پنچایتی انتخاب : دیو استبداد جمہوری قبا میں پائے کوب

سنا تھا کہ سوویت یونین کے بکھر جانے پر روس میں جمہوریت لوٹ آئی اور ایک مافیا حکومت کرنے لگا۔ جمہوریت کی نیلم پری پر فریفتہ سیدھے سادے ہندوستانیوں کے لیے یہ بات ناقابلِ یقین تھی لیکن اتر پردیش میں یوگی ادیتیہ ناتھ اس کا نظارہ کروادیا۔ اتر پردیش میں 3 ہزار میں سے 6 پنچایت کے ارکان بھارتیہ جنتا پارٹی کے تھے اور 74 میں 67 پنچایتوں کے صدر بی جے پی کے ہوگئے ۔ یہ رام للا کا چمتکار نہیں ڈنڈے کا اپکارہے۔ پولس والے اگر بندوق سمیت کسی کے گھرآکر پچاس لاکھ سے ایک کروڈ تک کا لفافہ تھما کر بولیں کہ یہ پکڑو یا بلڈوزر تیار ہے ۔ ایسے میں ہوش اڑ جاتا ہے ۔ کیسی سائیکل اور کیسا ہاتھی ، پانی کا نلکہ بھی بک جاتا ہے ۔بارہ اور چابک کی یہ حکمت عملی ہے کہ مندر کے نام پر عوام سے چندہ جمع کرو۔ زمین خریدنے کی خاطر اس میں گھپلے کرکے عوامی نمائندوں کو خریدکرراج کرو ۔ جمہوریت اپنی جگہ محفوظ رہے ، انتخابی عمل بھی زور وشور سے چلتا رہے اور مافیا کی حکومت بھی جاری و ساری رہے۔ اس طرح کم ازکم اتر پردیش کے پنچایت انتخاب میں دیو استبداد جمہوری قبا سے باہر آکر اپنا جلوہ دکھا دیا ہے ۔ اگلے صوبائی انتخاب میں وہ منہ چھپا کر بھاگ جائے گا یا پھر سے پوری ریاست پر چھا جائے گا یہ تو وقت ہی طے کرے گا ۔

بھارتیہ جنتا پارٹی کے بارے میں دعویٰ کیا جاتا ہے یہ دنیا کی سب سے بڑی اور امیر ترین پارٹی ہے لیکن سچ تو یہ ہے کہ یہ دنیا کی بدعنوان ترین سیاسی جماعت ہے۔ کروڈوں روپئے خرچ کرکے انتخاب لڑنا اور ناکامی کی صورت حزب اختلاف کے ارکان اسمبلی کو مہنگے داموں پر خرید کر حکومت بنانا حرام کی کمائی سے ہی ممکن ہے ۔ آر ایس ایس کے بارے میں کہا جاتا تھا کہ وہ بدعنوانی سے پاک ہے لیکن رام مندر کی بدعنوانی کے شعلوں نے اس کو بھی اپنی لپیٹ میں لے لیا ہے۔ اس سے پہلے کہ یہ آگ سنگھ کے خرمن کو خاکستر کردیتی اس نے ایودھیا مندر کی تعمیر کے کام کی نگرانی ازخود اپنے سر اوڑھ لی اورغیر رسمی طور پر سابق سکریٹری جنرل بھیا جی جوشی کو اس کا نگرانِ کار مقرر کردیا ۔ یہ اس بات کا ثبوت ہے کہ وزیر اعظم کے ذریعہ مقرر کردہ چمپت رائے اب قابلِ اعتماد نہیں رہے ۔ ایودھیا مندر کی خاطر 3 ہزار کروڈ روپئے جمع کیے گئے ہیں اور اس پر دس ہزار کروڈ کرچ کیا جانا ہے۔ 3ہزار میں اتنے گھپلے ہوگئے تو دس ہزار میں کیا ہوگا اس کا اندازہ لگانا مشکل نہیں ہے۔

آر ایس ایس کے رہنما اب بھی میڈیا میں ڈھٹائی سےخود کو کلین چٹ دیتے ہوئے کہہ رہے ہیں کہ اس معاملے میں کوئی بدعنوانی نہیں ہوئی۔ سوال یہ ہے اگر یہی حقیقت ہے تو اس بزرگ سنی میں بھیا جی جوشی کو زحمت کیوں دی گئی؟ بیداری کے زعم میں مبتلا سنگھ کو اس بار اس وقت ہوش آیا جب اس کی اعتباریت مٹی میں مل چکی تھی ۔ جمعرات 25 ؍ جون کو ممبئی میں ٹرسٹ کی ایمرجنسی نشست سے قبل زمینی حقائق کی جانچ پڑتال کے لیے دتا ترے ہوسابلے کو ایودھیا جانا چاہیے تھا اور بہتر یہ ہوتا کہ میٹنگ بھی وہیں ہوتی لیکن اس کا مقصد بدعنوانی کی روک تھا م تو تھا ہی نہیں اس لیے لکھنو یا دہلی کے بجائے ممبئی کا انتخاب کیا گیا ۔ اس میں سنگھ کی جانب سے سابق سکریٹری جنرل بھیا جوشی اپنے کچھ ساتھیوں کے ساتھ شریک ہوئے نیز ٹرسٹ کے جنرل سکریٹری چمپت رائے ، خازن مہاراج گووند دیو گری اور ٹرسٹ کے رکن انل مشرا نے شرکت کی۔ ان میں چمپت رائے تو سارے تنازع کے مرکز میں ہیں ۔ سارے ارکان ٹرسٹ کو چھوڑ کر اسی انیل مشرا کو بلایا جاتا ہے جو لین دین میں گواہ کے طور موجود تھا اور خازن تو بہرحال ادائیگی کرواتا ہے اس لیے ان کو بھی بلایا گیا۔

ان شرکاء سے یہ توقع تھی ہی نہیں کہ وہ سچائی بتائیں گے اور یہی ہوا۔ سارا فیصلہ صرف ایک فریق کی سن کےکرلیا جائے اس نتیجہ وہی نکلے گا جو کہ نکلا ۔ اس نشست میں یہ طے پایا کہ اگر زمین پر اٹھائے گئے اعتراضات غلط ہیں تو ہتک عزت کا دعویٰ کیا جائے ۔ اس کے دو معنیٰ ہیں ایک یہ کہ وہ درست بھی ہوسکتے ہیں ۔اس صورت میں عدالت کا رخ نہ کیا جائے لیکن جو لوگ اس ملوث ہیں ان کو کیا سزا دی جائے اور آئندہ اس قسم کی بدعنوانی کو روکنے کے لیے کیا کیا جائے؟ اس بابت کوئی بات ذرائع ابلاغ میں نہیں آئی۔ عدالت میں جانے کے لیے اچھل کود کرنے والے ٹرسٹ کو معلوم ہونا چاہیے وہ اس کاروبار کو کس نظر دیکھتا ہے۔ ایودھیا میں شری رام ہوائی اڈے کی تعمیر کے لیے تحویل میں لی جانے والی زمین کے خلاف دھرم پور گاوں کے سیکڑوں کسانوں نے عدالت سے رجوع کیا۔ شکایت کنندگان کی شکایت ہے کہ بغیر کسی نوٹیفکیش کے یہ زمین سے بے دخل کران کا حق پامال کیا جارہا ہے۔

اس مقدمہ کی سماعت کے دوران عدالت نے کہا کہ ہوائی اڈے کی تعمیر سے متاثر ہونے والوں کے ساتھ بہتر سلوک کیا جائےکیونکہ ان کی جائیداد جارہی ہے اور 2013کے ضا بطوں کی بجا آوری بھی نہیں ہورہی ہے۔ عدالت نے سخت ہدایت کی کہ جب تک شکایت کنندگان برضا و رغبت تیار نہیں ہوتے انہیں مجبور نہ کیا جائے۔ ٹرسٹ پر الزام ہے کہ زمین کی خریداری سرکل ریٹ سے ہٹ کر ہورہی ہے۔ زمین کی خرید کا کئی اصول و ضابطہ نہیں وضع کیا گیا۔ اس لیے انتظامیہ من مانے طریقے پر کسانوں کو کم نرخ پر زمین فروخت کرنے پر مجبور کررہا ہے۔ ہائی کورٹ نے اس طریقہ پر فوراً روک لگانے کا حکم دیا اور جواب طلب کیاہے۔ اس معاملے ہائی کورٹ کے سوالات بہت واضح ہیں۔ اس نے پوچھا ا ٓخری بار سرکل ریٹ میں ترمیم کب کی گئی؟ کس قانون و ضابطے کے مطابق زمین لی جارہی ہے؟ جواب دینے کی خاطر ہائی کورٹ نے ڈی ایم سمیت تین افسران کو 29 ؍ جون کے دن حاضر ہونے کا حکم دیا ۔ جسٹس راجن رائے اور سوربھ لوانیا کی بنچ کے سامنے یہ شکایت ویسے تو اپریل میں آئی لیکن لگتا ہےبدعنوانیوں کے سامنے آنے پر وہ سنجیدہ ہوگیا ۔ ۱۱؍ جون کے بعد دوسری سماعت 23 جون اور اگلی 29؍جون کو رکھ دی گئی۔ ایسے میں اگر ٹرسٹ عدلیہ کا رخ کرے گا تو وہ خود اپنے پیر پر کلہاڑی مارلے گا لیکن ان احمقوں سے بعید نہیں کہ وہ اس طرح کی حماقت کربیٹھیں ۔

آر ایس ایس نے اپنی مذکورہ نشست کے بعد وزیر اعظم کے کان میں نہ جانے کیا پھونک دیا کہ مودی جی دو دن بعد رام مندر کا نقشہ کھو ل کرایسے بیٹھ گئے جیسے وہی اس پروجیکٹ کے چیف انجینیر ہیں ۔مودی جی ایودھیا میں جاری ترقیاتی کاموں کا جائزہ تو لیالیکن زمین خریداری کو لے کر ہونےوالے مبینہ گھوٹالے پر لب کشائی نہیں کی حالانکہ ’نہ کھاوں گا اور نہ کھانے دوں گا‘ کانعرہ لگانے والے چوکیدار کا اصل کام تو یہی ہے۔۔ اپوزیشن لیڈران نے پی ایم مودی سےکروڑوں روپے کے زمین گھوٹالہ معاملہ میں سخت رخ اختیار کرنے کا مطالبہ کیا تھا اور سادھو-سَنتوں کے ایک طبقہ نے بھی وزیر اعظم سے قصورواروں کے خلاف کارروائی کرنے کی بات کہی تھی۔ امید کی جا رہی تھی کہ ورچوئل میٹنگ میں اس تعلق سے گفت و شنید ہوگی لیکن ایسا نہیں ہوا۔ میٹنگ میں صرف ایودھیا کے ترقیاتی کاموں اور منصوبوں کے بارے میں بات ہوئی۔وزیراعظم نے دعویٰ کیا کہ ایودھیا شہر ثقافتی طور پر ہر ہندوستانی کے دل میں بسا ہے اور اس لئے اس کی ترقی کا کام صحت مند عوامی شراکت داری سے کیا جانا چاہیے تا کہ اس کی ثقافتی اہمیت کو بڑھایا جاسکے۔ ایسا لگتا ہے اس شراکت داری کو فروغ دینے کا کام زمین مافیا کررہا ہے جس کے سبب بہت جلد رام بھکتوں کو دل کا دورہ پڑنے والا ہے۔

اتر پردیش کے پنچایتی انتخاب کی جانب لوٹتے ہوئے پروفیسر اپوروانند کی ایک گفتگو یاد آتی ہے۔ انہوں نے غیر اعلانیہ ایمرجنسی سے متعلق کہا تھا کہ ملک میں اسے بزور قوت نافذ کرنے کی ضرورت اس لیے محسوس نہیں ہوتی کیونکہ لوگوں نے اسے برضا و رغبت قبول کرلیا ہے۔ پروفیسر صاحب کے مطابق موجودہ حکومت نے مسلمانوں اور کسی حدتک دلتوں کے علاوہ باقی عوام کو یہ یقین دلا دیا ہے کہ ان کا کچھ نہیں بگڑے گا ۔ اس تناظر میں پنچایت کی انتخابی حکمت عملی کا جائزہ لے کر یہ پتہ چلانا چاہیے کہ جن تقریباًتین ہزار ارکان پنچایت کو خریدا یا ڈرایا گیا ۔ جن کو اغواء کیا گیا یا یر غمال بنایا گیا ، ان میں سے کتنے مسلمان اور دلت تھے ۔ کیا اس طرح کے سلوک سے اکثریت کا کچھ نہیں بگڑا ۔ کیا وہ سب اس جبرو استبداد کو برضا و رغبت قبول کرکے اس پر فخر کرتے ہیں۔ پروفیسر اپوروانند جیسے دانشوروں کااپنی جان جوکھم میں ڈال کر اقلیتوں کی حمایت کرنا یقیناً قابلِ ستائش ہے لیکن اب ان کی توجہ کا مرکز ہندو سماج ہونا چاہیے۔ وہ اگر اکثریت کو سرکاری ظلم و جبر کے خلاف کھڑا کرسکیں تو بڑی تبدیلی آسکتی ہے۔ یوگی سرکار نے یہ ثابت کردیا ہے کہ انتخاب جیتنے کی خاطر ہندو مسلمان کا فرق مٹا کر سبھی کو کچلتی ہے ۔ مسلمان تو اس کے خلاف علم بغاوت بلند کرتے ہیں لیکن ہندو کیوں نہیں کرتے؟ این آر سی اور سی اے اے سے بہت آگے نکل کر اس سوال کا جواب تلاش کرنا ان ہندو دانشوروں کی ذمہ داری ہے جو اس مافیا راج کے مخالف ہیں ۔

Salim
About the Author: Salim Read More Articles by Salim: 2049 Articles with 1240175 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.