرامہ کیا ہے ۔ یعنی دہلی کی کہانی من و عن کولکاتہ میں دوہرائی گئی مگر کردار بدل گئے۔

بی جے پی کے خلاف ممتا بنرجی کا انداز بھی زعفرانی تھا ۔ انہوں نے کہا یہاں کبھی وزیر داخلہ ہوتے ہیں تو کبھی چڈھا، نڈا ، پھڈا اور بھڈا۔ اس پر جے پی نڈا کو اخلاقی پروچن دینے کا موقع مل گیا انہوں نے کہا یہ ان سنسکار بتاتا ہے۔ نڈا نے یہ حیرت انگیز انکشاف بھی کیا کہ یہ بنگال کی تہذیب نہیں ہے ۔ ہمارے وزیر اعظم بتاتے ہیں کہ بنگالی تہذیب سب سے خوبصورت ہے ۔ ممتا کی اصطلاحات سے معلوم ہوتا ہے کہ انہوں بنگال کو سمجھا ہی نہیں ہے۔ یہ دلچسپ تبصرہ ہے کہ ممتا نے بنگال کو نہیں سمجھا مگر مودی اوراور نڈا نے سمجھ لیا۔ دوسروں کو تہذیب و ثقافت کی نصیحت کرنے والے نڈا جی کو کبھی کبھار اپنی جماعت کے بدزبانوں کی اخلاقی حالت کا بھی جائزہ لینا چاہیے جو ہردن کسانوں کے بارے میں بے لگام ہوجاتی ہے۔ بی جے پی کے جواب میں مغربی بنگال کے وزیر سبرت مکرجی نے الزام لگایا کہ نڈا کے قافلے پر حملے کی سازش خود اسی نے رچی ْ۔آئندہ انتخاب میںاگر وہ ناکام ہوجائے تو ممتا بنرجی کے قتل کی سازش بھی کرسکتی ہے۔ سبرت نے پوری ذمہ داری یہ الزامات لگاتے ہوئے کہا کہ اگر یہ غلط ثابت ہوجائیں تو وہ سیاست چھوڑ دیں گے۔

اس تنازع کا ایک دلچسپ پہلو یہ ہے کہ جہاں مرکزی وزارت داخلہ نے سسودیہ کے گھر پر حملے کو پوری طرح نظر انداز کردیا وہیں جے پی نڈا کے قافلے پر پتھراؤ کو بے حد سنجیدگی سے لیتے ہوئے ریاست کے چیف سکریٹری اور ڈائریکٹر جنرل آف پولیس (ڈی جی پی) کو دہلی طلب کرلیا گیا لیکن ان دونوں نے دہلی جانے سے انکار کردیا۔ ذرائع کے مطابق یہ اقدام ریاستی حکومت کی جانب سے رپورٹ ملنے کے بعد کیا گیا ۔وزارت داخلہ اس معاملے میں پہلے ریاستی حکومت سے لاءاینڈ آرڈر کی صورتحال پر رپورٹ مانگی تھی۔ اس کے بعد مرکزی وزارت داخلہ نے ریاست میں نڈّا کی سیکورٹی کے ذمہ دار 3 آئی پی ایس افسران کو نشانے پر لے کرانہیں سنٹرل ڈیپوٹیشن پر بلا لیا ۔ ممتا بنرجی نے افسران کی کمی کا بہانہ بناکر راجیو مشرا، پروین کمار اور بھولا ناتھ پانڈے کو روانہ کرنے سے انکار کردیا اور شاہ جی اپنا سا منہ لے کر رہ گئے۔ٹی ایم سی رکن پارلیمان کلیان بنرجی نے مرکزی داخلہ سکریٹری اجے بھلا کو بھیجے گئے خط میں مذکورہ نوٹس کو ’سیاسی انتقام ‘ قرار دیا ۔ بنرجی نے یاد دلایا کہ ’لاء اینڈ آرڈر‘آئین کی ساتویں شق کے تحت ریاست کے اختیار میں آتا ہے۔ نظامِ قانون کی حالت کے ضمن میں دونوں افسران کو بات چیت کے لیے یا کسی بھی طرح کیسے بلا یا جاسکتاہے ؟ کیا آپ ہندوستانی آئین اور کسی دیگر قانون کے تحت ریاست کے نظامِ قانون میں مداخلت کر سکتے ہیں؟‘‘

دہلی کا وزیر اعلیٰ کیا کہتا ہے اس پر کوئی کان نہیں دھرتا مگر مغربی بنگال یونٹ کے بی جے پی صدر پر وزارت داخلہ حرکت میں آجاتا ہے اور امیت شاہ اس پراپنے ٹویٹ میں لکھتے ہیں کہ ”بنگال میں بی جے پی کے قومی صدر جگت پرکاش نڈا پر ہونے والا حملہ بہت ہی قابل مذمت ہے، اس کی جتنی بھی مذمت کی جائے کم ہے۔مرکزی حکومت اس اسپانسرڈ حملے کو مکمل سنجیدگی سے لے رہی ہے۔ بنگال حکومت کو اس حملے کے لیے ریاست کے امن پسند عوام کو جواب دینا ہوگا‘‘۔وزیر داخلہ اپنے ٹویٹ میں آگے لکھتے ہیں ترنمول حکومت میں بنگال، ظلم، انارکی اور اندھیرے کےدور میں جا چکا ہے۔ ٹی ایم سی کی حکومت میں مغربی بنگال کے اندر جس طرح سےسیاسی تشدد کو ادارہ جاتی بنا کر انتہا پر پہنچایا گیا ہے، وہ جمہوری اقدار میں یقین رکھنے والے تمام لوگوں کے لیے تکلیف دہ اور تشویشناک ہے۔ وزیر داخلہ نے جو باتیں مغربی بنگال کے بارے میں کہیں وہ سب دہلی میں خود ان کی پولس پر بھی صادق آتی ہے لیکن اس پر مکمل خاموشی ہے۔ امیت شاہ اس تشدد کے بہانے بنگال میں صدر راج بھی نافذ کرواسکتے ہیں لیکن اگر انہوں نے ممتا بنرجی کو انتخاب سے قبل برخواست کرنے کی غلطی کردی تو وزیر اعلیٰ کی ساری کوتاہیاں دھل جائیں گی اور ہمدردی کی لہر پر وہ زبردست کامیابی سے ہمکنار ہوجائیں گی ۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ کیا شاہ جی اپنے آپ کو اس حماقت سے روکنے میں کامیاب ہوپاتے ہیں یا خود اپنے ہی جال میں پھنس جاتے ہیں ۔ خیر اس بدنماسیاسی اٹھا پٹخ سے قطع نظر یہ بات طے ہے کہ ملک کا سیاسی ماحول پوری طرح مکدرّ ہوچکا ہے اور اس حکومت کے چلتے سدھار کا امکان ناپید ہے۔ موجودہ صورتحال پر نواز دیوبندی کا ایک اور شعر صادق آتا ہے؎
شہروں شہروں خونریزی میں شیطانوں کا نام نہ لو
اس سازش کے پیچھے کوئی انساں بھی ہو سکتا ہے
 

Salim
About the Author: Salim Read More Articles by Salim: 2049 Articles with 1238184 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.