بدلتا ہے رنگ آسماں کیسے کیسے؟

اسرائیم وزیراعظم بنایمنا نیتن یاہو نے جب جنگ بندی کا اعلان کیا تو بغل میں بیٹھے وزیر دفاع بیس گینٹز نے کہا ہےکہ اسرائلے کے پاس امن کا بہترین موقع ہے، اسے کھونا نہںا چاہےی۔ بییق گینٹزیہ بھی بولے کہ غزہ مںت فوجی آپریشن امن عمل کی بناتد اور بار بار کی جنگ کو روکنے کا ذریعہ ہونا چاہےانیز غزہ کی پٹی کو بنا دی ڈھانچے ، تعلییٹ اور صحت کے شعبوں مںع ترقی کرنا ہوگی۔ یہ جملے کچھ عجیب سے ہیں لیکن ان کے لیے نہیں جوبینی گینٹز کی صاف گوئی سے واقف ہیں۔ 2014کے اندر غزہ پر حملہ کی 50 روزہ مہم میں 2ہزار فلسطینیوں کو شہید، 11 ہزار زخمی اور ایک لاکھ بے گھر ہوئے تھے ۔ اس وقت اسرائیلی فوج کی کمان گینٹز کے ہاتھوں میں تھی ۔ اس جنگ کے خاتمے پرانہوں حماس کی تعریف میں کہا تھا کہ انہوں نے بڑی دلیری سے اسرائیلی فوج کا مقابلہ کیا اورہمیں اایمانداری سے یہ اعتراف کرنا چاہیے کہ ہم بہادروں سے لڑے۔دشمن کے ٹینک پر چڑھ کر اس کو اڑانا جانبازی ہے ، اس سے سبق لینے کی ضرورت ہے۔ اب وہ ایسا نہیں کہہ سکتے کیونکہ سیاست میں آچکے ہیں اس لیے صرف امن قائم کرنے اور جنگ روکنے کی بات کررہے ہیں ۔

غزہ پر اسرائیلی بمباری کو دیکھ کر ہر انصاف پسند فرد اپنے آپ سے یہ سوال کررہاتا کہ آخر ظلم و جبر کی یہ آگ کیسے سرد ہوگی؟ اس سوال پر مختلف جہتوں سے غور کیا جاسکتا ہے۔ مثلاً اگر یہ سوال کیا جائے کسی بھیڑئیے کا خون خرابہ کیسے بند ہوگا؟ تو اس کا ایک جواب یہ بھی ہو سکتاہے کہ جب اس کو شکار میں کام آنے والے دانتوں سے محروم کردیا جائے ۔ اب سوال یہ ہے کہ صہیونی نظریہ کی شہ رگ کہاں ہے؟ اس کو قوت و توانائی کون فراہم کرتا ہے؟ یہ پتہ چل جائے تو اس کا کٹ جانااسے وہ ادھ مرا کردے فی اور وہ ظلم و ستم سے باز رہے گا؟ صہیونیت کے حامیوںکی فہرست طویل ہے مگر سرفہرست امریکہ کا نام آتا ہے۔ بے شمار امریکی مفادات چونکہ اسرائیل سے وابستہ ہیں اس لیے یہ امکان تو بہت کم ہے کہ اسرائیل کے تعلق سے اس کی پالیسی یکسر بدل جائے لیکن اس میں اتار چڑھاو آتا رہا ہےاور اس کے اثرات بھی مرتب ہوتے ہیں ۔

سابق صدور براک اوبامہ کے زمانے میں یہ تعلقات خاصے سردمہری کا شکار ہوگئے تھے مگر ڈونلڈ ٹرمپ نے ان میں غیر معمولی گرم جوشی پیدا کردی ۔ اسرائیل کے ساتھ امریکہ کے باجگذار عرب ممالک کے تعلقات کا انحصار بھی اس سرد و گرم موسم پر ہوتا ہے کیونکہ ان بیچاروں کے نزدیک اپنے سیاسی آقا کے چشم ابرو کا اشارہ ہی راحتِ جاں ہے۔ صدرجو بائیڈن سے امید تھی کہ وہ براک اوبامہ کی روش اختیار کریں گے لیکن افسوس کہ انہوں نے بھی اپنے مخصوص و محتاط انداز میں ٹرمپ کی پالیسی کو آگے بڑھایا ۔ اس کا ثبوت یہ تھا کہ جنوری میں اقتدار سنبھالنے کے بعد بائیڈن انتظامیہ نے عالمی طرز فکر میں تبدیلی کے لیے اسرائیل کو امریکی یورپی کمان سے نکال کر مشرق وسطیٰ ٰ کی امریکی مرکزی کمان یعنی (CENTCOM )میں شامل کرنے کا فیصلہ کیا مگر حماس کا راکٹ حملہ اس پیش رفت میں رکاوٹ بن گیا ۔

امریکی سینٹرل کمان کے سربراہ جنرل فرینک میکنزی نے مذکورہ فیصلے سے متعلق امید افزا خیالات کا اظہار کرتے ہوئے ماہِ اپریل میں بتایا تھا کہ 2020ءکے اندر کئی مسلمان اکثریتی ریاستوں کے اسرائیل کے ساتھ تعلقات کی بحالی اور یونیفائیڈ کمانڈ منصوبہ کی نئی صف بندی کے تحت اسرائیل کو یورپی کمان سے نکال کر مرکزی کمان میں شامل کرنے کے فیصلے سے علاقائی استحکام اور سکیورٹی تعاون کے نئے مواقع جنم لیں گے۔فلسطین اور اسرائیل کے درمیان حالیہ تنازع کے بعد مذکورہ فیصلے کو موقوف کرتے ہوئے پینٹاگان نے خود کواس معاملے سے الگ کرتے ہوئے کہا کہ ’’اسرائیل میں جو کچھ ہو رہا ہے، پینٹاگان کو اس سے کوئی سروکار نہیں نیز گذشتہ برس اسرائیل کے ساتھ امن معاہدوں پر دستخط کرنے والی کئی عربممالک بھی فی الحال CENTCON کا حصہ بننے میں پس وپیش سے کام لے رہے ہیں۔ ‘‘ ویسے اردن، عراق، سعودی عرب، متحدہ عرب امارات، کویت، قطر، لبنان اور چند دوسرے ملک سینٹ کام میں شامل ہیں اور وہ سب بھی اپنے عوام کے دباو میں امریکہ کی مرضی کے خلاف اسرائیل کی تنقید کرنے پر مجبور ہیں ۔ یہ حماس کر راکٹوں کا کمال ہے کہ اس نے بائیڈن انتظامیہ کو اپنی غلطی کا احساس دلایا اور اس کے حامیوں کا دماغ درست کیا ۔

مصر کے ذریعہ جنگ بندی کی کوششوں کو اسرائیل نے ابتدا میں مسترد کردیا مگر اس بابت اسرائیلی فوج میں خفیہ شعبے کے سابق چیف اور امریکہ کے فوجی اتاشی عموس یالڈن نے چونکانے والے انکشافات کیے تھے ۔ جنوبی افریقہ کے صہیونی فیڈریشن کی ایک تقریب میں انہوں نے کہا کہ اگر امریکہ نے کہہ دیا تو اسرائیل غزہ پر حملے روک دے گا۔ عموس نے بتایا کہ صدر جو بائیڈن کے انتظامیہ کی تل ابیب کے ذریعہکی جانے والی بمباری پر بے چینی بڑھ رہی ہے اور ممکن ہے 48 گھنٹوں میں اس مہم کو روک دیا جائے۔ عموس یالڈن کی اس ویڈیو کو نشر ہونے کے کچھ دیر بعد ہٹا لیا گیا۔یہ نشست جنوبی افریقہ کے اندر اسرائیل کی غزہ میں بمباری کے خلاف پیدا ہونے والے غم و غصے کو کم کرنے کی طریقوں پر غور کرنے کے لیے منعقد کی گئی تھی۔ عموس نے یہ بھی کہا بیڈن نے ٹرمپ کی مانند اسرائیل کو بلینک چیک نہیں دیا ہے۔ وہ ہفتہ کے آخر تک جنگ بندی کروادیں گے ۔ عموس کا اندازہ غلط ثابت ہوا اور یہ جنگ اس کی توقع سے پانچ دن زیادہ چلی مگر بالآخر جنگ بندی امریکی دباو کے تحت ہی ہوئی ۔

معروف فلسطینی مبصر مریم برغوطی نے اس خبر پر تبصرے میں لکھا کہ اسرائیل اپنے حملے اس لیے بند نہیں کرے گا کیونکہ وہ انسانی جان کا احترام کرتا ہے یا یہ جنگی جرائم کے ارتکاب کو مذموم سمجھتا ہے بلکہ وہ صرف عالمی دباو اس کو روک سکتا ہے۔ اسرائیل جس طرح بین الاقوامی دباو میں آجاتا ہے اسی طرح بائیڈن انتظامیہ پر بھی اپنے 25 ارکان پارلیمان کا دباو ہے جنہوں نے خط لکھ کر شیخ جراح کی بیدخلی کوسفارتی طاقت سے روکنے کا مطالبہ کیا ہے۔ اسی طرح کا دباو جنوبی افریقہ کی حکومت پر بھی ہے۔ وہاں کی قومی کابینہ نے اسرائیل سے کہا ہے کہ وہ فلسطینیوں پر وحشیانہ بربریت کو بند کرکے سیاسی گفتگو کی عالمی کوششوں کا پاس و لحاظ کرے۔ جنوبی افریقہ کے یہودیوں کو افسوس ہے کہ سرکاری بیان میں غزہ کے راکٹ حملے کی مذمت کیوں نہیں کی گئی اور انہیں اندیشہ ہے کہ نیلسن منڈیلا کا پوتا مانڈلا منڈیلہ کہیں اسرائیل کے ساتھ سفارتی تعلقات منقطع نہ کردے۔ جنوبی افریقہ کا حزب اقتدار صہیونی فیڈریشن کو چونکہ اسرائیل اور جنوبی افریقہ کے اندر نسل پرستی کی حامی اور اسرائیل کی پروپگنڈہ مشین سمجھتا ہے اس لیے کوئی اہمیت نہیں دیتا۔

اسرائیل کے اندر اس جنگ کے حوالے سے ناکامی کا احساس بڑھنے لگا ہے۔ عبرانی زبان کےسب سے قدیم اخبار یدیعوت اہورونوت کےمعمر سیاسی مبصرناہم برنیا کے مطابق اسرائیلی فوج نے 50 گھنٹوں میں تباہی کا وہ ہدف حاصل کرلیا جس کے لیے 2014میں 50 دن لگے تھے ۔ انہوں نے یہ اعتراف بھی کیا کہ حماس زمین یا میزائل کی جنگ نہیں لڑ رہا ہے بلکہ اس کا ہدفشعور کی بیداری ہے اور وہ اس جنگ کو جیت چکاہے ۔ جنگ بندی کے بعد حماس کے ذریعہ اسی فتح کا دعویٰ کیا جائے گا۔ اخبار لکھتا ہے کہ غزہ پر زبردست بمباری کے باوجود یروشلم اور گش ڈان پر راکٹ حملے جاری رکھ کر حماس نے عرب دنیا میں خود کو یروشلم کی مقدس عبادتگاہ( مسجد اقصیٰ) کےایسےمحافظ کی حیثیت سے پیش کیا ہے جس نے اسرائیل میں آگ لگا دی۔ مضمون نگار کے مطابق اسرائیل کی مہم جوئی بے مقصدہے۔ وہ نہ تو حماس کے ساتھ کوئی طویل المدت معاہدہ کرکے حالات کو بدلنا چاہتا ہے اور نہ اسے غزہ سے نکال سکتا ہے۔

ادارتی مضمون میں یہ اعتراف کیا گیا ہے کہ اس تنازع کابنیادی سبب یروشلم تھا لیکن اب نہ تو مسجد اقصیٰ پر کوئی تصادم ہے ، نہ شیخ جراح کے مظاہرے ہیں اور نہ یوم یروشلم کا جلوس ہے ۔ ایسا لگتا ہے گویا جنگ کسی اور براعظم میں ہورہی ہے۔ برنیا کے مضمون کا آخری جملہ قابلِ توجہ ہونے کے ساتھ ساتھ چونکانے والا ہے اس نے لکھا :’’ہوسکتا یہ جنگ کا خاتمہ نہیں بلکہ خاتمے کی ابتداء ہو‘‘۔ان حالات میں اسرائیل کے خاتمے کی ابتدا لکھنے کی جرأت ناہم برنیا نہیں کرسکتا۔ فی الحال اسرائیل کے اندر مایوسی کا جو عالم ہے اس کا اندازہ وہاں کے تجزیہ نگاروں سے کیا جاسکتا ہے۔ اسرائیلی ریاست کے سرکاری اور نجی میڈیا میں غزہ کے اندر جاری لڑائی کے بارے میں یہ لکھا جارہا ہے کہ اسلامی تحریک مزاحمت حماس' نے صہیونی ریاست کو غزہ کے محاذ پر تاریخ کی بدترین شکست سے دوچار کردیا ہے۔ سچ تو یہ ہے اسی احساس نے اسرائیل کی جنگ بندی پر رضامندی میں سب اہم کردار ادا کیا ۔
انگریزی میں اسرائیل کے معروف اخبار'ہارٹز' کے فوجی تجزیہ نگارعموس ارئیل کے مطابق اسرائیل نمائشی فتح کی تلاش میں ہے جب کہ محاذ پرحماس کو اسرائیل پر واضح برتری حاصل ہے۔ اسرائیل نے غزہ کی پٹی میں حماس کو کمزور کرنے کے لیے جو اہداف مقرر کیے ہیں وہ پورے ہوتے دکھائی نہیں دیتے۔ ارئیل نے وزیراعظم نیتن یاہو سے غزہ کی پٹی میں فوجی کارروائی کو وسعت دینے یا جنگ بندی معاہدے کے حوالے سے فیصلہ کن اقدام کرنے کی امید کی ہے۔ اسرائیلی دانشور نے تسلیم کیا ہے کہ حماس نے بڑی تعداد میں‌ راکٹ باری کرکے اسرائیلی فوجی مشقوں کومحدود کرنے پرمجبور کردیا ہے۔ حماس کے راکٹ حملوں کےبعد اگر سیاسی اور عسکری قیادت یہ سمجھتی ہے کہ فوجی کارروائی میں اضافے سے حماس کو کمزور کیا جا سکتا ہے کہ وہ غزہ کی بمباری میں اضافہ کرے لیکن حقیقت تو یہ ہے کہ اسرائیل غزہ کے اندر فوج بھیجنے کی جرأت اپنے اندر نہیں رکھتا اور فتح کا پرچم ہوا میں نہیں زمین پر گاڑا جاتا ہے۔ اسرائیل ہوا میں تو خوب اڑتا ہے مگر زمین پر پہنچتے ہی اس کے قدم اکھڑ جاتے ہیں ۔ اپنے قدم جمانے کی خاطر اسے امریکہ جیسے سرپرست کی ضرورت پڑتی ہے لیکن اب وہاں شگاف پڑ نے لگا ہے جو اسرائیل کے لیے باعثِ تشویش ہے۔ اس لیے وہ دن دور نہیں جب لوگ دنیا کے نقشے پر سوویت یونین کی مانند اسرائیل کو تلاش کرنے کے لیے نکلیں گے تو بے نیل مرام لوٹیں گےکیونکہ بقول ثاقب لکھنوی؎
مٹھیوں میں خاک لے کر دوست آئے وقت دفن
زندگی بھر کی محبت کا صلا دینے لگے

 

Salim
About the Author: Salim Read More Articles by Salim: 2045 Articles with 1225287 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.