کرپشن فرینڈلی سوسائٹی

ہمارے معاشرے میں ہر ایک شاکی ہے کہ رشوت اورسفارش اتنی عام ہو چکی ہے کہ اس کے بغیر زندہ رہنا مشکل ہو گیا ہے۔ سرکاری محکموں میں نائب قاصد سے سیکرٹری اور وزیر تک چند ایک کے سوا سب رشوت خور ہیں۔اب تو سفارش بھی بے معنی ہو چکی ہے جب تک نقد رشوت کا تڑکا نہ لگایا جائے تو سفارش بھی کارگر نہیں ہوتی۔ سیاستدان پوری دلیری کے ساتھ اپنے ہم نوا سیاستدانوں پر کرپشن کے الزامات عائد کر رہے ہیں۔ اب تو رشوت سرکاری محکموں سے نکل کر سیاسی جماعتوں تک پہنچ چکی ہے۔ قانون ساز اسمبلی اور کشمیر کونسل کے ٹکٹ تک کوبولی لگتی ہے۔ گزشتہ دنوں ہمارے کئی سنئیر سیاسی راہنماؤں نے اپنی پارٹی قائدین پر ٹکٹ بیچنے کے الزامات لگائے اور ان کے ساتھ سالوں کی رفاقتیں ختم کردیں۔

الزامات عائد کرنا تو بہت آسان ہے لیکن کرپشن سے انکار کرنا مشکل تر ہے۔ ذرا چند لمحوں کے لیے اپنے معاشرے کا جائزہ لیتے ہیں۔ اپنے ارد گرد بسنے والے انسانوں کے رویوں کو دیکھتے ہیں، سیاسی قائدین، مذہبی شخصیات اور اصول پسندی کے علمبرداروں کے طرز عمل کو دیکھتے ہیں۔ اپنے گرد پھیلے ہوئے چند ایک مناظر پر نظر ڈالتے ہیں اور اپنے سماج کی حقیقی صورت حال کا جائزہ لیتے ہیں۔

صبح گھر سے نکلتے ہی ہمارا پہلا واسطہ سڑکوں، چوکوں، چوراہوں پر کھڑ ے ٹریفک پولیس کے اہل کاروں اور پولیس ناکوں پر مامور معمولی پولیس ملازمین سے پڑتا ہے۔ جہاں ہر وقت ایک، دو گاڑیوں کو کاغذات کی جانچ پڑتال اور گاڑی کی چیکنگ کے بہانے روکا ہوتا ہے۔ سرسری چیکنگ کے بعد معاملہ اکثر نقد وصولی پر ہی ختم ہوتا ہے۔ یہ کام وہ کسی پردے کے پیچھے نہیں ، کسی پہاڑی کی اوٹ میں بھی نہیں بلکہ سرعام کرتے ہیں اور روزانہ کرتے ہیں۔ وہاں سے گزرنے والے ہر فرد کو معلوم ہوتا ہے کہ یہ پولیس اہل کار کیا کاروائی کر رہا ہے۔ ان سڑکوں پر گزرنے والے اعلیٰ سرکاری آفیسران، سیاسی قائدین اور کارکنان، مذہبی پیشوا اور علمائے کرام، طلبہ، مزدور اور کاروباری حضرات اپنی آنکھوں سے یہ سب کچھ دیکھ رہے ہوتے ہیں اور نظر چرائے گزر جاتے ہیں۔ آج تک کسی نے بھی اس ”کاروبار“ میں کوئی مداخلت نہیں کی، کوئی اخبار نمائندہ بھی کبھی معاملات میں حائل نہیں ہوا۔ کسی آگے بڑھ کر کبھی کسی رشوت خور اہل کار کا ہاتھ نہیں روکا۔ سارا معاشرہ خاموشی سے اس عمل کی تائید کررہا ہے بلکہ دانستہ طور پر خاموش رہ کر اس رشوت خوری کی سرپرستی کر رہا ہے۔ اسی طرح دیہاتی لوگوں کو محکمہ جنگلات سے واسطہ پڑتا ہے، جہاں سارا معاملہ ہی لین دین کا ہوتا ہے۔ سب لوگ محکمہ جنگلات کے عملے کے دال پانی کا بندوبست کرتے ہیں۔

سرکاری ملازمین کو اکاونٹنٹ جنرل (اے جی آفس)سے واسطہ رہتا ہے۔ جہاں ہر کام کے لیے عام کلرک سے ڈسٹرکٹ اکاونٹس آفیسر تک ریٹس طے ہیں۔ جب تک مٹھی گرم نہیں ہوتی کوئی بل پاس نہیں ہوتا۔ اسی طرح جن لوگوں کا محکمہ لوکل گورنمنٹ اور پی ڈبلیو ڈی سے رابطہ ہوتا ہے وہ سب رشوت کو کمیشن کا نام دے کر نقد ادائیگی کرتے ہیں تو ان کے بلات آگے بڑھتے ہیں۔ محکمہ مال اور عدلیہ کے ملازمین کا معاملہ تو اس قدر سنگین ہے کہ وہاں نائب قاصد بھی پیسے لیتا ہے۔پٹواری ، گرداور، نائب تحصیلدار، تحصلیدار اور دیگر افسران کے اپنے گریڈ اور رتبے کے مطابق ریٹس ہیں۔ محض ایک ڈومیسائل ہی کو لے لیں، ہزاروں روپے ادا کرنے کے بغیر اس کا حصول ممکن ہی نہیں۔ املاک کی خریدوفروخت سے لے کر ہر معاملے میں کھلا لین دین ہے۔ محکمہ تعلیم، محکمہ زکواة جیسے مقدس اداروں میں بھی رشوت کا لین دین عام ہے۔ چھوٹے ملازمین کو چھوڑیے بڑے بڑے سیاسی عہدوں پر بیٹھے لوگ بھی ملازمتیں، تبادلوں اور پرموشنوں پر بھی رشوت لیتے ہیں۔

پورے معاشرے میں کوئی ایک نہیں جو اس رشوت خوری کے خلاف آواز اٹھائے، ان دفاتر اور ان ملازمین کا گھیراؤ کرے بلکہ ہمارا معاملہ تو یہ ہے کہ سبزی فروش سے دو روپے کم کروانے کے لیے گھنٹہ بحث کر لیتے ہیں لیکن رشوت ادا کرتے وقت کسی کو شرم نہیں آتی، اس معاملے میں اتنے فراخ دل ہوتے ہیں کہ رشوت کی رقم میں کمی کا بھی مطالبہ نہیں کرتے۔ ہم میں سے کتنے لوگ ہیں جو رشوت خوروں سے نفرت کرتے ہوں، کتنے لوگ ہیں جنھوں نے رشوت خور لوگوں کے گھروں میں رشتہ داری کرنے سے گریز کیا ہو، کتنے ہیں جنھوں نے ایسے راشی لوگوں کے گھر کھانے پینے سے پرہیز کیا ہو۔ ہمارے ہاں تو عزت اور توقیر تو ایسے ہی لوگوں کو حاصل ہے جو اپنی حیثیت اور قانونی آمدنی سے بڑھ کر معیار زندگی اختیار کیے ہوئے ہیں۔ لوگ ان سے دوستی پر فخرکرتے ہیں۔ یہ سب اس امر کی دلالت کرتا ہے کہ ہم نے کرپشن کے ساتھ سمجھوتہ کرلیا ہے۔ ہم اسے برائی ہی ماننے پر تیار نہیں۔

غور طلب بات یہ ہے کہ نبی اکرم ﷺ کے فرمان کے مطابق رشوت دینے والا اور رشوت لینے والا دونوں جہنمی ہیں۔ بیسویں صدی کے چابک دست علماءنے رشوت دینے کے لیے بھی راہ نکال لی ہے کہ اگر جائز کام کے لے رشوت دینا پڑے تو قابل مواخذہ نہیں۔ اصل بات یہ ہے کہ ہم نے کبھی کلمہ طیبہ کے معنی سمجھنے کی کوشش ہی نہیں کی۔ مسلمان ہونے کے باوجود ہمارے اندر اتنی ایمانی قوت نہیں کہ ہم اپنے رب کی ہدایت کی خاطر اپنی کسی خواہش کو قربان کر سکیں۔ ہمیں نبی اکرم ﷺ سے اتنی محبت بھی نہیں کہ ان کی اطاعت میں ہم کوئی ایک غلط کام ہی چھوڑ دیں اور کسی مالی منفعت سے انکار کر دیں۔ ہمارا اسلام اور ہمار ا دین محض زبانی ہے، عمل میں ہم سب کورے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ آج ساری ذلت، رسوائی، غربت اور ناداری ہمار ا مقدر بنی ہوئی ہے۔ یقینا جانیے، یہ ذلت اس وقت تک ہمارے سروں پر مسلط رہے گی جب تک ہم اس نظام کے خلاف بغاوت پر آمادہ نہیں ہوتے۔ تب تک راشی سیاست دان اور معمولی افسران حاکمیت کرتے رہیں گے جب تک ہم حقیقی مومن کر اس نظام سے ٹکرانے اور اسے نیست و نابود کرنے پر تیار نہیں ہو جاتے۔ بلا سوچئے نا کہ ہم ووٹ تو کرپٹ ترین لوگوں کو دیتے ہیں اور انصاف اور کرپشن سے پاک معاشرے کے قیام کی تمنا کرتے ہیں۔ یہ تو ایسے ہی ہے کہ ہم چور کو چوکیدار کی ٹوپی پہنا کر اس سے مال و زر کی حفاظت کی امید لگا بیٹھیں۔ اگر آپ کسی بھی فرد کو جائز آمدنی سے زائد خرچ کرتے ہوئے دیکھیں اور پھر سیاسی میدان اور دیگر معاملات زندگی میں اس کے حامی اور مددگار بنےرہیں تو اس کا واضع مطلب ہوگا کہ آپ جان بوجھ کر ان کرپٹ لوگوں کی سرپرستی کر رہے ہیں اور کرپشن کے فروغ کے لیے ان لوگوں کو ووٹ بھی دے رہے ہیں اور ان کو کامیاب کروانے کے لیے مکمل مدد بھی کر رہے ہیں۔

اللہ تعالیٰ نے یہ موقعہ فراہم کر کے آپ کو اپنے حضور صفائی پیش کرنے کے قابل کر دیا ہے کہ آپ کرپٹ،سیکولر نظام کے پشتی بان، برادری ازم کے پرچارک، اقربہ پرور اور قوی وسائل پر مزے لوٹنے والوں سے الگ تلگ ہوکر ان ساری برائیوں کے خاتمے کے لیے اپنا ووٹ اور اپنی ساری صلاحیتیں صرف کرنے کا ایک موقعہ دیا ہے۔ کون ہے جو شیطانوں کے ساتھ قیامت کے دن اٹھنا چاہتا ہے اور کون ہے جو ہر طرح کے تعلق ، رشتہ دار اور مفادات کو ترک کرکے معاشرے کو ان ساری برائیوں سے پاک کرنے کے لیے صالح قیادت کا انتخاب کرکے اپنے بچوں کا مستقبل بھی محفوظ کر سکتا ہے اور اپنی عاقبت بھی بچا سکتا ہے۔ ایک طرف رشتہ داری، تعلق داری اور مفادات ہیں اور دوسری طرف اللہ رب العزت کا فرمان اور قرآن کو بطور نظام مملکت بنانے کا سوال ہے۔ یہ میرا اور آپ کا امتحان ہے کہ ہم اپنے رب کے وعدوں پر ایمان لاتے ہوئے جھوٹوں کے وعدوں کومسترد کر دیں اور ان الحکم الی اللہ کی سربلندی کے لیے نیک اور صالح افراد کو قوم کی امانتیں سونپ دیتے ہیں یا قوم کا مستقبل جانے پہچانے کرپٹ لوگوں کے ہاتھوں میں دیتے ہیں۔
Atta ur Rahman Chohan
About the Author: Atta ur Rahman Chohan Read More Articles by Atta ur Rahman Chohan: 129 Articles with 106065 views عام شہری ہوں، لکھنے پڑھنے کا شوق ہے۔ روزنامہ جموں کشمیر مظفرآباد۔۔ اسلام آباد میں مستقل کالم لکھتا ہوں۔ مقصد صرف یہی ہے کہ ایک پاکیزہ معاشرے کی تشکیل .. View More