تحریک آزادی٬ شمسی ائیر بیس اور ڈرون حملے

شیخ شرف الدین سعدی ؒ ایک حقائق میں تحریر کرتے ہیں کہ دو آدمیوں نے دیکھا کہ کچھ لوگ آپس میں لڑائی کررہے ہیں اور ایک دوسرے پر جوتے اور پتھر پھینک رہے ہیں ان میں سے ایک آدمی نے اس دنگے فساد سے پرے ہٹ کر اپنی راہ لی اور دوسری طرف چل دیا جبکہ دوسرا بیچ بچاﺅ کرانے کیلئے لڑنے والوں کے درمیان جا گھسا لڑنے والوں نے کیا باز آنا تھا الٹا اس چھڑانے والے کے سر پر ایک پتھر اس زور سے لگا کے خون جاری ہوگیا ۔شیخ سعدی کہتے ہیں کہ اس کا یہی انجام ہونا تھا کیونکہ داناﺅں نے کہا کہ کوئی شخص اپنے آپ کو بچائے رکھنے والے سے بہتر نہیں ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔

قارئین اس وقت امریکہ بہادر نے پاکستانی ایڈمنسٹریشن کی طرف سے جب شمسی ائربیس خالی کرنے کے مطالبے کو بار بار دہراتے دیکھا تو پہلے تو سنی ان سنی کرتے رہے اور آخر میں اتنا بیان دے دیا کہ ہا ں پاکستانی حکومت نے ایسی بات متعدد مرتبہ ہم سے کی ہے لیکن ابھی یہ ممکن نہیں ہے کہ ہم اس ائر بیس کو خالی کردیں ۔

قارئین امریکہ کئی سمندر پار اپنی آزادیوں کی حفاظت اور دنیا کے امن کو درپیش خطرات دور کرنے کیلئے نعرے لگاتا ہوا افغانستان پر حملہ آور ہوا۔ القاعدہ اور اسامہ بن لادن کا ہوا کھڑا کر کے پوری دنیا کو مجبور کیا کہ وہ ”دہشت گردی کے خلاف جنگ“ میں امریکہ کا ساتھ دے اس دوران پاکستان میں جنرل مشرف کو بقول خود” پتھر کے دور میں بھیجنے کی دھمکی “ دے کر بلینک چیک لکھوا یا گیا اور وہ چیک بک بھی امریکہ نے اپنے پاس رکھ لی ۔ اس دور کا کیا گیا سرنڈر اس حد تک بڑھا کہ وہ امریکہ جو طالبان اور القاعدہ پر پاکستان کے ہوائی اڈے اور لاجسٹک سپورٹ استعمال کرتے ہوئے حملے کر رہا تھا آج اس جنگ کو پاکستانی سرحدوں کے اندر لے آیا ہے ۔ ایبٹ آباد واقعہ اس کی مضحکہ خیز ترین مثال ہے جس پر پوری قوم کھڑی ہو گئی اور جب میڈیا نے قومی لیول کے اس احتجاج کو پوری دنیا کے سامنے پیش کیا تو سلیم شہزاد سے لیکر مختلف نوعیت کے واقعات کے ذریعہ میڈیا کو بھی ڈرانے دھمکانے کی کوششیں کی گئیں ۔ آج جب پاکستانی حکومت نے امریکہ سے حکم نما درخواست یا درخواست نما حکم دیکر شمسی ائیر بیس خالی کروانے کی بات کی تو امریکہ کا ردعمل بالکل ویسا ہی ہے جیسا طاقت کے نشے میں چور فرعون اور اس کے گماشتوں کا بنی اسرائیل کے سامنے ہوا کرتا تھا آج ہم ذلت کی انہی انتہاﺅں تک پہنچ چکے ہیں جن تک بنی اسرائیل کی قوم پہنچی تھی اور حتیٰ کہ ان کی جان مال کے ساتھ ساتھ ان کی ناموس بھی فرعونی قوتوں کے ہاتھوں تاراج ہونا شروع ہو گئی تھی اللہ تعالیٰ نے اس وقت فرعون سے مقابلہ کرنے کےلئے حضرت موسیٰ ؑ کو ذمہ داریاں دیں اور انہوں نے ایک بڑی جدوجہد کے بعد بنی اسرائیل کو فرعون کی غلامی سے نجات دلائی آج پاکستانی قوم بھی ایک نجات دھندہ کی طرف دیکھ رہی ہے جو آئے اور انہیں ذلت ، بے بسی ، بے غیرتی اور بے حسی کی اس دلدل سے نکال کر انہیں دنیا میں عزت کے ساتھ جینے کا سلیقہ سکھائے ۔

قارئین! ہماری اس غلامی در غلامی کا نتیجہ یہ نکلا کہ بھارتی وزیراعظم من موہن سنگھ نے یہ گل افشانی کی کہ پاکستان سے ہم امید رکھتے ہیں کہ وہ مسئلہ کشمیر کو بھول جائے گا جنرل مشرف کے دور میں امریکی اشاروں پر ناچتے ہوئے تقسیم کشمیر کی داغ بیل ڈالی گئی اور یہ سلسلہ یہاں تک آن پہنچا کہ کشمیر کو سات حصوں میں تقسیم کرنے کی پلاننگ کو بیک ڈور ڈپلومیسی کے ذریعہ عمل درآمد کےلئے منظور کر لیا گیا لیکن جنرل مشرف کے دور میں بھی بھارت کو یہ جرات نہ ہوئی کہ وہ پاکستان سے تمسخر آمیز انداز میں کشمیر کو بھول جانے کی بیان بازی پر اترے آج پاکستان پیپلزپارٹی اور آصف علی زرداری کی حکومت کا امتحان ہے کہ وہ ذوالفقار علی بھٹو شہید اور بے نظیر بھٹو شہید کے نظریہ کشمیر پر عمل کرتے ہیں یا اپنی طرف سے کوئی نئی بات کر کے قوم کےلئے ایک اور سرپرائز سامنے لیکر آتے ہیں اس وقت یہ ان کا بھی امتحان ہے ، پاکستانی قوم کا بھی اور کشمیری قوم کا امتحان تو ہے ہی ۔۔۔!

قارئین! یہاں پر سمجھنے والی بات یہ ہے کہ آخر کیا وجہ ہے کہ گزشتہ دس سال کے دوران پہلے ”کروسیڈز یعنی صلیبی جنگوں “ کی بات کر کے اسلامی دنیا کو تسلی دینے کےلئے غلطی سے ایسا کہہ دینے کی بات کی گئی اور اس کے بعد عراق سے لیکر افغانستان تک اور اس کے بعد پاکستان کے اندر خون کی ندیاں بہا دی گئیں ایران کے حکمران احمد ی نژاد تک کو یہ بیان دینا پڑ گیا کہ اس وقت پاکستان کے جوہری اثاثے شدید خطرات سے دوچار ہیں امریکہ ، برطانیہ ، یورپ اور نیٹو ممالک آخر کیا ایجنڈا رکھتے ہیں اور ان ایجنڈاز کے جواب میں پاکستانی حکومت اور پالیسی میکرز کی کیا تیاریاں ہیں ۔۔۔؟کشمیر پالیسی کو اگر رول بیک ہی کرنا تھا تو سوا لاکھ سے زائد کشمیریوں کو مسلح جدوجہد میں کیوں مروایا گیا ۔۔۔؟ایسے کئی سوالات کا جواب قوم چاہتی ہے اور پاکستان پیپلزپارٹی کی موجودہ حکومت شائد یہ جواب دینے سے قاصر ہے اس وقت قوم غالب کے ان اشعار کی شکل اختیار کر چکی ہے ۔
ایک ایک قطرے کا مجھے دیناپڑا حساب
خون ِجگر ، و دیعت ِمژگان ِیار تھا
اب میں ہوں اور ماتم ِیک شہر ِآرزو
توڑا جو تو نے آئینہ تمثال ِدار تھا
گلیوں میں میری نعش کو کھینچے پھرو کہ میں
جاں دادئہ ہوائے سرِرہ گزار تھا
موج ِسراب ِ دشتِ وفا کا نہ پوچھ حال
ہر ذرہ مثل ِ جوہر ِ تیغ آب دار تھا

اس وقت پاکستان کی گلیوں کوچوں میں موت کا رقص جاری ہے اور اس کی وجہ صرف اور صرف اپنے افغان اور کشمیری بھائیوں سے کی جانے والی بے وفائیاں اور کج ادائیاں ہیں پاکستان نے انکل سام کے دھوکے میں آکر افغانستان کو تو اپنا دشمن بنا لیا ہے اب کہیں کشمیریوں کو بھی نگاہ پھیر کر دشمنی پر مجبور نہ کر دے کشمیری پاکستان سے کبھی بھی دشمنی نہیں کر سکتے لیکن اگر اپنے بڑے بھائی سے کشمیری مایوس ہو گئے تو تحریک آزادی کشمیر کوئی اور رخ اختیار کر لے گی اور وہ کچھ بھی ہو پاکستان کے مفاد میں نہیں ہو گا پاکستان کے پالیسی ساز اس نازک مرحلے پر سامنے آئیں اور دور اندیشی کا مظاہرہ کریں یہی وقت کا تقاضہ اور پاکستانیوں اور کشمیریوں کے دلوں کی آواز ہے ۔۔۔

آخر میں حسب روایت لطیفہ پیش خدمت ہے
ایک فوجی کو چھٹی چاہیے تھی وہ اپنے بریگیڈئیر کے پاس گیا اور کہا کہ مجھے چھٹی چاہیے بریگیڈئیر نے کافی سوچنے کے بعد اسے ٹالنے کی غرض سے کہا ۔
”تمہیں چھٹی صرف اس صورت میں مل سکتی ہے کہ تم جا کر دشمن کا ایک ٹینک لے آﺅ “
فوجی گیا اور تھوڑی دیر بعد دشمن کا ٹینک لے کر آگیا یہ دیکھ کر بریگیڈئیر بڑا حیران ہوا اور پوچھنے لگا کہ یہ تم نے کیسے کیا ۔
فوجی نے کہا کہ جناب یہ کون سے بڑی بات ہے جب انہیں بھی چھٹی کی ضرورت ہوتی ہے تو وہ بھی ہمارا ٹینک مانگ کر لے جاتے ہیں۔

قارئین! اب دیکھنے کی بات یہ ہے کہ ہم جنگ کو مذاق کی طرح لیتے ہیں یا مذاق کے پیرائے میں دی گئی من موہن سنگھ کی دھمکی کو سنجیدگی سے سمجھ کر اس کا جواب دینے کی کوشش کرتے ہیں۔اگر ہم سنجیدہ نہ ہوئے تو شائد کرائے کے ٹینکوں والا لطیفہ ہم جیسے لوگوں کےلئے ہی بنا ہے ۔
Junaid Ansari
About the Author: Junaid Ansari Read More Articles by Junaid Ansari: 425 Articles with 340489 views Belong to Mirpur AJ&K
Anchor @ JK News TV & FM 93 Radio AJ&K
.. View More