قلی قطب شاہ :ایک مطالعہ

 ڈاکٹر غلام شبیررانا
قطب شاہی سلطنت کے چوتھے بادشاہ ابراہیم قطب شاہ ولی ( B:1518,D:1580 )نے اپنے فرزند محمدقلی قطب شاہ کی تعلیم و تربیت شاہانہ ماحول میں کی ۔ ابراہیم قلی قطب شاہ نے وجیا ناگرا میں رقص اور موسیقی سے تعلق رکھنے والے خاندان کی ایک ہندو عورت بھاگیا راتھی سے شادی کی ۔ ابراہیم قلی قطب شاہ کے تیس سالہ عہد حکومت ( 1550-1580) میں بھاگیا راتھی انتظام سلطنت پر اثر انداز ہوتی رہی۔اسی عورت کے زیر اثر سیاسی ،انتظامی اور عسکری عہدوں پر ہندو چھا گئے ۔اسی ہندو عورت کے بطن سے قطب شاہی سلطنت کا پانچواں بادشاہ محمد قلی قطب شاہ پیدا ہوا۔بھاگیا متی کی آغوش ِ تربیت اور قصر ِ شاہی کے عشرت کدوں کے ماحول کی وجہ سے چندے آفتا ب چندے ماہتاب عورتوں سے قلبی وابستگی قلی قطب شاہ کی گُھٹی میں پڑ گئی تھی ۔ محمد قلی قطب شاہ ( B:1565,D:1612)نے اپنے عہد حکومت ( 1580-1611)میں اس خطے میں علم و ادب کے فروغ کے لیے گراں قدر خدمات انجام دیں ۔دکنی ادب کے ارتقا میں قطب شاہی دور کو سنگِ میل کی حیثیت حاصل ہے ۔قطب شاہی دور میں اس خطے کے ممتاز ادیب دربار سے وابستہ رہے ۔ذیل میں اس کا مختصر احوال پیش کیا جا رہا ہے ۔قطب شاہی دور (1518-1687) میں درج ذیل بادشاہوں نے شعر و ادب کی سر پرستی کی :
محمد قلی قطب شاہ (عرصہ اقتدار : 1580-1611)
سلطان محمد قطب شاہ (عرصہ اقتدار: 1611-1626)
عبداﷲ قطب شاہ (عرصہ اقتدار :1626-1672 )
ابو الحسن قطب شاہ (عرصہ اقتدار :1672-1686)

محمد قلی قطب شاہ نے حُسن پرستی کے ساتھ ساتھ مقامی رسوم و رواج ،تہواروں اور اس علاقے کی تہذیب و ثقافت کو اپنی شاعری کا موضوع بنایا ہے ۔ایک ہندو رقاصہ بھاگ متی کے ساتھ قلی قطب شاہ نے دیوانہ وار محبت کی اور اُس سے ملنے کی خاطر دریائے مُوسیٰ پر گزرگاہ کی خاطر محنت کشوں کی پیہم دو برس کی تعمیری مساعی کے بعد سال 1578ء میں چھے سو فٹ لمبا اور پینتیس فٹ چوڑا پراناپُل مکمل ہواجو حیدرآباد کا پہلا پُل تھا۔ قلی قطب شاہ کوبھاگ متی کا تلخ و شیریں محبت کے شدید جذبات سے لبریز رقص اس قدر پسند آیا کہ اُسے ملکہ بنا لیا۔ شادی کے بعد بھاگ متی نے اسلام قبول کر لیا اور اُسے حید ر محل کا لقب مِل گیا۔اس شادی کی یاد تازہ رکھنے کے لیے ایک شہر بھاگ نگر بسایا گیا جو بعد میں حیدر آباد کے نام سے مشہور ہوا۔ پریوں کا اکھاڑا سجانا او اس میں داد عیش دیان قلی قطب شاہ کا پسندیدہ مشغلہ تھا۔اس کی شاعری میں عشق و محبت کا جذبہ ٔ بے اختیار قاری کو تخلیق کار کے ایک منفرد تجربے سے روشناس کراتا ہے ۔ محبت کے جذبات کی یہ بے خودی ،سرمستی ،جذبِ دروں اوروجدانی کیفیت قاری کو مسحور کر دیتی ہے ۔قلی قطب شاہ نے علم و ادب کی سرپرستی میں کوئی کسر اُٹھا نہ رکھی۔ اُس نے مساجد ، تعلیمی اداروں اور کتب خانوں کی تعمیر میں گہری دلچسپی لی۔اس نے سال 1591ء میں ’’ چہار مینار ‘‘ جیسی پر شکو ہ عمارت تعمیر کرائی جو فن تعمیر میں اُس کی دلچسپی کی مظہر ہے ۔ حیدر آباد ( دکن ) کی تاریخی اور ثقافتی تاریخ کے ارتقا میں ہندوستانی اور اسلامی طرز تعمیر کی پہچان ’’ چہار مینار ‘‘ کو سنگ ِ میل کی حیثیت حاصل ہے ۔وہ علما اور ادیبوں کا قدر دان تھا اس نے اپنے عہد کے مقبول مصنف شیخ احمد شریف گجراتی کو اپنے دربار میں بُلایا اور عزت و تکریم سے نوازا ۔ محمد قلی قطب شاہ کے خاص مہمان کی حیثیت سے اپنے حیدر آباد کے قیام کے دوران شیخ احمد شریف گجراتی نے اپنے عہد کی مشہور و مقبول رومانوی داستان ’’قصہ یوسف زلیخا ‘‘ (عرصہ ٔتخلیق : 1580-1585)کو مثنوی کے اشعار کے قالب میں ڈھالا جسے قارئین ادب نے قدر کی نگاہ سے دیکھا ۔ دبستان گول کنڈہ کی اس پہلی طویل رومانوی مثنوی کے عرصۂ تخلیق 1580-1585))کے دوران میں قلی قطب شاہ نے اس دور کے انتہائی مقبول، ذہین اور با کمال تخلیق کار شیخ احمد شریف گجراتی کی خوب قدر افزائی کی۔ شیخ احمد شریف گجراتی دکنی زبان کا ایک زیرک،فعال ،مستعد اور قادر الکلام شاعر تھا اس کی مثنوی ’ لیلیٰ مجنوں ‘ بھی بہت مقبول ہوئی ۔ابن نشاطی بھی اس رجحان ساز تخلیق کار کے کمال فن کا معترف تھا ۔ مرثیہ، رباعی،مثنوی اور غزل میں احمد شریف گجراتی نے متعدد ایسے الفاظ استعما ل کیے ہیں جو اب متروک ہو چکے ہیں مثلا ً اُپجے بہ معنی پیدا ہوئے وغیرہ ۔دکنی زبان کے قدیم شاعر شیخ احمد شریف گجراتی کے منفرد اسلوب کو سمجھنے کے لیے اس کے چندمصرعے /اشعار درج ذیل ہیں :
ع: سر پر تو سانجھ پڑ گئی اور پاؤں تھک گئے

بنا احمد ؔ سو کیا اُن کو سرائے
بہو دھاتوں خدا اُن کو سرائے

احمد ؔ دکن کے خوباں ہو تیاں ہیں پُر ملاحت
تو توں دکھن کو اپنا گجرات کر کے سمجھیا

سو منگتا تھا جو شہ کے ناؤ ں سیتی
کتاباں رس کروں بہ چاؤں سیتی

میر ی خاک میں تھے جو اُپجے نہال
وفا کے لگے پھول پھل ڈال ڈال

جہاں تک بارہویں صدی میں دہلی کے باشندوں کی اردو زبان ( ریختہ ) کی قدامت کا تعلق ہے تو حقائق سے معلوم ہوتاہے کہ یہ ایک مخلوط زبان تھی جو نظم ہندی کے لیے مستعمل رہی ۔اس نئی زبان میں تخلیق ادب کا سلسلہ جاری رہا اور دکن و گجرات کے ادیبوں نے اس زبان میں اپنے اشہبِ قلم کی جولانیاں دکھائیں۔گجرات کے طول و عرض میں بولی جانے والی اِس زبان کو جو نام دئیے گئے اُن میں ’ زبان دہلوی‘ ،گُجری اور گوجری قابل ذکرہیں ۔ بسیار خوراور زہر خوری کا عادی حاکم محمود شاہ بیگڑہ (11 B:1445.D:15) کے عہد حکومت م( 1458-1511)گجرات کے وسیع علاقوں میں گوجری کا چلن تھا۔گجرات کے دو مضبوط قلعے( پوا گڑھ اور چمپنا) فتح کرنے کے بعد اسے بیگڑہ کہا جانے لگا۔بیگڑہ گجرات کا ایک شکاری پرندہ ہے جو کُھلی فضاؤں پر مکمل اختیار رکھتاہے ۔کم زوراور مجبور لوگوں کی بے بسی اور سادیت پسندوں کے جبر کے حوالے سے اس کا یہ جملہ تو بہت مشہور ہوا:
’’ نیچی بیری سب کوئی جھو ڑے ۔‘‘
سر زمین دکن میں اس نئی زبان کو ابتدا میں ’’ زبان ِ ہندوستان‘ کا نام دیا گیا مگر وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ اہلِ دکن نے اسے ’’ دکنی‘‘ قرار دیا۔مغل بادشاہ ظہیر الدین بابر بھی ریختہ کی ہمہ گیر مقبولیت سے متاثر تھا۔بابر کا یہ مصرع تو زبان زدِ عام تھا:
’’ مُج کا نہ ہوا کُجہ ہوس مانک و موتی ‘‘
عالمی شہرت کے حامل ممتاز لسانی محقق ،نقاداور مورخ پروفیسر حافظ محمود خان شیرانی( 1880-1946 )نے اپنی تحقیقی کتاب ’’ پنجاب میں اُردو ‘‘ میں بر عظیم میں مسلمان فاتحین کی آمد ،اسلامی سلطنت کی دہلی تک توسیع اور دہلی کی مرکزی حیثیت کے حوالے سے مقامی زبانوں پر مرتب ہونے والے دُور رس اثرات کے متعلق لکھا ہے :
’’ محمد بن تغلق جب آٹھویں صدی ہجری میں دہلی کو اُجاڑ کردولت آباد کو آ باد کرتا ہے تو یہ زبان دکن میں مسلمان نوآبادکاروں کی زبان بن جاتی ہے۔ گجرات اوردکن میں دسویں صدی ہجری میں اس میں تصنیف و تالیف کا سلسلہ شروع ہو جاتا ہے۔ گویا دکن و گجرات میں اُردو کے علیحدہ علیحدہ مرکز قائم ہو جاتے ہیں ۔اہل ِ گجرات اِس کو نویں صدی ہجری میں ’’ زبان دہلوی ‘ کے نام سے یاد کرتے ہیں لیکن آنے والی صدی میں ’ ’ گجری ‘‘ یا ’’ گوجری ‘‘ کہنے لگتے ہیں ۔اِسی طرح دکن میں پہلے پہل یہ زبان ’’ زبانِ ہندوستان ‘‘ کہلائی ۔بعد کو ’’ دکنی ‘‘ کہنے لگے ۔اہلِ دہلی بارہویں صدی کے آخر سے اِس کو ’’ ریختہ ‘‘ کہنے لگے، جو در اصل موسیقی کی اصطلاح تھی۔ ( 1)
فیروز شاہ تغلق کی حکوت کے زوال کے ساتھ ہی اس خطے میں فارسی زبان کے عروج کی داستان تاریخ کے طوماروں میں دب گئی ۔ سوری خاندان کے عہد حکومت (1540-1556)میں سلاطین کی فارسی زبان سے نفرت کی وجہ سے اس خطے میں فارسی زبان کو شدید ضعف پہنچا۔تیزی سے بدلتے ہوئے حالات کا رُخ دیکھ کر تغلق ،سیّد اور پٹھان خاندانوں کے حکام نے اُردو زبان سے پیمان وفا استوار کر لیا۔
ملا وجہی بھی اسی عہد کا پُرعزم تخلیق کار تھا اس نے قلی قطب شاہ کی داستان ِ محبت کو اشعار کے قالب میں ڈھالا اورایک طویل مثنوی ’’قطب مشتری ‘‘ پیش کی ۔دکنی نثر میں ملا وجہی کی کتاب ’’سب رس ‘‘ کو دکنی ادب کے ارتقا میں سنگ میل کی حیثیت حاصل ہے ۔قدیم دکنی زبان کو ہندوستانی زبان کی ایک کو نپل خیال کیا جاتا ہے جس نے سر زمین د کن میں نمو پائی ۔دکن میں مقیم مسلمان باشندوں نے اس زبان کو پروان چڑھانے میں گہری دلچسپی لی ۔اردو زبان کے ماننددکنی زبان نے تحریر کے لیے فارسی نستعلیق رسم الخط کا انتخاب کیا ۔تاریخ ادب کے مطالعہ سے اس حقیقت کا ادراک ہوتا ہے کہ یہی وہ خطہ ہے جہاں سے قدیم دکنی شاعر ولی محمد ولیؔ دکنی (1667-1707) نے ریختہ کو اظہار و ابلاغ کا وسیلہ بنا کر ایسا رنگ و آ ہنگ عطا کیا کہ ادب میں تخلیقی فعالیت کومقاصد کی رفعت کے اعتبار سے ہم دوش ثریا کر دیا ۔ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ لسانیات کے ان ہمہ گیر تجربات نے پورے شمالی ہندوستان کو اپنی گرفت میں لے لیا ۔رفتہ رفتہ نوبت یہاں تک پہنچی کہ دہلی میں بھی شعر و سخن سے وابستہ مثبت شعور و آ گہی سے متتمع تخلیق کاروں کی محفلوں میں ولی دکنی کی تخلیقی کامرانیوں کی بازگشت سنائی دینے لگی۔جب ولیؔ دکنی کی شاعری کی ہر سُو دھوم مچ گئی تو اس کے اسلوب کی تقلید پر توجہ دی گئی ۔قرائن سے معلوم ہوتا ہے کہ ہندوستان کی زبانوں کے باہم امتزاج اور اس کے نتیجے میں رو نما ہونے والے تغیر و تبدل کا وسیع سلسلہ پیہم جاری رہا اور اس عہد میں بر صغیر کی ہر زبان میں دکنی زبان کے آثار دیکھے جا سکتے ہیں ۔اسی بنا پر یہ بات بلا خوفِ تردید کہی جا سکتی ہے کہ ہندوستان کی تمام ادبی زبانیں ان لسانی تجربات سے مستفید ہوئیں اور دکنی زبان سے خوشہ چینی کرتی رہیں ۔ہندوستانی زبانوں کے ادب کا مطالعہ کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ ان سب زبانوں کے علم و ادب کا قصر عالی شان دکنی زبان سے مستعار لیے گئے ذخیرۂ الفاظ کی اساس پر استوارہے ۔فکری اور فنی اعتبار سے ہندوستانی زبانیں دکنی زبان کی باج گزار ہیں اور دکن کے مشاہیرِ علم و ادب کے بار ِ احسان سے بر صغیر کے باشندوں کی گردنیں ہمیشہ خم رہیں گی۔بر صغیر کی زبانوں بالخصوص دکنی زبان پر ممتاز مستشرق گریرسن (George Abraham Grierson) نے جو دادِ تحقیق دی ہے اُسے پوری دنیا میں سرا ہا گیا ۔ دکنی زبان کی لسانی اہمیت کے بارے میں گریرسن (1851-1941)نے لکھا ہے :
ــ"The Musalman armies carried vernacular Hindostani to the southbefore it had been standardised,and it then contained many idioms which are now excluded from literary prose.Some of these have survived in Deccan.")2(
آریائی زبانوں سے میل جول اوراشتراک سے جنوبی ہند میں دکنی زبان نے نمو پائی۔دکنی زبان کاامتیازی وصف یہ ہے کہ اس زبان میں فارسی الفاظ کی فراوانی نہیں ہے ۔ مغربی ہندی زبان کی شاخوں کے بر عکس اسم یا ضمیر کے بعد اور فعل ماضی سے پہلے حرف (نے ) کا استعمال نہیں ہوتا۔دکنی زبان میں ’’مجھ کو ‘‘ کے بجائے ’’میرے کو ‘‘ مستعمل ہے ۔دکنی زبان کے مولد کے بارے میں کہا جا سکتا ہے کہ یہی وہ علاقہ ہے جہاں تلگو نے پانچ سو برس تک رنگ جمایا اس عرصے میں مقامی زبانوں میں لسانی تجربات ،تغیرات اور ارتقا کا سلسلہ جاری رہا اور دکنی زبان نے بھی اس سے گہرے اثرات قبول کیے ۔اس کا اندازہ دکنی زبان میں رونما ہونے والے نحوی تغیر و تبدل سے لگایا جا سکتا ہے۔لسانی عمل کے عمیق مطالعہ سے معلوم ہوتا ہے کہ ارادی ،غیر ارادی ،مرضی یا غیر مرضی سے وقوع پذیر ہونے والے تغیرات اس خطے میں صدیوں سے مسلط جبر کی فضا سے انحراف کی ایک صور ت بن رہے تھے۔ تاریخ اور اس کے مسلسل عمل پر نظر رکھنے والے محققین اور مورخین کا اس امر پر اتفاق ہے کہ دکن میں بہمنی دور میں حکمرانوں کی سر پرستی کے نتیجے میں دکنی زبان کی ترویج و اشاعت کا سلسلہ جاری رہا ۔عوام کی دلچسپی اور حکمرانوں کی حوصلہ افزائی نے یہاں کے باشندوں کے فکر و نظر کو مہمیز کیا اور تیزی سے بدلتے ہوئے حالات میں دکنی زبان نئے آفاق تک رسائی حاصل کرنے میں کامیاب ہوگئی۔دکنی زبان پر عربی اور فارسی زبان کے اثرات نمایاں ہیں لیکن اس کے باوجود دکنی زبان کی شکل و صورت ہندوستانی زبان سے قدرے مختلف ہے ۔اس کا سبب یہ ہے کہ دکنی زبان پر حیدرآباد ،بنگلور ،اورنگ آباد ،کرنول،نیلور اور بنگلور میں مقیم مراٹھی ،تلگو اورکاندا جیسی مقامی بولیاں بولنے والے باشندوں کے گہرے اثرات ہیں۔اس قسم کی علاقائی زبانیں مہاراشٹر ،تلنگانہ ،آندھرا پردیش،کرناٹکااورتامل ناڈو میں طویل عرصے سے مستعمل ہیں۔ اُردو زبان کی قدیم ترین شکلوں میں گوجری ،ہندوی اور دکھنی قابل ذکر ہیں ۔ ان زبانوں کے مشرقی پنجابی اور ہر یانی کے ساتھ کھڑی بولی کی نسبت زیادہ گہرا تعلق ہے ۔دکن ہی وہ خطہ ہے جہاں سے تخلیق کاروں نے افکار تازہ کی مشعل تھام کر جہانِ تازہ کی جانب روشنی کے فقید المثال سفر کا آغاز کیا تھا ۔ ادبیات ،فنون لطیفہ اور لسانیات سے دلچسپی رکھنے والے ذوقِ سلیم سے متمتع قارئین ادب کا خیال ہے کہ جدید دور کی معیاری ارد وکے سوتے بھی سر زمینِ دکن ہی سے پھوٹے تھے ۔
دکن میں ایک نئی زبان کے ارتقا کے حوالے سے اماریش دتا (Amaresh Datta)نے انسا ئیکلو پیڈیا ہندوستانی لسانیات میں لکھا ہے:
,,The fusion of the spoken language of the North (imposed upon the south by its Muslim conquerers )and the southern languages resulted gradually in the evolution of a somewhat peculiar form which can be known as Dakkani Urdu.The Bahmani Kingdom,the first independent Muslim State in the South( 1347- 1526) despite its long rule did not contribute much to Dakkani literature as such ,but its adoption of thi new languageas its court,s language in preference to Persian ,helped the process of the gradual growth and development as the dominanat linguistic force of the areaand contained to draw strength and sustenance from cultures of both the North and the South.(3)
فارسی بولنے والے مسلمان فاتحین اور ان کے لشکر میں شامل فوجی اپنی زبان دکن لے کر پہنچے ۔ جنوبی ہند میں جس زبان کو دکھنی کہا جاتا تھا شمالی ہند میں اس نئی زبان کے لیے کوئی موزوں نام تجویز نہیں ہوا تھا۔انسانی معاشرے میں زندگی بسرکرتے ہوئے اپنے ابنائے جنس کے ساتھ باہمی معاونت اور تقابل کے نتیجے میں دکن میں نمو پانے والی یہ نئی زبان شمالی ہند میں شمالی ہند میں ریختہ ،اُردو ،اُردوئے معلّیٰ کے نام سے مقبول ہوئی۔ تاریخ ِ ادب کے مطالعہ سے معلوم ہوتا ہے کہ دکن کے تخلیق کاروں نے سب سے پہلے نثری تراجم کوپرورشِ لو ح و قلم کا وسیلہ بنایا ۔اس طرح تخلیقی فعا لیت میں بھی نثر کو اوّلیت کا اعزاز حاصل ہو ا اور دکن میں نظم کی تخلیق نثر کے بعد ہوئی ۔ماہرین لسانیات کا گمان یہ ہے کہ عروض کی پابندی اور قافیہ بندی کی نسبت دوسری زبان سے ترجمہ کرنا قدرے آسان ہے اس لیے دکن کے تخلیق کاروں نے سب سے پہلے نثری تراجم ہی پر اپنی توجہ مرکوز رکھی ۔یہ خواجہ بندہ نواز سید محمد حسینی گیسو دراز شہبازؔ تھے جنھیں دکنی کا پہلا شاعر قرار دیا جاتا ہے ۔ اس عہد کے مقبول
،فعال اور مستعد تخلیق کاروں کے فن پاروں کا مطالعہ کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ جنوبی ہند میں اِس زبان کو بالعمو م دکنی اور ہندی ہی کہاجاتا تھا ۔ ولی ؔ اورنگ آبادی نے دکھنی زبان کے لیے سب سے پہلے ریختہ کا نام استعمال کیا ۔ دکنی زبان کی تاریخ کے ابتدائی دور کے کچھ اور نمائندہ تخلیق کاروں کے نام اور نمونہ کلام پیش کیا جاتا ہے:
یہ ریختہ ولیؔ کا جا کر اُسے سُنا دے
رکھتا ہے فکر روشن جو انوری کے مانند
(ولی ؔ اورنگ آبادی )
یہ بات قرینِ قیاس ہے کہ شروع میں دکن میں مستعمل زبان کا نام دکھنی رکھا گیا تھا جو بعد میں شمالی ہند میں ریختہ کے نام سے موسوم ہوئی ۔اس میں ولیؔ کو اوّلیت کا اعزاز حاصل ہے جس نے اپنے سفر دہلی کے بعد لفظ ریختہ کو مروج و مقبول بنانے میں اہم کردار ادا کیا۔ کی چند مثالیں درج ذیل ہیں :
دکھن میں جو ں دکھنی مٹھی بات کا
ادا نیں کیا کوئی اِس دھات کا
(وجہیؔ : قطب مشتری )
اسے ہر کس کتیں سمجھا کوں توں بول
دکھنی کے باتاں ساریاں کُوں کھول
(ابن نشاطیؔ : پھول بن )
کیا ترجمہ دکھنی ہور دِلپذیر
بولیا معجزہ یو کمال خان دبیر
(رستمیؔ : خاور نامہ )
صفائی کی صورت کی ہے آرسی
دکھنی کا کیا شعر ہوں فارسی
(نصرتیؔ : گلشنِ عشق )
ولے بعض یاروں کاایما ہوا
سو ہندی زباں یہ رسالہ ہوا
(آگاہؔ)
ہے دکھنی میں مجکوں مہارت یتی
کہ النصر منکم کہے نصرتی
( آگاہؔ)
تاریخی حقائق سے معلوم ہوتا ہے کہ سر زمینِ دکن کے مکینوں کے علاوہ شمالی ہند کے تخلیق کاروں نے بھی لفظ ’ ریختہ ‘ کا بلا تامل استعمال کیا مثلاً:
قائم ؔمیں غزل طور کیا ریختہ ورنہ
ایک بات لچر سی بہ زبان دکھنی تھی
(قائمؔ)
ریختہ نے یہ تب شرف پایا
جب کہ حضرت نے اس کو فرمایا
(اثر ؔ )
خوگر نہیں کچھ یوں ہی ہم ریختہ گوئی کے
معشوق جو تھا اپنا باشندہ دکن کا تھا
( میر تقی میر ؔ )
گول کنڈہ میں قطب شاہی خاندان نے سال 1508میں ایک آزاد اور خود مختار سلطنت قائم کی۔ اس ریاست کے آٹھ مطلق العنان بادشاہوں کی علم وا دب کی سرپر ستی کے نتیجے میں ان کی اقلیم میں تخلیق کاروں نے اپنے ذوقِ سلیم کو رو بہ عمل لاتے ہوئے قارئین کی خداداد قدرتی، ادبی ،اخلاقی اورعلمی اوصاف کو صیقل کرنے میں کوئی کسر اُٹھا نہ رکھی ۔ مورخین کی تحقیق کے مطابق قطب شاہی عہدکو درج ذیل تین ادوار میں تقسیم کیا جاسکتا ہے :
۱۔ ابتدائی دور : ( 1508-1580 )
۲۔عروج کا زمانہ : ( 1676 1580- )
۳۔دور انتشار : ( 1676-1687 )
قطب شاہی خاندان کے پہلے بادشاہ سلطان قلی نے قصرِ شاہی میں ادب اور فنون لطیفہ سے وابستہ تخلیق کاروں کے مِل بیٹھنے کے لیے ’ آش خانہ ‘ کے نام سے ایک پُر آسائش اور بے حد حسین محل تعمیر کرایا۔ اِس خاندان کے آخری چار بادشاہ خود شاعر تھے ۔قطب شاہی دور میں جو ادیب شاعری اور نثر کی مختلف اصناف میں پرورش لوح و قلم میں مصروف رہے ان کے نام درج ذیل ہیں :
شاعری : محمد قلی،ظل اﷲ ،عبداﷲ ،تانا شاہ،فیروزؔ ، محمود ؔ،وجہیؔ،غواصیؔ،احمد ،راضیؔ ،جنیدیؔ،ابن نشاطیؔ،طبعیؔ،امینؔ،خواصؔ،غلام علی،سیوکؔ،فائزؔ،لطیف،افضلؔ،نوریؔ ،راجوؔ۔
نثر : مولانا عبداﷲ ، ملاوجہی
قطب شاہی خاندان کے سب حاکم خود بھی تعلیم یافتہ تھے اورعلم و ادب کے سر پرست بھی تھے۔اس عہد میں دفاتر میں اگرچہ فارسی زبان کا چلن تھا مگر معمولات زندگی میں دکنی زبان ہی مستعمل تھی۔ قطب شاہی دور میں اس خطے میں تہذیب اور ارضی و ثقافتی حوالے سے نئے آفاق تک رسائی کے متعدد امکانات سامنے آئے۔افکارِ تازہ کی مشعل تھام کر ادیبوں نے جہانِ تازہ تک رسائی کے نئے انداز اپنائے ۔ متنوع تخلیقی تجربے قلی قطب شاہ کے اسلوب کا نمایاں وصف ہے ۔اس نے فطرت نگاری پر توجہ دی اور ہر صنف شعر میں طبع آزمائی کی ۔اس کی شاعری میں رباعیات ،قطعات، غزلیات ،نظمیں ،مثنویاں، قصیدے ، اور مر ثیے شامل ہیں ۔اُس نے جن موضوعات پر اشہب ِ قلم کی جولانیاں دکھائی ہیں اُن میں مذہبی تقریبات ،قصر شاہی کے معاملات ،عیش و نشاط کی محفلیں ،رسوم و رواج ،کھیل تماشے ،پیمان وفا،ہجر و وصال ،تقریبات ،حُسن و جمال کے کمال،پیشوں کا احوال ، پیمان شکنی اور محسن کُشی کے مظہر بیشوں کے جال اور حصول معاش کے مسائل شامل ہیں۔ محمد قلی قطب شاہ کی بارہ پیاریاں حُسن و رومان کی وادی میں مستانہ و ار گھومتے وقت اُس کے ساتھ ہوتی تھیں ۔محمد قلی قطب شاہ جن بارہ پیاریوں پر انحصارکرتا تھا اُن میں حیدر محل ،پیاری ،کنولی،سانولی ،ننھی،مشتری ،گوری چھبیلی،لالا،موہن،لالن اور محبوب شامل ہیں ۔ان بارہ پیاریوں کے بارے میں اُس کی نظمیں سراپا نگاری کا انوکھا نمونہ ہیں ۔ عورت کے حُسن و جمال سے کیف و مستی کے حصول کا یہ انداز کرشنا سے مشابہ ہے ۔ معاشرتی زندگی کے واقعات ، قطب شاہی خاندان کا پانچواں بادشاہ قلی قطب شاہ سال 1580میں تخت نشین ہوا جو دکنی اُردو کا پہلا شاعر ہے جس کا تخلص قطبؔ شاہ اور معانیؔ تھا ۔ اس نے متعدد تخلص استعمال کیے جن کی تفصیل درج ذیل ہے :
ترکمان ،قطب معانی ،محمد قطب شہ ، محمد،محمد قلی،محمد قطب،قطبِ زماں ،قطب شہ ،محمدقطب شہ غازی ،محمد شہ ،محمد قطب شہ راجہ،محمد قطب شہ سلطان،قطب شہ نواب،معانی،قطب معنا
اس کی تمام شاعری کو کلیات کی صورت اس کے بھتیجے محمد قطب شاہ نے ذاتی دلچسپی اورتوجہ سے مرتب کر کے شائع کیا ۔اس کی کتابِ زیست کا مطالعہ کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ جوانی میں اس نے ایک مہ جبیں حسینہ بھاگ متی سے پیمانِ وفا باندھا اور اس کی محبت میں شعر گوئی شروع کی ۔جب تخت نشین ہوا تو بھاگ متی کو حیدر محل کا نام دے کر شریکِ حیات بنا لیا اور اِسی مہ جبیں حسینہ کے نام پر حیدر آباد شہر بسایا ۔جذبہ ٔ محبت سے سرشار اس فطرتی شاعر نے رباعیات،ترجیح بند ، غزل،قصیدہ،مثنوی،مرثیہ اور نظم میں ایک لاکھ شعر کہے جن میں گل و بلبل اور شاہد و ساقی کا پرانا موضوع غالب ہے ۔ رفعتِ تخیل ، جدت ،تنوع اوراسلوب میں تشبیہات اور استعارات کی کمی کھٹکتی ہے۔ اس کے اشعار بر صغیر کی مقامی تہذیب و ثقافت کے مظہر ہیں۔اس کے کلام میں فطرت نگاری کاجادو سر چڑھ کر بولتا ہے ۔مثال کے طور پر’ باغ محمد شاہی کی تعریف میں قصیدہ ‘ اس کے منفر د اسلوب کامظہر ہے :


محمد ﷺ نانوں تھے بستا محمد ﷺ کااے بن سارا
سو طوباں سوں سہاتا ہے جنت نمنے چمن سارا

دسے فانوس کے درمیانے تھے جوں جوت دیوے کا سوتیوں دِستا دوالاں میں تھے میویاں کا ب

سڑک سے باغ کوں دیکھت کھلے منج باغ کے غنچے
سو اس غنچے کے باسا ں تھی لگیا جگ مگمگن سارا

چمن کے پھول کھلتے دیکھ سکیاں کا مُکھ یاد آیا
سہاتا تھا محمد ﷺ پھل نمن ان کا نیں سارا

ہے عشق ہر اک دھات ہر اک دل میں پیارا
منج عشق پیارے کا اہے جیو کا ادھارا

بن سیر تمن ساری کلیاں سُوکھ رہی ہیں
ٹک آ کے کرو گشت چمن جی اوٹھے سارا

رخ ایک ہے پر ایک کدھن لال چمن ہے
لکھ جوت ہے ہر ٹھو ر ولے ایک رتن ہے


کس ٹھار میں رستا نہیں ہر ٹھار ہے بھر پور
دیکھن کو سکتکاں اوسے بس ایک نین ہے
منج عشق گری آگ کا اِک چنگی ہے سورج
اس آگ کے شعلے کا دھواں سات گگن ہے
(قلی قطبؔ شاہ )
ہر قسم کے تعصبات سے بالا تر رہتے ہوئے بر صغیر کی صدیوں پرانے رسوم و رواج کی امین تہذیب و ثقافت کے فروغ میں محمد قلی قطب شاہ نے بہت دلچسپی لی ۔اس کے عہد میں جن تقریبات کا جوش و خروش سے اہتمام کیا جاتاتھا اُن میں عید میلا د النبی ﷺ ، شبِ معراج ،عید ولادت حضرت علی ؑ ، عاشورہ محرم کی مجالس ، شبِ برات، عید الفطر ،عید الاضحی ،عید ِ غدیر ،جشنِ نوروز، عید سوری ،جشنِ برسات، جشنِ بہار،بسنت اور ہولی شامل ہیں ۔محمدقلی قطب شاہ کی کلیات میں ان تقریبات کے موضوع پر لکھی گئی نظموں کا مطالعہ کرنے سے یہ حقیقت واضح ہو جاتی ہے کہ بادشاہ نے دکن کے عام لوگوں کے ذوق کو ہمیشہ پیشِ نظر رکھا اور عوام و خواص کے فرق کو کم کرنے کی سعی کی ۔ اپنے گیتوں میں بھی محمد قلی قطب شاہ عام لوگوں کی زندگی سے وابستہ مسائل کو پیرایۂ اظہار عطاکیا ۔عشق و محبت کے حسین رنگوں سے مزین اُس کے عوامی مزاج کے عکاس گیت آج بھی بڑے شوق سے گائے اور سُنے جاتے ہیں ۔ محمدقلی قطب شاہ کے اسلوب میں فطرت نگاری کو اہم مقام حاصل ہے ،اس کی شاعری میں ’ بسنت ‘ کے موضوع پر کئی نظمیں اس کی فطرت نگاری کی شاہد ہیں اس کی مثال پیش کی جار ہی ہے :

بسنت کھیلیں عشق کی آ پیارا
تُمیں ہیں چاند میں ہو ں جوں ستارا
’’ مرگ ‘‘ موسم برسات کی ابتدا پر بھی کئی نظمیں اس کی فطرت نگاری کی عمدہ مثال ہیں ۔اس کی مثال درج ذیل ہے :
مرگ مہینے کو ں ملا ے ملکاں مل گگناں میں
سمد موتیاں کے جو برسائے سو بھرے انگنا میں
قلی قطب شاہ کی مثنوی ’ سالگرہ ‘ ا س کے ذاتی تجربات،قلبی جذبات اور احساسات کی حسین لفظی مرقع نگاری کی آئینہ دار ہے :
نبی ﷺ کی دعا تھے برس گانٹھ پایا
خوشیاں کی خبر کے دمامے بجایا
پیا ہوں میں حضرت کے ہت آبِ کوثر
تو شاہاں اُوپر مجھ کلس کو بنایا
محمدقلی قطب شاہ دکنی زبان کا ایک قادر الکلام شاعر تھا۔اُسے دکنی زبان کا پہلا صاحب ِ دیوان شاعر ہونے کا اعزاز بھی حاصل ہے ۔ اُس کے دکنی زبان کے دیوان میں پچاس ہزار اشعار شامل ہیں ۔کے شعری کلیات کے مطالعہ سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ ایک زیرک تخلیق کار کی حیثیت سے اس نے ہر صنف شعر میں طبع آزمائی کی ۔اس کے دیوان میں شامل کل تین سو بارہ(312) غزلوں کی ردیف وار ترتیب کا خیال رکھا۔محمد قلی قطب شاہ نے فارسی زبان کے ممتاز شاعر خواجہ شمس الدین محمد حافظ ؔ شیرازی (1315-1390) کی متعدد غزلوں کو دکنی کے قالب میں ڈھالا۔

مآخذ
(1 ) حافظ محمود شیرانی : پنجاب میں اُردو (حصہ اول ) ، اسلام آباد ،مقتدرہ قومی زبان ،پاکستان، طبع دوم 1998،ص۱۱۔
2.G.A Grierson: Linguistic Survey Of India,Vol.IX ,Calcutta,1916,page,55.
3.Amresh Datta(chief Editor) :Encyclopedia of Indian Literature,Volume I ,Sahitya Akademi , Delhi ,2003, Page 836 .



 

Ghulam Ibnesultan
About the Author: Ghulam Ibnesultan Read More Articles by Ghulam Ibnesultan: 277 Articles with 613313 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.