آزاد کشمیر میں سیاسی سرگرمیاں

شیخ سعدی ؒ ایک حکایت میں تحریر کرتے ہیں کہ ایک بادشاہ کا وزیر بہت نیک سیرت تھا اور بادشاہ کا انتہائی وفادار اور خیرخواہ تھا وہ ہر کام میں پہلے رضا الہیٰ کو مدنظر رکھتا تھا اور پھر بادشاہ کے حکم کی تعمیل کو ہر چیز پر مقدم رکھتاتھا بادشاہ اس کی ان خوبیوں کا دل سے قدردان تھا اور یہ بات وزیر کے دشمنوں کے دل میں کانٹے کی طرح کھٹکتی تھی وہ ہمیشہ ایسے موقعہ کی تلاش میں رہتے تھے کہ نیک سرشت وزیر کو بادشاہ کی نظروں سے گراسکیں ایک دفعہ اُن حاسدوں کو خبرملی کہ وزیر نے کئی لوگوں کو اس شرط پر روپے قرض دے رکھے ہیں کہ جب بادشاہ مرجائے گا تو یہ قرض ان سے وصول کرلیا جائے گا -

ایک حاسد بادشاہ کے پاس گیا اور کہنے لگا کہ جہاں پناہ یہ وزیر آپ کا خیر خواہ نہیں ہے اس نے لوگوں کو اس شرط پر قرض دے رکھا ہے کہ آپ کے وفات پانے پر ان سے واپس لیا جائے گا اس کا مطلب یہ ہے کہ وہ آپ کی موت کا خواہاں ہے تاکہ آپ کے بعد لوگوں سے روپے واپس لے کر گلچھڑے اُڑائے -

بادشاہ نے وزیر کو طلب کیا اور پوچھا کہ یہ کیا معاملہ ہے -

وزیر نے دست بستہ عرض کی کہ عالم پناہ یہ سچ ہے کہ میں نے اس شرط پر لوگوں کو قرض میں روپے دیئے ہیں لیکن میں نے یہ بات خیرخواہی سے کی ہے بدخواہی سے نہیں میری غرض تو یہ ہے کہ بے چارے مقروض آپ کی زندگی اور سلامتی کی دعاکرتے رہیں تاکہ انہیں قرض واپس کرنے کی نوبت نہ آئے بادشاہ کو وزیر کا جواب بہت پسند آیا اور اس نے حاسدوں کو سزادی اور وزیر کا رتبہ اور بھی بڑھا دیا ۔

مسلم کانفرنس جو آزادکشمیر کی سوادِاعظم جماعت تھی مجاہد اول سردار عبدالقیوم خان کے بادشاہت سے ہٹنے کے بعد مقروضوں کے قرض اداکرنے کی بجائے انہیں کی نذرہوگئی ہے اور ہوتی چلی جارہی ہے اس میں کوئی شک نہیں کہ مسلم کانفرنس آزادکشمیر کی سب سے بڑی تنظیم تھی جو آزادی کشمیرسے پہلے قائم کی گئی تھی اورنومولودمسلم لیگ ن کی تمام قیادت اور حتیٰ کہ ان کے بزرگ بھی مسلم کانفرنس کا حصہ رہے اور اسی جماعت سے انہوںنے سیاست سیکھی ،وزراتیں صدارتیں لیں اور اسی تنظیم نے انہیں پوری دنیامیں ایک شناخت دی ۔

سردارعبدالقیوم خان کے منظر عام سے ہٹ جانے کے بعد جب قیادت سردارعتیق احمد خان کے ہاتھ میں آئی تو مسلم کانفرنس کا وہی حشر ہوا جو اکبر بادشاہ اور اورنگزیب عالمگیر کے بعد مغل سلطنت کارنگیلا شاہ کے ہاتھ لگنے سے ہوا تھا ۔
کوئی ویرانی ویرانی سی ہے ۔

آج آزادکشمیر کے سیاسی منظرنامے پر نظردوڑاتے ہیں تو راجہ حید رخان کے سپوت پارہ صفت انقلابی طبیعت رکھنے والے راجہ فاروق حیدرخان جو چند ماہ وزیر اعظم بھی رہ چکے ہیں ان کی قیادت میں آزادکشمیر کے اندر مسلم لیگ ن کا قیام عمل میں آچکا ہے ان کے ساتھ اس وقت موجودہ اسمبلی کے 9ارکان پیش پردہ اور 5کے قریب ارکان پسِ پردہ موجودہیں اور الیکشن 2011ءمیں مسلم لیگ ن ایک بہت بڑی سیاسی قوت کے طور پر آزاد کشمیر میں ابھرنے والی ہے میرپور مظفرآباد کوٹلی راوالاکوٹ باغ پلندری ہٹیاں بالا اور نیلم سے لے کر پاکستان میں مہاجرین کی نشستوں پر مسلم لیگ ن کی طرف سے بہت سے سرپرائز ز متوقع ہیں ۔

دوسری جانب پاکستان پیپلز پارٹی مرکزی صدر چوہدری عبدالمجید کی قیادت میں اس وقت بہت مضبوط پوزیشن اختیار کرچکی ہے دو سابق وزرائے اعظم بیرسٹر سلطان محمود چوہدری اور سرداریعقوب خان کی پیپلز پارٹی میں شمولیت کے بعد لینڈ سلائیڈ وکٹری تک کے دعوے کیے جارہے ہیں اور اس میں کوئی شک بھی نہیں ہے کہ ذوالفقارعلی بھٹو شہید کے جیالوں کی ایک کثیر تعداد یہ کہہ سکتی ہے کہ الیکشن 2011ءمیں پاکستان پیپلز پارٹی دوتہائی اکثریت حاصل کرے گی ۔

لیکن جب ہم ماضی کی سوادِاعظم جماعت مسلم کانفرنس کی طرف نگاہ دوڑاتے ہیں تو شکست وریخت اور ٹوٹ پھوٹ کا عمل تیزی اختیارکرتا ہوا دکھائی دیتاہے کشمیر کونسل کے انتخابات کے موقع پر جس طرح مسلم کانفرنس کے سینئرترین رہنما کیپٹن سرفراز کو نظرانداز کیا گیا اور شُنید کے مطابق بولی لگا کر کروڑوں روپے لے کر کشمیر کونسل کی نشستیں فروخت کی گئیں اس سے پورے آزادکشمیر میں سردارعتیق احمد خان اور مسلم کانفرنس کے حصے میں بدنامی ہی آئی ہے ۔

آئندہ الیکشن میں سیاسی پنڈتوں کے مطابق اصل مقابلہ پاکستان پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ ن کے درمیان ہوگا یہاں پر یہ خطرہ بھی ظاہر کیا جارہا ہے کہ ان دونوں غیر ریاستی جماعتوں کی وفاق اور پنجاب میں حکومتیں ہونے کی وجہ سے پاکستانی وفاقی او ر صوبائی وزراءکی آزادکشمیر میں مداخلت کچھ زیادہ ہوگی اور جذبات کی شدت کی وجہ سے خدانخواستہ لڑائی جھگڑوں اور انسانی جانوں کے ضیاع کا اندیشہ ہے ۔

اس سب صورتحال میں جب آزادی کے بیس کیمپ میں تحریک آزادی کشمیر کیلئے جدوجہد کو منظم کرنے کی ضرورت ہے وہاں اقتدار اور بادشاہت کے حصول کیلئے اگر طاقتیں صرف کی گئیں تو اس سے تقسیم کشمیر کی راہ ہموار ہوگی اور آزادی کشمیر کی تحریک کو نقصان پہنچے گا ۔

آخر میں حسب روایت قارئین کیلئے لطیفہ پیش خدمت ہے ۔
ایک گاﺅں میں ایک بارات ابھی آکر ٹھہری ہی تھی کہ ایک میراثی وہاں آن پہنچا اور پیسوں کے لیے ضد کرنے لگا لڑکے والوں نے کہا کہ ابھی نکاح ہولینے دو پھر تمہیں بھی بھگتا لیں گے اس نے کہا کہ اس نے دوسرے گاﺅں میں ایک اور شادی پر بھی جانا ہے اسے پیسے پہلے دیئے جائیں لیکن لڑکے والے نہ مانیں ادھرسے مایوس ہوکر اس نے لڑکی والوں سے رجوع کیا لیکن وہ نکاح سے پہلے پیسے دینے پر تیار نہ ہوئے میراثی نے جب زیادہ اصرار کیا تو ایک بزرگ اٹھے اور میراثی کو رکھ کر سات جوتے لگا دئیے میراثی اٹھا اور کپڑے جھاڑتے ہوئے بولا ۔
”اس لڑکی کی جب بھی شادی ہوتی ہے مجھے مار ضرور پڑتی ہے ۔۔۔“

آزاد کشمیر میں بھی اسی طرح جب بھی الیکشن ہوتے ہیں غریب عوام ضرور پستے ہیں ۔
Junaid Ansari
About the Author: Junaid Ansari Read More Articles by Junaid Ansari: 425 Articles with 340487 views Belong to Mirpur AJ&K
Anchor @ JK News TV & FM 93 Radio AJ&K
.. View More