طالبان اور بھارت میں مذاکرات

طالبان کے ہاتھوں امریکہ اورنیٹو سمیت اس کے اتحادیوں کی بدترین شکست کے بعد افغانستان میں نئی خانہ جنگی کے خدشات پیدا ہو رہے ہیں۔امریکہ اپنے نئے اتحادی بھارت کو خطے میں کردار دینے کی کوشش کر رہا ہے۔طالبان کے خلاف جنگی آپریشنز کے باوجود بھارت نے طالبان کے ساتھ بات چیت کا سلسلہ شروع کیا ہے۔ دوحہ، قطر میں جون کے دوسرے ہفتہ کے دوران بھارتی وزیر خارجہ ایس جے شنکر نے خاموشی سے دو بار دورہ کیا اور طالبان رہنما ملا برادر، خیر اﷲ ، شیخ دلاورسے ملاقات کی۔ بھارتی عہدیداروں نے براہ راست طالبان کے ساتھ بات چیت کی۔بھارت کے طالبان کے ساتھ رابطوں کا اعتراف قطر کے خصوصی ایلچی برائے انسداد دہشتگردی مطلق بن ماجد القہتانی نے کیا۔عرب سنٹر واشنگٹن اور دوحہ کے سنٹر فار کنفلکٹ اینڈ ہیومن ٹیرین سٹڈیزکی افغانستان امن کانفرنس میں ان کا کہنا تھا کہ چونکہ افغانستان کے مستقبل میں طالبان کا نمایاں کردارہو گا ، اس لئے بھارت اور طالبان کے درمیان بات چیت ہوئی۔ بھارت نے افغانستان میں بہت سرمایہ کاری کی ہے اور پاکستان افغانستان کا پروسی ملک ہے۔ اس لئے دونوں چاہتے ہیں کہ ان کا مستقبل میں ملک پر اثر انداز ہونے والی قوتوں کی قربت حاصل کریں۔ بھارت ترقی اور تعمیر نو کی آڑ میں افغانستان مین قدم جمانا چاہتا ہے۔ اس کی کوشش ہو گی کہ طالبان یا ان کے زیر اثر عناصر کشمیر میں اس کے لئے کوئی مسلہ پیدا نہ کریں۔

بھارتی وزیر خارجہ نے 9اور15جون کو کویت اور کینیا جاتے ہوئے دوحہ میں قطر کے وزیر خارجہ ، قومی سلامتی کے مشیر اور اگٖانستان کے لئے امریکی خصوصی ایلچی زلمے خلیل زاد سے ملاقاتیں کیں۔ قطر گزشتہ عرصہ میں افغانساتن امن عمل میں کافی متحرک رہا ہے۔ قطر حکومت 2013سے دوحہ میں طالبان کے مرکزی دفتر چلانے میں سہولیات فراہم کر رہی ہے۔ اس نے ستمبر2020میں انٹرا افغان طالبان ڈائیلاگ کا انتظام کیا۔ جس میں بھارتی وزیر خارجہ اور بھارتی وفدشریک ہوا، جس کی قیادت بھارت کے جوائنٹ سیکریٹری برائے ایران، پاکستان، افغانستان جے پی سنگھ نے کی۔ پاکستان اور افغانستان میں گزشتہ دو دہائیوں کے دوران امریکا اور نیٹو فورسز مطلوبہ نتائج حاصل کرنے میں ناکام رہی ہیں۔ روس کے وزیر دفاع سرگئی شوئیگر نے افغانستان میں پائیدار امن کے لیے ایران اور پاکستان کے کردار کو اہمیت دیتے ہوئے خبردار کیا ہے کہ امریکی فوجیوں کے انخلا کے بعد خطے میں خانہ جنگی شروع ہوسکتی ہے۔

طالبان اور بھارت کے درمیان ان رابطوں سے نئی دہلی یہ چاہے گی کہ طالبان پاکستان کی مرضی کے برعکس بھارت کے لئے بھی نرم رویہ اختیار کریں۔دوسری طرف امریکہ اور مغربی ممالک پاکستان پر چین سے قربت کم یا ختم کرنے کا دباؤ ڈال رہے ہیں۔ وزیراعظم عمران خان نے خود اس کا اعتراف کیا کہ جو کچھ بھی ہو، جیسا بھی دباؤ دالا جائے، پاکستان اور چین کے مابین تعلقات کو تبدیل نہیں کیا جا سکتا۔ امریکہ نے کواڈ کے نام سے جو علاقائی اتحاد تشکیل دیا ہے جس میں بھارت سمیت جاپان، آسٹریلیا، امریکہ شامل ہیں۔

امریکہ طالبان کی پیش قدمی کے بعد انتباہ کر رہا ہے کہ اگر طالبان نے حملے بند نہ کئے یا افغانستان پر قبضہ کی جنگ ختم نہ کی تو اس پر فضائی حملے ہوں گے۔ افغانستان کے400سے زیادہ اضلاع میں اس طالبان نے100سے زائد پر قبضہ کر لیا ہے۔ اگر امریکہ نے اپنے انخلاء کے عمل کے دوران جنرل اسکاٹ ملر کی دھمکی کے مطابق طالبان پر فضائی حملے شروع کئے تو تو اس کے لئے مشکلات بڑھ جائیں گی۔ افغان حکومت کی چار ہزار اہلکاروں پر مشتمل ریپڈ ری ایکشن فورس ، جس کی سربراہی سابق فوجی افسران کر رہے ہیں، طالبان کا مقابلہ کیسے کرے گی، اس کا اندازہ آئیندہ دنوں میں ہو جائے گا۔

امریکہ بھی پیغام دے رہا ہے کہ افغانستان کے لئے امریکی مالی مدد صرف اسی صورت میں جاری رہ سکتی ہے جب اس ملک میں ایسی حکومت بنتی ہے جسے سب تسلیم کریں۔پرویز مشرف کے دور حکومت سے روس اور پاکستان کے درمیان دوریاں کم ہوئی ہیں۔ روس نے ماضی میں بھارت کی خطے میں توسیع پسندی کے عزائم کو فروغ دیا ہے۔ اب اگر طالبان ایک بار پھر کابل پر تسلط قائم کرنے میں کامیاب ہو گئے تو بھارت کا اثر ختم ہو جائے گا۔ بھارت کے افغانستان میں پاکستان مخالف اڈے بند ہو جائیں گے۔ اسی لئے بھارت خطے میں اپنی موجودگی برقرار رکھنے کے لئے زور لگا رہا ہے۔ پاکستان کو اس صورتحال میں بھارت کا افغانستان میں اثر ختم کرنے کے لئے سفارتکاری تیز کرنے پر توجہ مرکوز کرنا چاہیئے۔
 

Ghulamullah Kyani
About the Author: Ghulamullah Kyani Read More Articles by Ghulamullah Kyani: 710 Articles with 485784 views Simple and Clear, Friendly, Love humanity....Helpful...Trying to become a responsible citizen..... View More