رفتہ رفتہ تما م مسلم ممالک میں
عوامی بیدار ی کی لہر پہنچ رہی ہے ۔ تیونس ، مصر ،یمن ، بحرین ، شام ،
لیبیا ،اردن کے راستے عوامی احتجاج کا سلسلہ کویت میں بھی شروع ہو چکاہے ۔
چنانچہ یہ سوال ذہنوں میں گردش کرنے لگا ہے کہ کیا اس بیداری سے مسلم ممالک
کا کوئی فائدہ ہے ؟ کیا مساجد اوردیگراملاک کے ضائع ہونے میں عالم اسلام کا
مفاد ہے ؟ کیا یہ ہنگامی ماحول تما م مسائل کا حل ہے ؟ اگرواقعی اس
دھماچوکڑی اورہڑبو نگ سے عالم ا سلام کا کوئی مفاد وابستہ ہے توبقیہ تمام
ممالک کے باشندوں کو سڑک پر آکرحکومت کے خلاف نعرے بازی شرو ع کردینی چاہئے
۔ اگر جواب نفی میں ہے تو اس بیداری کی لہر کا تیز ترہونا مسلم ممالک کے
حکمرانوں کی ناعاقبت اندیشی کا ثبوت ہے ۔ یہ ان کی مردہ ضمیری ، قساوت قلبی
اوربے حسی کی انتہاہے ۔
بعید از امکان نہیں کہ اب یہ لہر اپنی زد میں سعودی عرب کو بھی لے لے ۔ اس
کا اندازہ وہاں کے حکمرانوں کو بھی ہو گیا ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ سعودی نے
اردن اورمراکش کو خلیج تعاون کونسل کا رکن بننے کی تجویز پیش کردی ہے ۔
مہرخبر رساں ایجنسی کے مطابق سعودی حکمراں نے پاکستان ، انڈونیشیا ، ملیشیا
اور مرکزی ایشاکے ممالک سے مذکرات کئے ہیں اوران سے بحرین کے باشندگان کو
کچلنے اورامریکہ نواز حکومت کی حمایت کرنے کی درخواست کی ہے ۔
سعودی عرب سے مسلم باشندگان عالم کی بہت سی امیدیں وابستہ رہتی ہےں، تاہم
اب اس پر سے ان کا اعتماد اٹھنے لگا ہے ۔ اس کی حالیہ تمام روش نے مکمل طور
پر اسے سوالات کے گھیرے میں کھڑا کردیا ہے ۔ اس لئے اب تو اسے اپنے عوام کے
عتاب سے بھی بچنے کی فکر لگی ہوئی ہے ۔مسلم ممالک کی جو صورتحال ہے ، اس کے
خاتمہ کے لئے اسے پہل کرنی چاہئے تھی ،مگر امریکیوں کی ہاں میں ہاں کرنا
وہاں کے حکمرانوں نے اپنا فریضہ تصور کرلیا ہے ۔ یہ الگ بات ہے کہ امریکہ
اس کی ہرہاں میں ہاں نہیں کرتا۔ حسنی مبارک کے تئیں اس نے امریکہ پر
زورڈالاتھا کہ اس کی حکومت کو بچانے کی کوشش کرے ،مگر امریکہ نے اس کی ایک
نہیں مانی ۔ کیونکہ امریکہ کو ایران کے اسلامی انقلاب میں رضا پہلوی کی
حمایت کا خمیازہ بھگتنا پڑ چکا ہے ۔ سعودی حکمراں کو مسلم ممالک کے عوام کی
ذرا بھی لاج نہیں ، اسلئے تو وہ ڈکٹیٹر حکمراں کی لفظی تائید ہی میں نہیں
بلکہ عملی حمایت میں سرفہرست ہے۔ عوام کے معتوب علی زین العابدین کو
سرآنکھوں پر بٹھایا ، مصر کے مغضوب حسنی مبارک کو آنکھو ں کا تارا بنایا ،
صدر علی عبد اللہ صالح کو سینے سے لگا یا ۔ ان کی ان سب حرکتوں نے وہاں کے
عوام کو توکجا ، پورے عالم اسلام کو سوچنے پر مجبور کردیا ہے، بہت سے ان کی
روش پر تشویش کا اظہا رکررہے ہیں ۔ فارس نیوز کے مطابق سعودی عرب کے
250مصنفین اور دانشو ران حکومت کی اشتعال انگیز اقدامات سے نالاں ہیں اور
سخت تشویش کا اظہار کر رہے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ غیر ملکی ڈکٹیٹروں کو پنا
ہ دینے کے ساتھ ساتھ یہاں کی حکومت نے بے شمار ایسے باشندوں کو جیل کی
سلاخوں کے پیچھے ڈال دیا ، جوبے گنا ہ ہیں ۔
عوام کا استحصال صرف سعودی حکومت ہی نہیں کررہی ہے بلکہ جن جن ممالک میں
بیداری کی لہر ہے وہاں کے حکمرانوں نے اپنے عوام کاخون پانی سے بھی زیادہ
ارزاں تصور کرلیا ہے ، اس لئے وہ بنیادی حقو ق سے بھی محروم ہیں ۔ جمیعت
الوفاق ملی کی خبر کے مطابق آ ل خلیفہ کی سیکو رٹی فورسز عوام کو مسجد جانے
سے روک رہی ہے ۔ ہر گلی کو چہ پر چیک پوسٹ بٹھادی ہے ۔ یہ اطلاع بھی دلدوز
ہے کہ آل خلیفہ اور آل سعود کے ایما پر مساجد کی شہادت کا سلسلہ جاری ہے ۔
گزشتہ تین ماہ میں متعدد مساجد قانونی اجازت اورملکیتی سند کے باوجود زمیں
بوس کر دی گئیں ۔ بزعم خود اسلام پسند سمجھنے والی حکومتوں کامساجد کے تئیں
رویہ کس قدر ناروااورقابل افسوس ہے ، اس پر کچھ کہنے کی قطعی ضرورت نہیں ۔
مساجد شہید کرتے ہوئے انہوں نے کسی کی کوئی پروانہیں کی ، اسلامی تعلیمات
کو پس پشت ڈال دیا ، یہاں تک کہ ملکی سند کو بھی کوئی اہمیت نہیں دی ۔
مگرجب امریکہ نے بظاہر مساجد کی شہادت کو غلط قراردیا تو ان کے حکمراں نے
دوبارہ مساجد تعمیر کا اعلان کردیا ۔ بات بالکل واضح کہ اسلامی تعلیمات کی
کیا اہمیت ، مساجد کی حرمت کی کیا وقعت ، ہمیں توصرف اپنے آقا امریکہ کی
ہاں میں ہاں ملانا ہے !!
ایک دفعہ پھر وہی سوال کہ اس بیداری سے کیا مسلم ممالک کا کوئی فائدہ ہے ؟
اگرنہیں تو اس لہر کو سرد کرنے کی مشترکہ کوشش کیوں نہیں ہورہی ہے ؟ کیا
ہنگامی ماحول میں تما م موجودہ حکمرانوں کی دستبردار ی سے ہی سارا مسئلہ حل
ہو جائے گا ؟ علی زین العابدین عوامی لہر کے سامنے سپر ڈال کر ملک چھوڑ آئے
۔ حسنی مبارک نے مجبوراً استعفیٰ دے دیا ، مگر کیا ان کے مستعفیٰ ہونے سے
وہاں کی حکومتی باگ ڈور انصاف پسند اشخاص کے ہاتھوں آگئی ؟ کیا اس کی ضمانت
مل گئی کہ آنے والے حکمراں حکومت کو اپنی جاگیر نہیں تصور کریں گے ؟ کیا اب
عوام کے پسندیدہ اشخاص ہی مسند اقتدار پر متمکن ہوں گے ؟ اس کا جواب
دودوچار کی طرح عیاں ہے کہ موجودہ حکمرانوں کی یونہی بے دخلی سے منظم سیا
ست کا قیا م از خود عمل میں نہیں آجائے گا ، بلکہ عوام کو زد وکوب سے بچانے
کے لئے چند ایسے قوانین وضع کرنے ہوں گے ،جن کے ذریعہ معتمد علیہ اورقابل
اشخاص کا انتخاب ہوسکے ۔
”انتخاب “کا لفظ ہی واضح کرتاہے کہ اب موروثی اور خاندانی بادشاہت کا خاتمہ
ہو ، جمہوریت کی بحالی ہو ، تاکہ حکومت کو جاگیر تصورکرنے والوں کا پتہ صاف
ہوسکے ۔ ورنہ تو اس بیداری کی لہر سے بجائے فائدے کے ان ممالک کا زبر دست
نقصان ہو گا ۔ بے شمار بچے سسک سسک کر دم توڑ دیں گے ، نہ جانے کتنے سہاگ
اجڑ جائیں گے ، سیکڑوں گودیا ں ویران ہوجائیں گی اور ملک کی معیشت پر بھی
اس کا گہرا اثر ہوگا ۔
ایک ممکنہ سوال یہ ہوسکتاہے کہ کیا جمہوریت میں اس بات کی مکمل ضمانت ہے کہ
حکمراں عوام کا استحصال نہیں کریں گے ؟ اس کے جواب کےلئے ہمیں اس بات کو
ذہن میںبٹھالینا ہوگا کہ سیا ست سے مذہب کو الگ کر کے کسی بھی طرزحکومت سے
مکمل طورپر عوام کا خیال نہیں رکھا جاسکتاہے ۔ ہاں اتنی بات ضرور کہی
جاسکتی ہے کہ اگر جمہوریت کی بحالی ہوگی تو حکومت کو اکھاڑ پھینکنے میں اس
قدر خون خرابہ نہیں ہوگا ۔ بے مروت حکمراں کو سبق سکھانے کے لئے جمہوری
ہتھیار کافی ہوگا ۔ کیا اتنی گنجائش جمہوریت میں ہے؟ |