چہرے کے پردے کاحکم۔ایک تحقیقی جائزہ

سورة الاحزاب کی آیت ٥٣ وہ پہلی آیت ہے جس میں خواتین اسلام کو پردہ کرنے کی تلقین کی گئی اسی لئے مفسرین کرام اسے ''آیت الحجاب'' کہتے ہیں ۔اس آیت کے ابتدائی حصہ میں ''بیوت النبی'' یعنی حضورۖ کے دولت کدہ میں بغیر اجازت داخل ہونے سے منع کیا گیا ہے اور جمہورامت اس بات پر متفق ہے کہ یہ حکم آپۖ کے ساتھ خاص نہیں ہے بلکہ اسلامی معاشرہ کے کسی بھی فرد کے گھر میں بغیر اجازت داخل ہونا جائز نہیں ہے ۔ آیت کا آخری حصہ میں ازواج مطہرات رضی اﷲ عنہن کے ساتھ آپۖ کے بعد نکاح کی ممانعت کا حکم ہے اور جمہور امت اس بات پر متفق ہے کہ یہ حکم حضورۖ کے اہل خانہ کیلئے خاص ہے اور یہ اعزاز کسی دوسرے کیلئے نہیں ہے ۔

آیت کے درمیانی حصہ میں پردہ کا حکم دیا گیا ہے اور یہ حکم دیتے وقت حضورۖ کی ازواج مطہرات کا ذکر کرنے کی بجائے عربی زبان میں عورتوں کیلئے استعمال کی جانے والی ضمیر ''ھن'' کو استعمال کیا گیا ہے ۔ قرآن کریم کے الفاظ یہ ہیں :
واذا سالتموھن متاعاًفسئلتموھن من وراء حجاب
'' جب تم مرد ان عورتوں سے کچھ سامان طلب کروتو پردہ کے پیچھے سے طلب کیا کرو ''

اس آیت مبارکہ میں غور کیجئے اور اس کے ترجمہ میں بھی بار بار غور کیجئے ۔ اس میں کوئی ایسی بات نہیں کہی گئی ہے جو ازواج مطہرات کیلئے خاص ہو اور نہ ہی کوئی ایسا لفظ یا قرینہ ہے جس کی وجہ سے اس حکم کو ازواج مطہرات کیلئے خاص سمجھا جائے ۔ بعض لوگوں کا کہنا ہے کہ '' ھن'' ضمیر سے ازواج مطہرات کو مراد لیا جائیگا کیونکہ یہ آیت حضرت زینب رضی اللہ عنھا سے نکاح کے موقع پر حضورعلیہ الصلوة والسلام کے گھر میں نازل ہوئی ۔ آپ اس دلیل میں غور کرکے اس کے وزن کا اندازہ خود ہی کرسکتے ہیں ۔ کیا حضور علیہ الصلوة السلام کے گھر میں نازل ہونے والا قرآن کریم کا حصہ ازواج مطہرات کے ساتھ ہی خاص ہوتاہے باقی مسلمانوں کیلئے نہیں ہوتا !؟ بعض کی رائے یہ ہے کہ ''ھن ''سے مراد تو ازواج مطہرات ہی ہیں مگر حکم عام ہے اور تمام مسلمان خواتین کو حجاب کی تعلیم دی گئی ہے لیکن اکثر مفسرین کی رائے یہ ہے '' ھن'' سے مسلم خواتین مراد ہیں جن میں ازواج مطہرات بھی شامل ہیں ۔ اور یہی بات صحیح اور پاکیزہ معاشرہ کی روح سے مطابقت رکھتی ہے ۔ علامہ ماوردی رحمة اللہ علیہ فرماتے ہیں ''ازواج مطہرات اور تمام خواتین کو حجاب کا حکم دیا گیا ہے ''۔

علامہ قرطبی رحمة اللہ علیہ فرماتے ہیں : '' اور معنی کے لحاظ سے تمام خواتین اس میں داخل ہیں '' آپ اس آیت میں دوبارہ غور کریں ۔ اس سے پہلی آیات میں ازواج مطہرات کیلئے کوئی لفظ صراحةً استعمال نہیں کیا گیا ۔ البتہ حضور علیہ الصلوة السلام سے خطاب کرتے ہوئے آئندہ کیلئے مزید کسی خاتون کے ساتھ نکاح کی ممانعت کی گئی ہے ۔ چنانچہ کہا گیا ہے :''اس کے بعد آپکے لئے دوسری عورتوں سے نکاح کرنا حلال نہیں رہا '' لہذا اگر ضمیر کیلئے کوئی مذکور مرجع قرار دیا جاسکتاہے تو وہ '' النسآء '' ہے جس کے معنی ازواج مطہرات نہیں بلکہ مسلم خواتین ہی ہے ۔ پھر یہ بات بھی قابل غور ہے کہ ازواج مطہرات کے ساتھ جو حکم مخصوص تھا ، یعنی حضور علیہ الصلوة السلام کے بعد آپ کی بیویوں سے نکاح کی ممانعت ، اس کے ساتھ ''ازواجہ'' کا صریح ذکر فرمایا ہے ۔ ضمیر کا لفظ نہیں فرمایاتاکہ کوئی خفایا ابہام نہ رہ جائے۔ اسکے علاوہ قرآن کریم نے حجاب کی جو علت بیان کی ہے وہ بھی اسی بات کا تقاضا کرتی ہے کہ یہ حکم تمام مسلم خواتین کو شامل ہونا چاہئے ۔ قرآن کریم کہتا ہے : ''پردہ کا اہتمام تمہارے اور ان کے دلوں میں زیادہ پاکیزگی پیدا کرنے کا باعث ہے'' سوال یہ پیدا ہوتاہے : کیا پاکیزگی صرف مسلمان مردوں اور ازواج مطہرات کوہی چاہئے ۔ باقی مسلمان خواتین کو پاکیزگی کی حاجت نہیں ہے؟ کیا ان کے دل ازواج مطہرات سے بھی زیادہ پاکیزہ ہیں؟ یا قرآن انہیں گناہوں کی غلاظت اور گندگی سے بھر پور خیا لات میں آلودہ رکھنا چاہتا ہے ؟ ہم یہ بات سمجھنے سے قاصر ہیں کہ یہ لوگ عام مسلمان خواتین کو دلوں کی پاکیزگی سے محروم رکھ کر کیا حاصل کرنا چاہتے ہیں !؟ قرآن کریم تو یہ تعلیم دینا چاہتاہے کہ جب ازواج مطہرات کو قلبی پاکیز گی کیلئے پردہ کا اہتمام کرنے کی ضرورت ہے تو عام مسلم خواتین کو بدرجہ اولی ہونی چاہئے ۔

صحابہ کرام رضی اﷲ عنہم اور تمام مفسرین کا اس آیت کو آیت حجاب کا لقب دینا بھی اس بات کا واضح کرتاہے کہ امت مسلمہ اس آیت کو تمام مسلم خواتین کیلئے پردہ کے حکم پر مشتمل سمجھتی آئی ہے ۔

خواتین اسلام کیلئے گھر میں رہتے ہوئے یہ حکم دیا گیا ہے کہ اگر نامحرم مردوں سے گفتگو کی ضرورت پیش آجائے تو حجاب کی پابندی کے ساتھ ہونی چاہئے ۔ اور اگر کسی ضرورت کے تحت گھر سے باہر جانا پڑجائے تو اس سے اگلی آیت میں یہ تعلیم دی گئی ید نین علیھن من جلابیبھن ''وہ اپنے اوپر بڑی چادر وں کا کچھ حصہ لٹکا لیا کریں ۔'' جلابیب جمع ہے جلباب کی ۔ اور جلباب وہ بڑی چادر ہوتی ہے جسے خواتین گھر سے باہر نکلنے کی صورت میں اپنا پورا جسم ڈھانپنے کیلئے استعمال کرتی ہیں مفسرین کرام نے اگر کہیں جلباب کی توضیح میں خمار کا لفظ استعمال کیا ہے تو وہ یقینا لغوی معنی کے اعتبار سے ہی ہوسکتا ہے اسکا اردو میں '' دوپٹہ '' ترجمہ کرنا یاتو غلط فہمی ہے یاپھر عربی زبان سے ناواقفیت کی بنا پرہے ۔ جب کسی خاتون کے پورے جسم پر چادر لپٹی ہوئی ہوگی تو اسکا کچھ حصہ لٹکانے کا مطلب سمجھنا کسی معمولی سوجھ بوجھ رکھنے والے شخص پر بھی مخفی نہیں رہ سکتا ۔ آیت مبارکہ کے معجزانہ اسلوب بیان میں ذرا غور کیجئے :
٭ جلا بیب کو ضمیر اناث کی طرف مضاف کیا گیا ہے ۔
٭جلابیب پر تبعیض کا'' مِن ' 'داخل کیا گیا ہے ۔
٭ ادناء (لٹکانے) کا اضافی حکم دیا گیا ہے ۔

اس سے جو تصویر سامنے آتی ہے وہ یہ ہے کہ اسلامی معاشرہ کی شریف اور حیا دار خواتین میں جلابیب کا استعمال پہلے سے موجود تھا ۔ اسی لئے قرآن کریم نے یلبسن الجلابیب یا یلتحفن بالجلابیبجیسی کوئی تعبیر اختیار کرکے چاد ریں اوڑ ھنے کا حکم نہیں دیا بلکہ چادروں کا بعض حصہ لٹکانیکا حکم دیا ہے ۔ لٹکانیکا مطلب نہ تو یہ کیا جاسکتا ہے کہ سر اور چہرہ ننگا رہے اور سینہ پر V کی شکل بناکر قرآنی حجاب کے خلاف مغرب کی جنگ میں اپنی کامیابی (Victory) کا اظہار کیا جائے اور نہ ہی یہ کہ گلے میں ڈالکر یا ہاتھ میں پکڑ کر اسکے دونوں پلو ایک طرف کو لٹکاکر چلیں ۔ اسی طرح کمر کی طرف یا دائیں بائیں لٹکانا بھی مراد نہیں ہوسکتا بلکہ بے تکلف اور واضح صورت یہی ہے کہ جب ایک شریف خاتون اپنے جسم کو جلباب سے چھپائے ہوئے جارہی ہو اور اسے کہاجائے کہ اپنے جلباب کا کچھ حصہ مزید لٹکالو تو اسکا ہاتھ فوراً پیشانی کی طرف ہی جائیگا اور وہ سر سے کپڑا کھینچ کر قرآن کریم کے حکم پر لبیک کہے گی تو اس سے یقینا اسکا چہرہ ڈھانپا جائیگا اور قرآن کریم یہی تعلیم دے رہا ہے کیونکہ انکا چہرہ ہی ظاہر ہورہا تھا اور وہ چھپ گیا ۔

قرآنی حجاب کا مقصد چہرہ چھپانا ہے ۔ اس کی علت بیان کرتے ہوئے مفسر قرآن علامہ ابو حیان فرماتے ہیں :'' کیونکہ انکے جسم کا جو حصہ ظاہر تھا وہ چہرہ ہی ہے ۔''

اس سے یہ بات واضح ہوجاتی ہے کہ اس زمانہ کی شرم وحیا کی آئینہ دار خواتین نہ تو منی اسکرٹ پہنتی تھیں اور نہ ہی بغیر بازو کی قمیص پہنتی تھیں ۔ اگر عرب کی بعض عورتوں کے بارے میں یہ آتاہے کہ پردہ کا حکم نازل ہونے سے پہلے انکا سینہ یا گردن اور چہرہ کھلا رہتا تھا تو اسے تمام خواتین اسلام پر چسپاں کردینا انصاف کا قتل ہی کہلائیگا ۔

حضرت علامہ ابن کثیر رحمة اللہ علیہ نے اپنی تفسیر میں حضرت اسماء بنت مرثد رضی اللہ عنھا کے بارے میں نقل کیا ہے کہ وہ اپنے باغ میں تھیں کہ بعض خواتین نامناسب لباس پہنے ہوئے اس حالت میں ان کے پاس آئیں کہ انکا سینہ، چہرہ اور سر کے بال ظاہر ہورہے تھے اور پازیب بھی نظر آرہے تھے تو انہوں نے انتہائی ناگواری کا اظہار کرتے ہوئے فرمایا : مااقبح ھذا !؟کوئی عربی دان ہی اس جملہ میں ناگواری اور ناراضگی کی شدت کا اندازہ لگاسکتاہے ۔اسکا اردو ترجمہ ہم ان الفاظ میں کرسکتے ہیں : یہ کیا بدترین شکل وصورت بنا رکھی ہے !؟ یا یہ کیا بدترین لباس پہنا ہواہے…!؟

حضرت اسمائ کا اپنی مہمان خواتین کے لباس پر اسقدر ناراضگی اور ناپسندیدگی کا اظہار اس بات کا غماز ہے کہ اسلامی معاشرہ کی مہذب اور باشعور خواتین کا لباس نزول حجاب سے پہلے بھی ساتر تھا اور ایسی چادر کا استعمال رائج تھا جس کے ساتھ چہرہ کے علاوہ باقی پورا جسم چھپایا جاسکتاتھا لہٰذا بعد میں چہرہ چھپانے کا اضافہ کیا گیا ہے ۔

امام قرطبی رحمة اللہ علیہ نے چادر کو لٹکانے کے قرآنی حکم پر عمل کرنیکی کیفیت حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اﷲ عنہما سے نقل کرتے ہوئے لکھا ہے: '' جلباب کا کچھ حصہ پیشانی پر سے لاکر ناک کے اوپر سے اس طرح لپیٹ لے کہ چہرہ ڈھک جائے اور صرف آنکھیں کھلی رہ جائیں ''

ہمارے موضوع سے متعلق اسکا جو حصّہ ہے اس کے الفاظ یہ ہیں :ولا یبدین زینتھن الا ما ظہر منھا'' وہ اپنی زینت کو ظاہر نہ کریں مگر جو (خود بخود ، بلا ارادہ ) ظاہر ہوجائے۔''

اس میں دو لفظ انتہائی اہمیت کے حامل ہیں : ١۔ زینت ٢۔ ماظہر منھا
زینت سے خوبصورتی اور حسن وجمال مراد ہے ۔ علامہ قرطبی رحمة اﷲ علیہ فرماتے ہیں کہ زینت دو قسم پر ہے : ١۔ خلقی اور قدرتی ٢۔ مصنوعی اور کسبی ، شکل وصورت ، اعضا کا تناسب ، جسمانی رنگت قدرتی اور غیر کسبی زینت ہے اور سرخی پاؤڈر ، سرمہ کاجل اور زیورات کا استعمال مصنوعی اور کسبی زینت ہے ۔

نیز علامہ قرطبی رحمة اللہ علیہ فرماتے ہیں ؛ '' انسانی خوبصورتی اور حسن وجمال کا اعلیٰ ترین مظہر انسان کا چہرہ ہوتاہے۔ ''

چہرہ انسان کے تمام محاسن کا مجموعہ ہے اور کسی کے حسن وجمال اور خوبصورتی کا حتمی فیصلہ اس کے چہرہ کو دیکھ کر ہی کیا جاتاہے'' ماظہر منھا '' کا واضح اور بے تکلف مطلب یہ نکلتاہے کہ اگر غیر ارادی طور پر خواتین کی زینت خود بخود ظاہر ہوجائے تو اس پر کوئی مواخذہ نہیں ہے کیونکہ جلباب اوڑھنے اور نقاب کرنے کے باوجود بھی نسوانی کشش کو بالکل ختم نہیں کیا جاسکتا۔ بازار میں خریداری کے موقع پر چہرہ یا ہاتھ وغیرہ غیر ارادی طور پر ظاہر ہوسکتے ہیں ۔ تیز ہوا کے جھونکے کے ساتھ جسم کا کوئی حصہ منکشف ہوسکتاہے ۔ قرآن کریم نے فصاحت وبلاغت اور ایجازواختصار سے بھر پور '' ماظہر منھا '' کی خوبصورت اور معجزانہ تعبیر میں ان تمام احتمالات کا احاطہ کرلیا مگر ہائے افسوس کہ سینئر اسکالر صاحب پھر بھی مصر ہیں کہ '' اگر چہرہ پر نقاب ہوتو پھر نگاہیں نیچی کرنے کا حکم بے معنی ہوکر رہ جاتاہے ''

حجاب کے قرآنی مفہوم میں چہرہ کا پردہ داخل ہے یا نہیں؟ہم صحابہ کرام رضی اﷲ عنہم کا عمل دیکھتے ہیں کہ وہ اس سے کیا سمجھے تھے؟ حضرت عائشہ رضی اللہ عنھا سے منقول ہے کہ جب '' ولیضربن بخمرھن علی جیوبھن '' کے الفاظ نازل ہوئے تو عورتوں نے اس پر عمل کرتے ہوئے اپنی چادریں کناروں سے پھاڑ کر ان سے اپنے چہرے کیلئے نقاب بنالئے ۔

٭ ایک شہید کی والدہ ام خلاد رضی اللہ عنہا شہدا میں اپنے بیٹے کی لاش تلاش کررہی تھیں ۔ کسی نے کہہ دیا کہ ایسی پریشانی اور گھبراہٹ کے موقع پر بھی تم نے چہرے پر نقاب ڈالا ہوا ہے ! انہوں نے ایمان افروز جواب دیتے ہوئے فرمایا : ''میرے بیٹے کا جنازہ اٹھا ہے ۔ میری حیا کا جنازہ تو نہیں اٹھا!''
٭ حضرت عائشہ رضی اللہ عنھا فرماتی ہیں : ہم حج کے موقع پر حالت احرام میں حضور علیہ السلام کے ساتھ سفر کررہی تھیں ۔ حجاج کرام ہمارے قریب سے گزر تے تو ہم اپنی چادر کو سر سے نیچے لٹکا کر چہرہ چھپا لیتیں اور جب لوگ آگے نکل جاتے تو ہم پھر چہرہ کھول لیتیں ''۔
٭واقعۂ افک میں حضرت عائشہ رضی اللہ عنھا فرماتی ہیں : ''میں نے اپنا چہرہ اپنے جلباب سے چھپالیا ''۔
M Jehan Yaqoob
About the Author: M Jehan Yaqoob Read More Articles by M Jehan Yaqoob: 251 Articles with 285434 views Researrch scholar
Author Of Logic Books
Column Writer Of Daily,Weekly News Papers and Karachiupdates,Pakistanupdates Etc
.. View More