سعودی عرب میں عدالتی نظام میں اصلاحات کیلئے نئے قوانین کی ضرورت کیوں۔؟

مملکت سعودی عرب جو اسلامی ملک ہی نہیں بلکہ عالمِ اسلام کیلئے مرکزی حیثیت رکھتا ہے اور یہاں پر اسلامی قوانین کا نفاذ ہے لیکن موجودہ شاہی حکومت ان اسلامی قوانین میں کس قسم کی تبدیلی لانا چاہتی ہے یہ تو نئی قانون سازی کے بعد ہی پتہ چلے گا۔ ذرائع ابلاغ کے مطابق سعودی ولیعہدشہزادہ محمد بن سلمان نے کہا ہے کہ سعودی عرب میں عدالتی نظام میں اصلاحات کیلئے نئے اور خصوصی قوانین بنائے جارہے ہیں۔ نئے قوانین میں عائلی (ازدواجی زندگی سے متعلق )امور کا قانون ، شہری امور کا قانون، تعزیری سزاؤں کیلئے فوجداری قانون اور دعوؤں کے اثبات کا قانون شامل ہے۔ ذرائع ابلاغ کے مطابق ولیعہد کا کہنا ہیکہ سعودی عرب حالیہ برسوں کے دوران نئی قانون سازی کی جہت میں ٹھوس اقدامات کرتا رہا ہے اور نئے قوانین بنائے گئے۔ بتایا جاتا ہے کہ حقوق کے تحفظ کے قوانین میں اصلاحات کی گئیں۔ انصاف، شفافیت اور انسانی حقوق کے تحفظ کے اصول استوار کیے گئے ۔ جامع ترقی کو یقینی بنایا گیااس طرح عالمی سطح پر مسابقت کے سلسلے میں سعودی عرب کی پوزیشن مضبوط بنائی گئی۔ یہ کام واضح ، متعین ، اصولی اور ادارہ جاتی سطح پر انجام دیئے گئے۔ ولیعہد کے مطابق ان دنوں عائلی امو رکے قانون کا مسودہ تیار کیا جارہا ہے اسے جلد کابینہ اور اس کے متعلقہ اداروں کے حوالے کیا جائے گا۔ بتایاجاتا ہے کہ یہ ادارے قانون سازی کے اصولوں کے مطابق ان پر نظر ثانی کرینگے پھر اسے مجلس شوریٰ بحث کیلئے بھیجا جائے گا اور رائج الوقت قانونی نظام کے مطابق اسے جاری کیا جائے گا۔ محمد بن سلمان کا کہنا ہے کہ اوپر دیئے گئے چار مذکورہ قوانین کا مسودہ اجرا کے بعد میں اصلاحات کی ایک نئی لہر پیدا کرے گا۔ اس سے عدالتی اداروں کی کارکردگی بہتر ہوگی۔ اعتبار کا ماحول مضبوط ہوگا اور شفافیت کی سطح بڑھے گی۔ ولیعہد کے مطابق مجوزہ قوانین نہ ہونے کی وجہ سے متعدد مسائل پیدا ہوئے۔ عدالتی فیصلوں میں تضاد دیکھا گیا۔ مقدمات کو نمٹانے میں تاخیر کا سامنا کرنا پڑا۔ علاوہ ازیں افراد اور سرمایہ کاروں کے حوالے سے واضح قانونی فریم نہ ہونے کے باعث دشواریاں پیش آئیں۔ شہزادہ محمد سلمان کا مزید کہنا ہیکہ یہ ماحول متعدد افراد و خاندانوں خصوصا خواتین کیلئے تکلیف کا باعث بنا اس کی وجہ سے کئی لوگ اپنے فرائص سے جان چھڑانے میں کامیاب ہوگئے تاہم نئے قوانین کے اجرا کی صورت میں اس قسم کے واقعات دوبارہ نہیں ہونگے۔ ولیعہد نے واضح کیاکہ چند برس قبل عدالتی فیصلوں کا ریکارڈ تیار کیا گیا تھا۔ مطالعے سے پتہ چلاکہ اس سے معاشرے کی ضرورتیں پوری نہیں ہوسکیں گی۔ معاشرے کی امنگیں اس سے حاصل نہیں ہوسکیں گی۔ اسی تناظر میں مذکورہ چار قوانین کے مسودے تیارکرنے کا پروگرام بنایا گیا ۔ علاوہ ازیں نئے بین الاقوامی عدالتی فیصلوں اور جدید ترین قانونی رجحانات کو بھی مدنظر رکھا جارہاہے تاکہ نئے قوانین شرعی احکام سے نہ ٹکرائیں اور سعودی عرب نے نئے بین الاقوامی معاہدوں اور دستاویزات میں جو عہد و پیمان کیے ہیں ان کا بھی لحاظ کیا جائے۔ولیعہد کے مطابق سعودی عرب میں قانون سازی کا عمل جاری و ساری ہے اور سال رواں کے دوران مجوزہ قوانین منظوری کے بعد جاری کردیئے جائیں گے۔

سعودی عرب میں اسلامی قوانین لاگو ہیں، سوال پیدا ہوتا ہے کہ کیا اسلامی قوانین مکمل نہیں ہیں؟ جبکہ اﷲ رب العزت نے حجۃ الوداع کے موقع پر آقائے دو عالم صلی اﷲ علیہ و سلم پر وحی نازل فرماکر کہہ دیا کہ ’’آج میں نے تمہارے لئے تمہارا دین کامل کردیا اور تم پر اپنی نعمت پوری کردی اور تمہارے لئے اسلام کو دین پسند کیا ۔تو جو بھوک پیاس کی شدت میں ناچار ہو یوں کہ گناہ کی طرف نہ جھکے تو بے شک اﷲ بخشنے والا مہربان ہے‘‘۔(سورۃ المائدۃ ۔آیت ۳)جب اﷲ رب العزت نے خود دین کے مکمل ہونے کا اعلان کیا ہے تو پھر کیا اسلامی قانون میں کسی قسم کی کمی رہ گئی ہے جو بین الاقوامی عدالتی فیصلوں اور جدید ترین قانونی رجحانات کو مدّنظر رکھ کر سعودی عرب نئی قانون سازی کررہا ہے؟اسلامی قوانین تاقیامِ قیامت تک کے لئے ہیں۔ خیر شاہی حکومت اپنے ملک کے اندر کسی بھی قسم کا قانون بناسکتی ہے کیونکہ حکمراں اپنی مرضی کے مطابق فیصلے چاہتے ہیں اسی لئے قانون میں ردّوبدل کیا جاتا ہے۔ یہاں یہ بات قابلِ ذکر ہے کہ جب بین الاقوامی عدالتی فیصلوں اورجدید ترین قانونی رجحانات کو مدّنظر رکھ کرنیا قانون بنایا جارہا ہے اور کہا جارہا ہے کہ نئے قوانین شرعی احکام سے نہ ٹکرائیں گے کیا یہ ممکن ہے کہ جدید ترین قوانین بین الاقوامی قوانین کے مطابق بنائے جائیں گے تو شرعی قوانین سے نہ ٹکرائیں گے اگر ایسا ہوتا ہے تو بہت اچھی بات ہے لیکن جس طرح سعودی عرب میں ویژن 2030کے تحت ترقیاتی منصوبوں کے ذریعہ مغربی ویوروپی ماحول کی طرف آہستہ آہستہ جھکاؤ بڑھتا جارہا ہے اس سے ایسا ممکن دکھائی نہیں دے رہاہے۔

سعودی میں کورونا وائرس میں مبتلا پائے جانے پر مساجد بند
بیشک بیماری اور موت اﷲ ہی کے اختیار میں ہے ، اﷲ رب العزت نے انسانوں کی صحتمندی کیلئے اسلامی احکامات پر عمل آوری اور نواہی سے بچنے کی تلقین کی ہے۔ بیماری اور موت کبھی بھی ، کسی بھی وقت آسکتی ہے اور یہی ایک سچے مومن کی پہچان ہے اور اسکا ایمان ہے۔عبادات کیلئے مساجد کا بند کرناکہاں تک سچ ہے یہ وہی لوگ بہترجانتے ہیں جو ایسا کررہے ہیں۔ ہم مسلمانوں کا ایمان اتنا کمزور ہوگیاہے کہ بیماری و موت کے خوف سے اجتماعی عبادات سے بھی کنارہ کشی اختیار کررہے ہیں۔ کئی مساجد میں آج بھی دیکھا جارہا ہیکہ بعض مصلی حضرات بیماری اور موت کے خوف سے چہرے پر توماسک لگا رہے ہیں لیکن سروں پر ٹوپی پہننے سے گریز کرتے ہیں۔ جبکہ آقائے دوعالم صلی اﷲ علیہ و سلم کی سنت مبارکہ ہے کہ سر پر ٹوپی پہن کر نماز پڑھیں۔سعودی عرب جو عالمِ اسلام کیلئے مرکزی حیثیت رکھتا ہے، جہاں سے مسلمانوں کو ہمت و حوصلہ ملنا چاہیے تھا ،وہیں پر مساجد کے بند کئے جانے خصوصاً حرمین شریفین میں اتنی احتیاط کہ دنیا بھر کے مسلمانوں کیلئے پریشانی کا باعث بن رہی ہے۔ کورونا وائرس کے آغاز کے بعد حرمین شریفین کے بندکئے جانے سے دنیا بھر کے تقریباً تمام ممالک میں اس کی تقلید کرنی پڑی اور مسلمانوں کو جہاں پر وہ مساجدمیں نماز پڑھ رہے تھے حکومت اور پولیس یا سیکیوریٹی اداروں کی سختی کی وجہ سے مساجد کو بند کرنا پڑا۔کورونا وائرس کی دوسری لہر کے نام پر مملکت سعودی عرب نے 20ممالک بشمول انڈیا اور پاکستان کے فضائی سفر بھی پابندی عائد کردی ہے اور اب مملکت کی بعض مساجد کو چند افراد میں وائرس پائے جانے کی بناء پر بند کیا جارہا ہے۔سعودی ذرائع ابلاغ کے مطابق سعودی وزارت اسلامی امور و دعوت و رہنمائی نے 28نمازیوں کے کورونا وائرس میں مبتلا پائے جانے پر ملک کے متعدد علاقوں میں منگل 9؍ فبروری کو 8مساجد عارضی طور پر بند کردی گئیں تھیں اور دوسرے روز مزید 14مساجد بند کردی گئیں ۔ دو روز کے دوران بند کی جانے والی مساجد کی تعداد 22ہوگئی ۔ بتایا جاتا ہے کہ ان میں سے چھ مساجد سینیٹائزنگ کے بعد کھول دی گئیں ۔ ذرائع ابلاغ کے مطابق بتایا جاتا ہے کہ مساجد کو بند کرنے کا فیصلہ نمازیوں کی صحت وسلامتی کو یقینی بنائے جانے کی خاطر کیا جارہا ہے۔ یہ مساجد دارالحکومت ریاض کے راستے میں واقع محلوں اور ملک کے دیگر حصوں میں ہیں ۔ وزارت اسلامی امور کے مطابق سینیٹائزنگ اور حفاظتی تدابیر مکمل کرنے کے بعد مساجد دوبارہ کھول دی جائیں گی ۔ وزارت نے نمازیوں کو تاکید کی کہ وہ مقررہ حفاظتی تدابیر کی پابندی کریں۔ خاص طور پر حفاظتی ماسک کا استعمال کریں۔ جانماز ساتھ لائیں اور وبا سے بچنے کیلئے سماجی فاصلہ قائم رکھیں۔ واضح رہے کہ کورونا وائرس کے باوجود کئی شہروں اور ملکوں میں تقریباً تمام کاروبار اور دیگر سرگرمیاں خصوصاً شادی بیاہ اوردیگر تقریبات دوبارہ پہلے ہی کی طرحہورہی ہیں۔ کاش مساجد کی بندش اور نمازوں کے موقع پر احتیاطی اقدامات کی طرح ان تقریبات کے انعقاد کیلئے بھی حکومتیں سخت رویہ اختیار کرتے ۰۰۰ویسے سعودی عرب میں تقریبات اور دیگر سرگرمیوں میں عوام کے اژدھام کی اجازت نہیں ہے اور سختی سے احتیاطی اقدامات پر عمل کیا جارہا ہے۔

بحرین میں بھی دو ہفتے کیلئے مساجد بند
ایک اور عرب ملک بحرین میں بھی دو ہفتوں کیلئے مساجد بندکرنے کا حکومت نے اعلان کیا ہے۔ بتایا جاتا ہے کہ کورونا وائرس کے کیسوں کو پیشِ نظر رکھ کر جمعرات 11؍ فبروری سے دو ہفتوں کیلئے مساجد بند کرنے کیا فیصلہ کیا گیا ہے ، بحرین وزارتِ انصاف و اسلامی امور نے مساجد بند کرنے کے ساتھ مذہبی پروگرام بھی دو ہفتوں کیلئے معطل رکھنے کا اعلان کیا ہے۔ مساجد بندکرنے اور مذہبی پروگرام پر پابندی عائد کرنے کا یہ فیصلہ نمازیوں اور مقیم غیر ملکیوں کے تحفظ کیلئے بتایا جارہا ہے۔

ترکی 2023میں چاند پر قدم رکھے گا۰۰۰طیب اردغان
ترک صدر طیب رجب اردغان نے انقرہ میں ملت کنونشن اور کلچرل سینٹر میں ترکی کے قومی خلائی پروگرام کا باقاعدہ آغاز کیا، انہوں نے تقریب کے مہمان خصوصی کی حیثیت سے خطاب کرتے ہوئے کہاکہ صدیوں سے اس کرہِ ارض پر انصاف، اخلاق اور امن کی رہنمائی میں پیش پیش ہماری تہذیب اب خلاؤں کا رخ کرے گی۔اردغان نے کہا کہ اس قومی خلائی پروگرام کا پہلا ہدف جمہوریت کے ایک سوسال یعنی سنہ 2023تک چاند کی سطح پر قدم رکھنا ہوگا۔ انہوں نے کہاکہ 2023کے اواخر تک پوری دنیا ترکی کے مقامی طور پر تیار کئے جانے والے ہائی برڈ راکٹ کی چاند پر آمد کا نظارہ دیکھے گی، انہوں نے کہاکہ ہماری تہذیب کا آئینہ دار ستارہ و ہلال کا حامل سرخ پرچم چاند پر نصب کیا جائے گا جبکہ اس حوالے سے ہمارا ایک اور ہدف کسی ترک شہری کو خلا کیلئے روانہ کرنا ہے۔ صدر ترک کا کہنا ہیکہ یہ سفر کوئی سیاحتی نوعیت کانہیں بلکہ اس سفر کے ذریعہ ہم اپنی آنے والی نسلوں کیلئے ایک نئی سائنسی راہ ہموار کریں گے۔ دیکھنا ہیکہ کیا ترکی واقعی اپنے شہری کو اپنی تیار کردہ ہائی برڈ راکٹ کے ذریعہ چاند میں بھیجنے میں کامیاب ہوجائے گا۔

ترکی اور دیگر ممالک کے درمیان تعلقات
ترکی دیگر ممالک کے ساتھ اپنے تعلقات کو بہتر اور مستحکم رکھنے کے سلسلہ میں لگاتار سرگرمِ عمل دکھائی دیتا ہے۔ ایک طرف ترک صدر رجب طیب اردغان اور جرمن چانسلر انگیلا مرکل کے درمیان ویڈیو کانفرنسنگ کے ذریعہ بات چیت ہوتی ہے اور دونوں ممالک کے درمیان بات چیت میں تعاون کے فروغ سمیت ترکی ۔یوروپی یونین تعلقات اور دیگر علاقائی مسائل پر غور کیا گیا ۔ اس موقع پر صدر ترک نے کہا کہ یوروپی یونین کا ترکی سے منصفانہ اور تعمیراتی موقف اپنایا جانا دو طرفہ مفادات میں ہوگا اور اس سلسلے میں ضرورت اس بات کی ہے کہ مطابقت کے تحت غیر قانونی مہاجرین کی قبولیت کے عوض ترکی شہریوں کیلئے بلاویزہ یورپ کی سیاحت کا وعدہ پورا کیا جائے۔ اس طرح اردغان مرکل سے بات چیت کے موقع پر کہا کہ ترکی یورپی یونین سے تعلقات میں مفید پیشرفتوں کا عزم رکھتا ہے اور اسے امید ہیکہ اگلے ماہ یورپی یونین سے تکینکی مذاکرات کا آغاز کردیا جائے گا۔ ترک نائب صدر فواد اوکتائے سے ترکی میں موجود جاپان کے متعینہ نئے سفیر کازوہیروسوزو سے ملاقات کی۔ اس ملاقات میں دونوں ممالک کے مابین تجارتی، اقتصادی ، ٹیکنالوجی اور ثقافتی عنوانات دفاعی شعبہ جات کے امور پر غور کیا گیا۔ ترکی اور پاکستان کے درمیان ’’اتا ترک فوجی مشقیں 2021‘‘ خیبر پختون خوا کے علاقے تربیلا میں باقاعدہ تقریب کے ساتھ شروع کی گئیں یہ مشقیں تین ہفتے جاری رہیں گی، ان مشقوں سے متعلق کہا گیا ہیکہ یہ دو برادر ملکوں کے درمیان روابط کو مزید تقویت ملے گی۔ یہاں یہ بات قابلِ ذکر ہیکہ ترکی اور پاکستان کمبائن کمانڈو اور اسپیشل فورسز مشقیں 1998ء سے دونوں ملکوں کے درمیان باری باری سے منعقد ہوتی چلی آرہی ہیں۔ ترکی میں جاری مشقوں کو ’’جناح مشقوں‘‘ اور پاکستان میں جاری مشقوں کو ’’اتاترک مشقوں‘‘ کا نام دیاجاتا ہے۔اسی طرح ترک مسلح افواج اور قطر ملٹری پولیس کی چار ہفتوں سے جاری فوجی مشقیں اختتام کو پہنچی۔ قطر کی وزارت دفاع کی جانب دے دیئے گئے ایک بیان کے مطابق یہ مشقیں جنگی صلاحیتوں میں اضافے، قطری اور ترک فوج کے مابین تجربے کا تبادلہ اور فوجی تعاون کو مستحکم کرنے کا مقصد ہے۔

متحدہ عرب امارات کا خلائی مشن مریخ میں داخل
متحدہ عرب امارات کا خلائی مشن ’’ہوپ پروب‘‘ (الامل)چھ ماہ کے طویل خلائی سفر کے بعد کامیابی سے مریخ کے مدار میں داخل ہوگیا ہے۔ اس موقع پر محمد بن راشد خلائی مرکز میں مشن کی کامیابی پر جشن کا سماں تھا۔ مشن کی کامیابی سے متحدہ عرب امارات مریخ پر پہنچنے والا پانچواں ملک بن گیا ہیجبکہ اس سے قبل امریکہ، انڈیا، سابق سوویت یونین اور یورپی خلائی ایجنسی کامیابی کے ساتھ مریخ پر پہنچ چکے ہیں۔ ابو ظبی کے ولیعہد شیخ محمد بن زاید اور دبئی کے حکمراں شیخ محمد بن راشد نے مرکز میں موجود عملے کو مبارکباد دی۔شیخ محمد بن زاید نے اپنے ٹوئٹ پیغام میں کہا کہ مریخ تک خلائی مشن کا سفر شیخ زاید سے شروع ہوا تھا۔ الامل خلائی مشن ورکنگ ٹیم نے اسے منطقی انجام تک پہنچا دیا ہے ۔ انہوں نے کہا کہ ہم اماراتی عوام، امت مسلمہ ، عربوں اور دنیا بھر کے انسانوں کو 2021میں مریخ پر پہلے خلائی مشن کے پہنچنے کی مبارکباد پیش کرتے ہیں۔ آج سے عربوں کی سائنسی تاریخ کا نیا مرحلہ شروع ہوگیا ہے۔ اس مرحلے کا عنوان ’اعتماد‘ ہے۔ اپنے اوپر نوجوانوں اور عرب اقوام پر اعتماد۔ یہ اعتماد کہ ہم دنیا کی دیگر اقوام کے حریف بن سکتے ہیں۔ایک ٹوئٹ میں شیخ محمد بن زاید نے کہا کہ ’’ خلائی مشن الامل کے مریخ پہنچنے پر امارات اپنی پچاسویں سالگرہ تقریبات شروع کررہا ہے۔ ہماری تقریبات مختلف ہیں۔ سائنسی، تمدنی، اور الہامی تقریبات ہیں۔ ہم ترقیاتی نمونہ تیار کرنے کی کوشش کررہے ہیں ۔ یہ نمونہ عرب نوجوانوں کو پیغام دے رہا ہے کہ ہم اپنا ایک تمدن رکھتے ہیں اور اپنے تمدن کو جلد بازیاب کرلیں گے۔ اﷲ کے حکم سے نوجوانوں اور ان کے بازوؤں کے بل پر ہم ایسا کرسکیں گے‘‘۔یہاں یہ بات قابلِ ذکر ہیکہ جولائی 2020میں متحدہ عرب امارات، چین اور امریکہ نے مریخ کے لئے اپنے اپنے خلائی مشن روانہ کئے تھے۔
***

 

Dr M A Rasheed Junaid
About the Author: Dr M A Rasheed Junaid Read More Articles by Dr M A Rasheed Junaid: 352 Articles with 209592 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.