مسئلہ فلسطین پر مسلم ممالک کے بدلتے تیور

قریب آٹھ دہائیوں سے فلسطینی اپنی زمین ،اپنی خودمختاری اور اپنے وجود کے ساتھ ساتھ قبلہ اول کے تقدس کی بقا کی جنگ لڑ رہے ہیں ،اب تک وسائل اور بنیادی ضروریات کے فقدان کے باوجود یہ فلسطینی اس لئے اسرائیلی توپ وٹینک کے سامنے نہتے ڈٹ جاتے تھے کیوں کہ ان کو مسلم ممالک کا جذباتی تعاون مل رہا تھا ،غزہ پٹی کی سرزمین معصوم فلسطینیوں نے اپنے خون سے سیراب کردیا لیکن صیہونی طاقتوں کے سامنے گھٹنے نہیں ٹیکے،آٹھ دہائیوں سے یہ فلسطینی دھماکوں اور لاشوں کے بیچ اپنی زندگی گزارتے آرہے ہیں ،امن ان کے حصے میں کبھی آیا ہی نہیں ۔موسم بہار کبھی دیکھا ہی نہیں ،خوشی اور جشن کا موقع نصیب ہی نہیں ہوا چونکہ سوال تھا اپنے وجود،اپنی خودمختاری اور قبلہ اول کی تقدس کا ،معمولی آبادی پر مشتمل فلسطینیوں کوا پنے دشمن اسرائیل کے سامنے جس انداز میں ڈٹ کرسامنا کرنے کی ضرورت تھی اس سے کہیں زیادہ زبردست انداز میں اسرائیل کا مقابلہ کیااور اس بات سے انکار نہیں کیا جاسکتا کہ عرب ممالک نے اس لڑائی میں فلسطینیوں کی مدد کی،ان کی آزاد اور خود مختاری ریاست کے خواب کوتعبیر کرنے کیلئے اسرائیل سے جنگ مول لی ،سن ۲۰۰۶ میں لبنان اور اسرائیل کی جنگ اس کے ثبوت کیلئے کافی ہے ،بقیہ عرب ممالک چاہے وہ عرب امارات ہو یا سعودی عربیہ ،مصر ہو یا بحرین،سوڈان ہو یا ترکی اور ایران ان تمام مسلم ممالک نے فلسطینیوں کے شانہ بشانہ کھڑے ہونے کا ہر موڑ پر دعویٰ کیا اور قریب ۶۰ سے ۷۰ سالوں تک عرب ممالک اور اسرائیل کے درمیان بائیکاٹ اور دوریوں کا جو سب سے بڑا سبب تھا وہ صرف اور صرف مسئلہ فلسطین تھا ،تمام مسلم ممالک اور کچھ یوروپین ممالک بھی اس بات کے قائل تھے کہ فلسطین ایک آزاد ریاست کا حقدار ہے اورمسلم ممالک کے مابین ایک زبانی قرارداد بھی تھا کہجب تک فلسطینیوں کو ایک آزاد مملکت نہیں مل جاتی تب تک عرب ممالک متحد ہو کر اسرائیل کو تسلیم نہیں کریں گے۔لیکن فلسطین کیلئے مسلم ممالک کا یہ عہد چھ سے سات دہائی سے زیادہ نہیں چل سکا اور دھیر دھیرے فلسطینیوں کے قاتل اسرائیل کے ساتھ ایک ایک کرکے ہاتھ ملانا شروع کردیا ۔

گزشتہ دو ماہ کے اندر جو تصویر عرب ممالک اور اسرائیلی تعلقات کے حوالے سے دیکھنے کو ملی وہ یقیناً حیران کن اور فلسطینیوں کے ساتھ ایک بڑی غداری ہے ،متحدہ عرب امارات،بحرین،سوڈان،مراکش یہ وہ مسلم ممالک ہیں جنہوں نے فلسطینیوں کو ابھی ابھی تازہ زخم دیا ہے اور ان کے ساتھ بڑی غداری کی ہے ،بیچ مزدھار میں انہیں لاکر بے سہار کردیا ہے ،سعودی عرب بھی اس قطار میں ہے ،ترکی نے بھی اپنا سفیر روانہ کردیا ہے ، کچھ اور مسلم ممالک ایسے ہیں جو فلسطینیوں کے خون سے سنے ہوئے صیہونی ہاتھ کے ساتھ ہاتھ ملانے کو بے قرار ہیں اور بہت جلد یہ تصویر بھی صاف ہوجائے گی کہ فلسطینیوں کے پیٹھ میں اپنے ہی صف سے خنجر گھونپنے والوں میں کون کون شامل ہے۔متحدہ عرب امارات نے کوورونا وائرس کے دور میں فلسطینیوں کو ایک ماسک نہیں بھیجا لیکن اسرائیل مصنوعات کے بائیکاٹ کا فیصلہ فوراً منسوخ کردیا۔اسرائیل کے ساتھ ویزہ فری معاہدہ کرلیا اوربحرین ،سوڈان ودیگر مسلم ممالک بھی فلسطنیوں کو درکنا کرکے اپنے مفاد کیلئے سودے بازی کیلئے سودے بازی شروع کردی ۔لیکن فلسطینیوں کا یہ پہلے دن سے ہی عہد تھا کہ ہمیں اپنے کاندھے پر اپنا سر رکھ کرچلنا ہے چونکہ دوسرے کے سہارے خودمختاری کی جنگ نہیں لڑی جاتی ،آج بھی فلسطینی اسرائیلی درندوں کے سامنے ڈٹے ہوئے ہیں جبکہ دوسری جانب اسرائیلی وزیراعظم ان عرب ممالک کو اپنے جال میں پھنسا کرفلسطینیوں کی زندگی کو مزید اجیرن بنانے کا روڈ میپ تیار کررہا ہے اور اس میں سب سے پہلا نشانہ ہے مشرقی یوروشلم جہاں اسرائیل اپنا دبدبہ قائم کرنا چاہتا ہے۔اسرائیل نے پہلے ہی اعلان کررکھا ہے کہ وہ مشرقییروشلم میں 12 سو سے زیادہ گھر تعمیر کرنے کے اپنے منصوبے پر عمل کرے گا۔ فلسطینیوں کا کہنا ہے کہ اس اقدام سے مستقبل میں کسی فلسطینی ریاست کا قیام ناممکن ہو پائے گا، کیونکہ وہ بیت الحم اور مشرقییروشلم میں تقسیم ہو جائے گی ۔اسرائیل کے اعلان کے مطابق، وہ گیوات ہماتاس نامی علاقے میں بارہ سو سے زیادہ گھر تعمیر کرے گا، جو کہ سن 1967 کی سرحدوں کو عبور کرنے کے مترادف ہے۔اسرائیل کا کہنا ہے کہ یہیروشلم کا نواحی علاقہ ہے۔ جبکہ فلسطینیوں کا کہنا ہے کہ یہ ایک ایسے علاقے میںیہودی آبادکاری ہو گی جس پر اسرائیل نے سن 1967 میں قبضہ کیا تھا۔

اسرائیل کے ٹیبل پر دوسرا ناپاک منصوبہ مقبوضہ فلسطین کی وادی اردن اور مغربی کنارے کے اسرائیل میں انضمام کا ہے ،عرب ممالک سے رشتے بحال ہونے کے ماحول میں اسرائیل نے فی الحال اس کو ٹھنڈے بستے میں ضرور رکھا ہوا ہے لیکن اسرائیلی وزیر اعظم بنجامن نتن یاہو نے صاف کہہ دیا ہے کہ وہ متحدہ عرب امارات کے ساتھ معاہدے کے حصے کے طور پر مقبوضہ مغربی کنارے کے الحاق میں تاخیر پر راضی ہو ئے ہیں لیکن منصوبہ اب بھی ‘زیر غور’ ہے۔صیہونی حکومت کا کہنا ہے کہ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے ساتھ معاہدے میں مغربی کنارے کے ساتھ الحاق کے منصوبوں کو ‘موخر’ کیا تھا لیکن وہ ‘اپنی سرزمین پر حقوق سے کبھی دستبردار نہیں ہوں گے اور یہ ابھی بھی زیرغور ہے۔چونکہ اسرائیل کو یہ معلوم ہے کہ اگر وہ ایسا کرنے میں کامیاب ہوئے تو پھر فلسطینیوں کی آزاد ریاست کے خواب کو ہمیشہ کیلئے دفن کرنے میں کامیابی مل جائے گی اور صہیونیوں کا گریٹر اسرائیل کا خواب شرمندہ تعبیر ہوجائے گا۔جب کہ دنیامانتی ہے کہ اسرائیل کی اس حرکت سے مشرق وسطیٰ کا امن غارت ہوجائے گا۔اقوام متحدہ کی ہائی کمشنر برائے انسانی حقوق مشعل بیچلےنےکہہ دیا ہے کہ انضمام کا اسرائیلی منصوبہ نہ صرف اسرائیل اور فلسطین کے لیے بلکہ پورے علاقے کے لیے تباہ کن ثابت ہو گا اور اس سے دو ملکی حل کے امکانات معدوم ہو جائیں گے۔ان کا ماننا ہے کہ مغربی کنارے کے مقبوضہ علاقوں کو اسرائیل میں شامل کرنا ایک انتہائی خطرناک عمل ہو گا۔ اس پر عمل درآمد سے اسرائیل، فلسطین اور پورے علاقے کا امن خطرے میں پڑ جائے گا۔مشعل نے یہاں تک کہہ دیا ہے کہ یہ انضمام غیر قانونی ہے۔ مقبوضہ فلسطینی علاقے کے انضمام کی کوئی بھی کوشش انسانی حقوق کی صورت حال کو مزید خراب کر دے گی۔ ویسے ہی اس علاقے میں کشیدگی کی وجہ سے گذشتہ دو عشروں میں انسانی حقوق کی خاصی خلاف ورزیاں ہوتی آ رہی ہیںاور اب اگر اسرائیل مزید ایسی حرکت کرتا ہے تو پھر خطے کا امن پوری طرح سے غارت ہوجائے گا۔لیکن ان تمام باتوں سے اوپر اٹھ کر اگر دیکھیں تو ایک بڑا سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا عرب ممالک کا اسرائیل کے ساتھ رشتہ بحال کرنا ،فلسطینیوں کے ساتھ غداری اور دھوکہ نہیں ہے،کیا عرب ممالک فلسطینیوں کے قاتل کا ہاتھ مضبوط کرنے والا کام اب نہیں کررہے ہیں ،اسرائیل بڑی تیزی اور چالاکی کے ساتھ عرب ممالک کے ساتھ ڈیل کررہا ہے ،معاشی مورچے پر اسرائیل اس اندازمیں ڈیل کرنے کی کوشش کررہا ہے کہ آگے چل کر اسرائیل کی ہاں میں ہاں ملانا ان ممالک کی مجبوری ہوجائے ،لیکن ان ممالک کو شاید ابھی ایسا لگ رہا ہے کہ وہ اسرائیل کے ساتھ رشتے بحال کرکے اسرائیل کو ہی باندھ دیں گے اور آزاد فلسطینی ریاست کے قیام کیلئے اسرائیل کو مجبور کردیں گے ،یہ ایک ایسا خواب ہے جس کو بے ہوشی کے عالم میں عرب ممالک دیکھ رہے ہیں ،اسرائیل کی شاطرانہ چال کسی سے مخفی نہیں ہے،اسرائیل کیلئے فلسطین نہیں اسرائیل اہم ہے اور اس کیلئے ایک مدت تک عرب ممالک سے لاتعلقی کے باوجود بہت زیادہ نقصان نہیں اٹھانا پڑا تو پھر اب کیا اسرائیل فلسطین کے معاملے پر گھٹنے ٹیک دیگا؟اسرائیل کی ترجیحات میں دنیا کے ساتھ معاشی مقابلہ نہیں بلکہ گریٹر اسرائیل منصوبے کو عملی جامہ پہنانا ہے اور اسی کیلئے وہ طرح طرح کے حربے کا استعمال کررہا ہے جس کا شکار اب یہ عرب ممالک ہونے لگے ہیں ۔لیکن سوال توان مسلم ممالک سے پوچھا جانا چاہیے کہ اگر یہی سب کرنا تھا تو اتنے دنوں تک فلسطینیوں کو جھوٹی تسلی کیوں دے رہے تھے؟اگر یہی راستہ اختیار کرنا تھا تو فلسطینیوں کو اسرائیل کے خلاف سپورٹ کیوں کررہے تھے ؟اگر اسی نیتجے پر آنا تھا تو پھر فلسطینیوں کو آزاد ریاست کا سبز خواب کیوں دکھا رہے تھے اور اتنے دنوں تک رشتے کی معطلی کا صلہ آپ کو کیا ملا؟آپ نے تو رشتے بحال کرلئے ،تجارت ،سرمایہ کاری سب پر ڈیل کرلی ،آپ کو بدلے میں لاکھوں کروڑ کی سرمایہ کاری کا تحفہ تو مل گیا لیکن ان فلسطینیوں کو کیا ملا؟ان کا پہلے دن سے ہی نقصان ہورہا ہے ،ہزاروں کی تعداد میں فلسطینیوں کی قربانی جن عرب ممالک کے جذباتی تعاون کے بدولت ہوئی تھی ان شہیدوں کو ،ان کے اہل خانہ اور تباہ حال فلسطین کو کیا ملا،،کچھ بھی تو ایسا نہیں ہے جس کو دیکھ کر کہا جاسکے کہ فلسطینیوں نے اس طویل مدت میں کچھ پایا ہو،اب تک فلسطینی تو صرف اپنوں کھوتے آئے ہیں اور جس چیز کیلئے اپنوں کو یہ فلسطینی کھوتے آئے ہیں وہ ایک آزاد ریاست کے قیام کا خواب تھا ،جس کو شرمندہ تعبیر کرنے کیلئے ان تمام عرب ممالک نے ان فلسطینیوں سے وعدہ کیا تھا لیکن اب عالم یہ ہے کہ اپنوں نے ہی فلسطنیوں کے ساتھ ایسا سلوک کیا کہ اب وہ نہ ادھر کے رہے نہ ادھر کے۔
وقت اور حالات کے بدلنے کے ساتھ ان مسلم ممالک کے تیور بھی بدلے ،ترجیحات میں بھی تبدیلی آئی اور ملکی مفاد اس انداز میں ہاوی ہوا کہ اپنے ہی بھائی بہن کو بیچ بھنور میں بے یارو مددگار چھوڑ دیےاور یہ بھی نہیں سوچا کہ اب ان کا کیا ہوگا،یہ اور بات ہے کہ چند روایتی جملے تیار کرلئے گئے ہیں جو اسرائیل سے تعلقات بحال کرنے والا ہر ملک دوہراتا ہے کہ ’’ہم اسرائیل سے تعلقات ضرور بحال کررہے ہیں لیکن فلسطینیوں کے مطالبات کے حوالے سے ہماری جدوجہد جاری رہے گی‘‘،یہ صرف دھوکہ دینے والا جملہ ہے جس کو فلسطینی بہت اچھے سے سمجھ رہے ہیں ۔اب آگے کیا ہوگا اللہ جانے۔۔۔۔۔۔۔۔

 

Rahmat Kalim
About the Author: Rahmat Kalim Read More Articles by Rahmat Kalim: 6 Articles with 7466 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.