جنگل کا قانون

اس نوجوان کے چہرے پر ایسا خوف، کر ب اور اذیت تھی کہ انسان خود کر اہنے پر مجبور ہو جا ئے ایسا لگتا تھا کہ جیسے کو ئی معصوم میمنا بھٹک کر جنگل میں بھیڑیوں کے نر غے میں آگیا ہو جہا ں جنگل کا قا نون را ئج ہو وہ معا فی ما نگتا رہا گڑگڑاتا رہا اپنے آپ کو بچانے کے لیے اس نے ان ظالموں سے بہت منت سما جت کی لیکن پھر بھی اسے ما ر دیا گیا اس کی موت ہما ری جمہو ریت اورقا نو ن نا فذ کر نے والے اداروں کے چہروں پر سوالیہ نشان لگا دیا ہے اس نوجوان نے اگر کو ئی جر م کیا تھا چوری کی تھی ، ڈاکہ ڈالا تھا، کوئی قتل کیا تھا یاکچھ بھی جرم کیاتھاتو اسے گرفتا ر کیا جا تا پو لیس کے حوالے کیا جاتاملک میںقا نون اور عدا لتیں موجود ہیں جو مجرم کو سزا دینے کے لیے ہی بنا ئی گئی ہیں پھر کیو ں قانون کو اپنے ہا تھ میں لیا گیا رینجرز کو ۴۹۹۱ ءمیں کر اچی کے امن وامان کو بہتر بنا نے کے لیے تعنیا ت کیا گیا تھا کرا چی کے ٹا رگٹ کلنگ کے واقعات میں کمی تو نہیں آئی بلکہ دن بدن اس میں اضا فہ ہو تا جا رہا ہے یہی و جہ ہے عوام رینجرز کی کا ر کردگی سے مطمئن نظر نہیں آتی با ت ذرا تلخ ہے اور لا ریب کہ ہر سچ تلخ ہو تا ہے۔

۸جون کے واقعے کی میل مجھے کئی دوستوں نے میل کی خاص کر بیرون ملک سے آئی میل اس کمنٹ کے ساتھ کہ پا کستا نی اس قدر ظالم اور شقی القلب ہیں اس واقعہ سے ہمارے ملک کی جو بدنامی ہو ئی ،اس سے ہما راسر شرم سے جھک گیا ہے اس کا ہم سب کو بے حددکھ ہے اس لیے میری ہمت بھی نہیں ہو ئی کہ یہ ویڈیو دیکھوں لیکن جب ہر ٹی وی چینل پر اس ویڈیو کو درجنوں با ر دکھایا گیا تولا محالہ گھر میںچلتے پھرتے ا س کے کچھ حصوں کوچور نظروں سے دیکھتے ہوئے تقریبا پوری وڈیو قسطوں میں دیکھی سا نحہ سیالکوٹ کی ویڈیو دیکھنے کے بعد میں کئی دنوں تک گھر والوں سے چھپ کر روتی رہی تھی اپنے اللہ میاں سے سوال کر تی رہی کہ ایسا کیوں ہو ا لوگ اتنے ظالم کیو ں ہو گئے ہیں میرایہ دکھ ابھی تازہ تھا کہ خروٹ آباد میں بے گنا ہ لو گوں کی ہلا کت کا واقعہ اور اب اس نئی ویڈیو نے ہم سب کو دہلا کر رکھ دیا ہے شائد ہی کو ئی ایسا پا کستانی ہو جو اس واقعہ پر دکھی نہ ہو ا ہو یہ سوال ہر ذہن میں گو نج رہا ہے کہ ہم پا کستا نی آخر کب تک اسی طرح اپنی بے بسی پر آنسو بہا تے رہیں گے جس طرح جسم کے ایک حصے میں درد ہو تو تکلیف سارے جسم میں ہو تی ہے اسی ہم سب بھی اسی معا شرے کا حصہ ہیں افسوس ناک با ت تو یہ ہے اتنے بڑے واقعے کے بعد پو لیس الٹا مرنے والے کو ہی مو رد الزام ٹہرانے کی کو شش کرتی رہی غلط آئی ایف آر کا ٹی گئی اگر اس قتل کی ویڈیو جا ری نہ ہوئی ہو تی تواس معصوم نو جو ان کو بھی ڈاکو کا اعزاز دے کر اہل کار اپنے سینے پر بہا دری کا تمغہ لگا ئے پھرتے اوریہ قتل بھی ان سینکڑ وں جرائم میں دفن ہو جا تا جن کی کوئی ویڈیو یا فوٹیج بھی دستیاب نہ ہو سکی اور قاتل آج بھی سر اٹھا کر جی رہے ہیں ان کے ضمیر پر کو ئی بو جھ بھی نہیں یہ با ت سو فیصدی درست ہے کہ جس معا شرے کی پو لیس صحیح نہ ہو قا نون پر عمل در آمد نہ ہو تا سفارش کے بغیر ایف آئی آر نہ درج ہو تی ہو ہر غریب، ہر مظلو م پو لیس اسٹیشن جا نے کے بجا ئے ظالم کے پا س چلا جا تا ہو اس کے پا ﺅں کو ہا تھ لگا تا ہو وہا ں سے زندگی کی بھیک ما نگتا ہو ، ملک کے سیا نے مظلوم کو عدالت جا نے کے بجا ئے آپس میں مک مکا کا مشورہ دیتے ہوں اس ملک میں کیمروں سے کھینچی گئی ،تصویریں ،ویڈیو ،گو اہیاں اور ثبوت انصاف کے لیے کا فی نہیں ہوتے اس کے لیے تحقیقاتی بو رڈ ،جو ائنٹ انویسٹی گیشن ٹیم اورخود پو لیس سب کا ہو نا ضروری سمجھا جا تا ہے مگران سب کے با وجود کو ئی قاتل کیفر کردار تک نہ پہنچ سکا ہے ایسے تما م قتل مصلحتوں کے بھینٹ چڑھ جا تے ہیں ۔

جب کسی ملک کے شہری اپنے ہی ملک میں بے اما ں ، بے آسرا ہو جا ئیں ان کی زندگیوں کی حفا ظت کر نے والے ادارے ان کی زند گیوں سے کھیلنے لگیں عوام بے بس ہو جا ئے تو پھربا قی کیا رہ جا تا ہے ریا ستی ادارے ، عسکری ادارے ،جنونی دہشت گرد سب انسانی لہو کے کھیل میں مصروف ہیں سب خو ن بہا رہے ہیں کو ئٹہ کے مضا فا ت خروٹ آبا د کے واقعہ میں پو لیس اور ایف سی کے اہل کاروں کے ہا تھوں جا ں بحق ہو نے والے چیچن خا ندان کے دو خوا تین سیمت ایک ہی خا ندان کے ۵ افرا د کو قتل کر نے کا واقعہ ہوا تھا جس میں ایک خا تون کا دھا ئی دیتا ہا تھ سب سے زندگی کی بھیک ما نگ رہا تھا ان پر اس حالت پر کسی کو رحم نہ آیا آخر یہ خون نا حق کسی کے تو سر ہو گا بڑے بز رگو ں سے سنتے چلے آئیں ہیں کہ کہیں کسی کا خون نا حق ہو جا ئے تو کالی آندھی چلنے لگتی ہے ہما رے ہاں تو روزانہ ہی خون نا حق بہتا ہے تو ایسے میں ہما رے ہا ں سکو ن کی ہو ا کیسے چل سکتی ہے ۔ہم لو گ اگر اپنے معاشرے کا کیمیا ئی تجز یہ کر یں تو ہمیں جو چیز سب سے حقیر اور ارزاں اور سستی ملے گی وہ انسانی جان ہے کہ اس کی حفا ظت کے لیے نہ کو ئی بند و بست اور نہ ہی کوئی محکمہ ہے۔

ایمنسٹی انٹر نیشنل کا کہنا ہے کہ پاکستا ن میں ایسی ہلا کتوں کے واقعا ت پر قا نونی عمل داری کا ریکا رڈ بہت خراب ہے ان میں چھوٹے اہل کا روں سے لے کر بڑے افسرا ن شامل جرم ہوتے ہیں سرفراز شاہ قتل کیس کے واقعہ پر چیف جسٹس افتخا ر چوہدری نے ازخو د اس واقعہ کا نوٹس لیا ہے اور انھوں نے اس کیس کی سماعت کے دوران حکم دیا ہے کہ ڈی جی رنیجراور آئی جی سندھ کو ان کے عہدوں سے ہٹانے کا حکم دیا ہے روزانہ کی بنیا د پر اس مقدمہ کو نمٹانے کا حکم دیا ہے اس سے قبل بھی چیف جسٹس نے کئی واقعات پر سو موٹو ایکشن لیا لیکن اب تک کسی کیس کا فیصلہ نہیں ہو سکا ہے یہ پہلا مو قع ہے کہ چیف جسٹس نے اس کیس کی پہلی ہیر نگ میں ہی دونوں اداروں کے آئی جی اور ڈی جی کو ہٹا نے کا اہم فیصلہ سامنے آیا ہے مجھ سمیت تما م پا کستا نیوں کو ان کے اس فیصلے سے اس با ت کی کا اطمینا ن تو ہوا ہے کہ شا ئد اس طرح کے بڑے فیصلوں سے ہرادارے کے سر براہ کو کچھ تو اپنی ذمہ دا ریوں کا احساس ہو گا آخر ان کی بڑی بڑی تنخوا ہوں اور بھا ری مشاہروں کا بوجھ بھی ٹیکس کی صورت میں عوام ہی اٹھاتے ہیں چیف جسٹس کے اس فیصلے سے سر فراز شا ہ کے خا ندان کو کچھ تو اس با ت کی تقویت ہو گی کہ سرفراز کا خون نا حق را ئیگا ں نہیں جا ئے گا دنیا کے لیے ایک مقا م عبرت ضرورہوگا ۔
نہ مدعی ،نہ شہا دت حساب پا ک ہو ا
یہ خون خاک نشیاں تھا رزق خاک ہو ا
Ainee Niazi
About the Author: Ainee Niazi Read More Articles by Ainee Niazi: 150 Articles with 147923 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.