لکھنو، یعنی اتر پر دیش کا
دارالسلطنت ، اردو ادیبوں کا مرکز ، نوابوں اور نازک مزاجوں کا گہوارہ ،
تہذیب وتمدن کا زر خیز علاقہ ، مسلم دستکاروں کا ٹھکا نہ۔
جی ہاں ! لکھنو آئیے اوریہاں کے مسلم دستکاروں کی دستکاری دیکھئے ، واقعی
دنگ رہ جائیں گے آپ اسے دیکھ کر ۔جہاں بھو ل بھلیاں ،اما م باڑہ اور دیگر
تاریخی مقامات سے لکھنو کی شان نمایاں ہے ، وہیں مقامی دستکاری سے اس شہر
کا نا م اپنے ملک کے ساتھ ساتھ غیر ممالک میں بھی روشن ہے ۔ اس دستکاری کا
شاہکار ”چکن اور زردوزی“ہے ۔ مگران کی کہا نی سنیں گے توآپ کو حیرت بھی
ہوگی اور افسوس بھی ۔ ان زردوزوں کے استحصال میں جہاں کا رخانداروں کا
ناروا سلوک ہے تو وہیں ریاستی حکومت اور مرکزی حکومت کا افسوسناک کردار بھی
ہو تاہے ۔
زردوزی کے ایک فنکار غلام عارف سے ریاستی حکومت کی اسکیموں اور ان سے فائدہ
اٹھا نے کے تعلق سے کچھ باتیں راقم نے کیں تو اس موضوع پر کچھ بولنے کے
بجائے آب دیدہ سے ہو گئے ۔
ایک دوسر ے فنکار سے راقم کی ملاقات ہوئی تو وہ یو ں گویا ہو ئے:”غربت و
ناکامی کا میرے بچپن سے ہی چولی دامن کا ساتھ ہے ، میری عمر کوئی آٹھ دس بر
س رہی ہو گی کہ والد کا سایہ سر سے اٹھ گیا ، چارنا چاراسی زردوزی کے کا م
سے جڑ گیا ، مٹھیا کے سہا را زندگی کے پہیوں کو کھینچتا رہا ، چونکہ
نوجوانی کے عالم میں سبھی کا رخاندار اپنے اپنے یہاں کچھ زیادہ نفری کی بات
کر کے مجھے بلاتے رہتے تھے ، اس لئے اس فن کے ذریعہ معاش کا مسئلہ کسی نہ
کسی طرح حل ہو تا رہا ، کیوں کہ چند بر س قبل اتنی مہنگا ئی نہیں تھی ، مگر
اب مہنگائی کا قہر بر پا ہے تو 10گھنٹے کی مزدوری (نفری )کے اسی نو ے روپیہ
سے کچھ بھی نہیں ہو پا تاہے ، کھائیں یا بچوں کو تعلیم دلوائیں ، گھر
بنائیں یا علاج و معالجہ پر خرچ کریں؟ ۔ اس فن میں میں نے پوری عمر گزاردی
ہے ، یہ کا م انتہائی با ریک ہے ، نظرٹکتی ہے توٹکی رہتی ہے ، جس سے خدا کی
سب سے بڑی نعمت آنکھ ، گردن اور کمر پر بڑا اثر پڑتا ہے ، میر ی کمر اور
گردن میں درد شروع ہے اور آنکھیں بھی جواب دے رہی ہیں ، تجربہ یہی ہے کہ
کوئی بر س ڈیڑھ بر س بعد وہی کارخاندار جو نفری زیادہ مقرر کرکے بلا تے
تھے، مجھے نظر انداز کریں گے ، اپنے یہاں کا م پر نہیں بٹھا ئیں گے ، یعنی
چند دنوں بعد میں ایک جاندار لا ش ہو ں گا ، کوئی پر سان حال نہیں ہو گا ،
چونکہ سرما یہ کی قلت کی وجہ سے اپنے بچوں کو اعلی ٰ تعلیم نہیں دلواسکا ،
اسلئے ان سے بھی زیا دہ مد د کی کوئی امیدنہیں ، کیا کروں ؟ اپنی قسمت کو
کوسوں ؟ “۔
لکشمن نامی ایک فنکار سے گفتگو کی تھی تو انہوں نے کہا :”میں بھی زما نہ کے
نشیب وفراز کو سمجھتاہو ں ، حکومت کے وعدوں کو سمجھتاہو ں ، ہم زر دوزوں کا
کوئی پر سان حال نہیں ، اچھے اچھوں نے ہم سے وعدے کئے کہ وہ انہیں حکو مت
سے کچھ دلوائیں گے ، مگر کیا ہو ا کچھ نہیں ؟انہوں نے کہا کہ کپڑاصنعت کے
ایک وزیر ہو تے ہیں ، اس وزرات کا نا م ہے ، منسٹری آف ٹکسٹا ئلز ۔اس کے
ذریعہ 2009میں کئی فنکاروں کو کا رڈ دئے گئے ، اس زمانہ میں اچھے اچھو ں نے
حکو مت سے مدد دلوانے کاوعدہ کیا تھا ، مگر اب تک ہو ا کچھ بھی نہیں “۔
اگر چہ لکھنو اتر پر دیش کادا رالسلطنت ہے ، مگر یہا ں کی بیشتر آبا دی کی
معاش کا انحصار پتنگ اور اس کے دھا گے ، چاندی کے زیوارات اور اس کے اوراق
، کڑھائی ، چکن ،زردوزی اور انگو ٹھیوں کے پتھر پر ہے ، عورتیں بھی اپنے
ہنر کو بر وئے کا ر لا تے ہوئے اپنے گھر وں میں کا م کرتی ہیں ، بنارسی
ساڑیوں پر اپنے فن کے جوہر بکھیرتی ہیں اور کوئی سات آٹھ گھنٹوں میں 35یا30
روپیہ ہی کما پا تی ہیں ، لکھنو کے علاوہ ریا ست کے دیگر اضلاع کے فنکار
بھی اسی کسمپر سی کے شکار ہیں ، انہیں وقت پر دو وقت کی روٹی نصیب نہیں ہو
تی ۔ بنکروں کی حالت انتہائی خستہ ہے ، بنا رس کے فنکار ،جن کی ساڑیوں کی
دنیا میںدھو م ہے ، وہ بھی پریشان حال ہیں۔
ذرا غور کیجئے یہ صورتحال اس ریا ست کے فنکاروں کی ہے جہا ں کی حکومت کا
نعرہ ہے ”سروجن ہتائے اور سروجن سکھائے “۔ یہ داستان ہے اس ریاست کی کہ جس
کی حکومت کا کہنا ہے کہ ہم نے غربت و بے روزگار ی کو دور کیا ، صنعت کا ری
کو بڑ ھا یا ۔ یہ حقیقت اس ریاست کی ہے جہاں کی حکمراں جماعت کی مکھیا مس
مایا وتی اپنے یو م پیدائش اور دیگر حضرات کے یو م پیدائش و وفات پرطرح طرح
کی اسکیمیں بناتی ہیں ، بنکروں ، فنکاروں اور غریبو ں کی مدد کے اور سنہرے
باغ دکھاتی ہیں۔
ٓآئیے ذرا ! مس مایاوتی کی اس تقر یر پر نگا ہ ڈالیں جو 9فروری 2011کو
ریاستی اسمبلی میں اپنے دفاع میں انہوں نے کی ہے :”قانون کے ساتھ ساتھ ترقی
کے معاملہ میں بھی ہماری حکومت نے دلت اور دوسری پچھڑی ذاتوں میں وقت وقت
پر پیدا مہان سنتوں ، گرووں اور مہا پر شوں میں خاص طور سے ”مہاتما جیوتی
باپھلے،چھتر پتی شاہو مہا راج، نارائن گرو،بابا بھیم راؤ امبیڈکر اور مانیو
رکانشی رام جی “ کو مختلف شکلوں میں عزت و اعزاز دیتے ہوئے اور ان کے بتائے
ہوئے راستوں پر چل کر ہر معاملہ میں ”سروجن ہتائے اور سروجن سکھائے “ کی
پالیسی پر حکومت چلائی ہے اور ریاست کی ترقی کے ساتھ ساتھ سروس سماج کے
مفاد میں اور اس میں بھی خاص طور سے غریب لو گو ں ، دلت دوسرے محروم طبقوں
اور مذ ہبی معاملا ت میں ترجیح دیتے ہوئے کثیر عوامی مفاد کے کا م کئے ، جن
میں ریاستی حکومت کے ذریعہ چلنے والے بہت سی اسکیمیں ہیں ، مثلا ً:
(۱)ڈاکٹر امبیڈکر گرام سبھا ترقی اسکیم
(۲)ساوتری بائی پھلے بالیکا تعلیمی مدد
(۳)مہامایا غریب بالیکا آشیرواد اسکیم سروجن ہتائے
(۴)شہری غریب مکان(سلم ایریا )مالکانہ حق اسکیم
(۵)مانیور شری کا نشی رام جی شہر ی غریب آواس اسکیم
(۶)مہامایا آواس اسکیم
(۷)مہامایا سروجن آواس اسکیم
(۸)نجی ٹیو ویلوں کی بجلی لگانے کی نئی اسکیم
(۹)ڈاکٹر امبیڈکر مفت بو رنگ اسکیم
(۰۱)اتر پردیش وزیر اعلیٰ مہا مایا غریب مالی مدد اسکیم
(۱۱)ڈاکٹر امبیڈکر زراعت بجلی سدھا ر اسکیم
(۲۱)اتر پر دیش مفاد گارنٹی قانون
(۳۱)وزیر اعلی مہا مایا موبائل اسپتال اسکیم وغیر ہ “۔
یہ ہے اسکیم کی ایک لمبی فہر ست ،لیکن سوال یہ ہے کہ ان لمبی لمبی اسکیموں
سے مز دوروں ، دلتوں اور فنکاروں کو کتنا فائدہ ملا ؟کتنوں کو مکانا ت مل
گئے ؟ اگر جائزہ لیں اور اخباروں میں شائع تحریروں پر یقین کریں توکسی بھی
اسکیم سے کسی بھی فرد کا کوئی فائدہ اس طرح نہیں ہوا جیسا کہ ہو نا چاہئے
تھا ۔ جب ان اسکیموں سے شہری فنکارہے اور مزدور فیضیا ب نہیں ہو پا رہےں تو
دیہاتی مزدوروں کو پو چھے کون؟اس لئے ریاستی حکومت کو ادھر توجہ دینے اشد
ضرورت ہے ، عوامی فلا ح کے لئے کچھ کرنے کی ضرورت ہے ۔
اس موقع سے یہ ریکا رڈ بھی قلمبند کرنا مناسب معلوم ہوتا ہے کہ”ملک میں
حقوق انسانی کی پامالی کے گزشتہ تین سالہ واقعات میں اتر پر دیش
1لاکھ63واقعات کے ساتھ سرفہرست ہے ، جبکہ قومی راجدھانی 16ہزار 871معاملوں
کے ساتھ دوسرے نمبر پر ہے ۔“
فنکاروں ، کاریگروں اور بنکروں کے لئے تو اوپر اتر پر دیش حکومت کی جانب سے
اسکیمیں تھیں ، مگر اب مرکزی حکومت کی چند اسکیموں پر نگاہ ڈالیں :
(۱)راجیو گاندھی شلپی سواستھ بیمہ یو جنا۔ جس کا مقصد ملک میں معاشی لحاظ
سے کمزور فنکاروں اوران کے اہل وعیال کو بہتر طبی سہو لیات فراہم کرانا ہے
۔
الف:فنکاروں کی حادثاتی مو ت پر ایک لا کھ روپئہ ان کے ورثہ کو دیا جائے گا
۔
ب:میڈیکل میں ہر سال 15ہزار تک چھو ٹ دی جائے گی ۔
(۲)بیمہ یو جنا فار ہنڈ یکرافٹ آرٹیز نس ،اس سے ہروہ ہنر مند مرد وخواتین
جن کی عمر 18سے 60برس کے درمیان ہو ، لائف انشورنس کا فائدہ حاصل کرسکتے
ہیں ۔
الف: اس سے جن شری بیمہ یو جنا کا بھی فائدہ اٹھا یا جا سکتا ہے۔
ب:اس کے تحت قدرتی موت پر 30ہزار ہر ممبر (مرنے والے کی بیوی اور دو
بچوں)کو دئے جائیں گے ۔
ج:اگر کسی کا ریگر یا اس کے خاندان کے دو ممبران میں سے کسی کی حادثاتی موت
پر 75ہزار روپئے دیے جائیں گے ۔
یہ چند اسکیمیں ہیں مرکزی حکومت کی جانب سے ، ان فنکاروں کے لئے ۔مگردیکھنے
کی بات یہ ہے کہ ان سے فائدہ حقیقتاً کتنے غریب لوگ اٹھا پاتے ہیں ؟۔ |