رزق کی ناقدری کیوں؟


رزق عربی زبان کا لفظ ہے، جس کے لغوی معنی ’’عطا‘‘کے ہیں خواہ دنیاوی عطا ہو یا اخروی۔ عربی زبان میں رزق اﷲ تعالیٰ کی ہرعطاکردہ چیزکوکہاجاتاہے۔مال، علم،طاقت، وقت، اناج سب نعمتیں رزق میں شامل ہے۔ غرض ہر وہ چیز جس سے انسان کو کسی نہ کسی اعتبارسے فائدہ پہنچتا ہو وہ رزق ہے۔ رزق اﷲ تعالی کی ایسی نعمت ہے، جس کی تقسیم کا اختیار اﷲ تعالی نے اپنے پاس رکھا ہے۔ اﷲ تعالی کا ارشادہے’بلاشبہ اﷲ تعالی تو خود ہی رزاق ہے، مستحکم قوت والا ہے۔‘‘ (الذاریات)قرآن مجید میں بندوں کو یہ حکم دیاگیاہے کہ وہ اﷲ کی نعمتوں سے خوب فائدہ اٹھائیں؛مگر اعتدال سے تجاوز نہ کریں،ارشادباری ہے:اور خوب کھاؤ اور پیو اور حد سے مت نکلو، بے شک اﷲ حد سے نکل جانے والوں کو پسند نہیں کرتے ہیں۔ (الاعراف)ایک اور موقع پر فرمایاگیا: کھاؤ جو پاک چیزیں ہم نے تمہیں روزی دیں اور اس میں زیادتی نہ کرو کہ تم پر میرا غضب اترے اور جس پر میرا غضب اترا بے شک وہ ہلاک ہوا (جہنم میں گیا)۔(طٰہ) اْم المومنین حضرت میمونہ رضی اﷲ عنہا کو راستے میں چلتے ہوئے ایک انار کا دانہ ملا۔ انہوں نے جیسے ہی دیکھا اْٹھا لیا اور یوں فرمایا: اﷲ پاک رزق ضائع کرنے والے کو پسند نہیں کرتے۔ یعنی اگر میں نہ اْٹھاتی تو یہاں کسی کی نظر نہ پڑتی،اس طرح یہ چیز ضائع ہوجاتی اور رزق کا ضائع ہوجانامیرے اﷲ کو پسند نہیں۔ معلوم ہوا کہ گرے ہوئے لقمے یا رکھی ہوئی چیزوں کو کھانے اور استعمال کرنے میں ہم لوگ جوعار محسوس کرتے ہیں، یہ عار صحیح نہیں ہے بلکہ تواضع کی علامت یہ ہے کہ انسان اﷲ کی نعمت کو ضائع نہ ہونے دے،اسی سے رزق میں اضافہ ہوگا۔اسلام نے خرچ کرنے میں اعتدال ومیانہ روی کا حکم دیا ہے اور اسراف وفضول خرچی سے منع کیا ہے، اور یہی اس کا مقرر کردہ راستہ ہے، اور اس کی پابندی انہیں لوگوں سے ممکن ہے؛ جن کے پاس قناعت کی دولت اور جذبہ ایمانی ہے۔یوں تو حق تعالیٰ کی ان گنت نعمتیں بارش کے قطروں کی طرح مسلسل برس رہی ہیں اور زمین پر پھیلی ہوئی تمام مخلوقات ان سے برابر مستفید ہورہی ہیں۔مگرغور کیا جائے تو جس نعمت کا سب سے زیادہ ضیاع دیکھنے میں آرہاہے،وہ ’’رزق ‘‘ہے۔بروقت غذا کا حاصل ہوجانا ایسی بے بہا نعمت ہے جس سے دنیا کی تقریباً بیس فیصد آبادی محروم ہے۔افسوس صد افسوس کہ رزق کی ناقدری اور کھانے کی بے حرمتی کے اس جرم میں غیر مسلم تو غیرمسلم مسلمانوں کی بڑی تعداد بھی برابر کی شریک ہے۔کچھ لوگوں پر معیار زندگی کو اونچا بتانے اور خود کو مال دار ظاہر کرنے کاخبط اس طرح سوار ہے کہ وہ زندگی کے ہر موڑپرضروریات کے بالمقابل خواہشات کوترجیح دیتے ہیں، شادی بیاہ اور دیگر تقریبات میں شاہ خرچیوں کواپنا حق بتاتے ہیں اورمحض جذبہ نمائش کی تسکین اور مقابلہ آرائی کے لیے انواع و اقسام کے کھانے تیار کرواتے ہیں پھر انفرادی و اجتماعی سطح پر کھانے کا خوب ضیاع ہوتا ہے اور دل کو یہ احساس تک نہیں ہوتا کہ کتنے فاقہ کش ایسے ہیں جو نان شبینہ کے محتاج اور بھکمری کا شکار ہیں، انہیں آتش شکم بجھانے کے لئے کوئی معمولی چیز بھی میسر نہیں، کئی علاقوں میں کئی لوگ خط افلاس سے نیچے کی زندگی بسر کرنے پر مجبور اور دانے دانے کے لیے پریشان ہیں۔ہزاروں بچے روزانہ بھوک یا غذائی کمی سے موت کے منہ میں جا رہے ہیں،اور دوسری طرف رزق کی ناقدری کا حال یہ ہے صرف امریکا میں 50فی صد خوراک کوڑے کی زینت بنتی ہے۔ برطانیہ میں 20 ملین ٹن خوراک ضائع کردی جاتی ہے۔ جاپان میں 101.6ارب ڈالر مالیت کی خوراک تلف ہوجاتی ہے۔ برصغیر میں کھانا ضائع کرنے کے اپنے ڈھنگ ہیں، جس میں سرفہرست شادی ہے۔ایک حالیہ جائزے کے مطابق ہرسال شادیوں میں نو سو پچاس ٹن غذائی اشیاء ضائع ہوجاتی ہیں۔ سالانہ تین سو انتالیس کروڑ روپے کا کھانا شادیوں میں برباد ہوتا ہے۔ ایک تحقیق کے مطابق ترقی یافتہ اور ترقی پذیر ممالک کے بڑے شہروں میں جس قدر خوراک کا ضیاع ہوتا ہے اس کے دسویں حصے سے دنیا میں بھوک سے مرنے والے لاکھوں افراد کو دو وقت کا کھانا فراہم کیا جا سکتا ہے۔غذا کو کچرے میں پھینکنے والاانسان اس بات سے لاتعلق ہے کہ ٹھیک اسی لمحے بے شمار انسان بھوک سے مر رہے ہیں۔ بھوک سے مرنے والے انسانوں کے اعداد و شمار ہوش رباہیں اور دور جدید کے انسان کی بے حسی پر ماتم کنا ں بھی، صرف شمالی کوریا میں اب تک پچاس لاکھ افراد قحط کے ہاتھوں ہلاک ہوچکے ہیں،اس وقت بھی 15 لاکھ سے زائد انسان افریقی ممالک میں مرنے کے قریب ہیں۔ اب دیکھتے ہیں کہ اسلامی ممالک کی کیاحالت زارہے؟؟ متعدد رپورٹوں کے مطابق سالانہ ربوں مالیت کی خوراک ضائع کی جاتی ہے۔ بلکہ وہاں پر توازن، خوراک کے ضیاع کی روک تھام کے لیے باہمی تعاون، خوراک کی قیمت اور اس کے ضیاع و اسراف سے بچنے اور خوراک کے تقدس کو یاد رکھنے، کھانے کی مقدار کو کم کرنے کے لیے ایک انتہائی موثر طریقہ کار تک پہنچنے کی اہمیت پر زور دیا جا رہاہے۔ایک ایسے وقت میں جب کہ دنیا وبائی امراض اور معاشی بحران سے دوچار ہے،اس بات کی شدت سے ضرورت محسوس کی جا رہی ہے کہ خوراک کے تحفظ کے نظام میں بہتری لائی جائے؛ تاکہ کسی بھی قسم کی آفات میں عوام کی خوراک کی ضروریات کو پورا کیا جا سکے۔ اقوام متحدہ کے ادارہ برائے خوراک و زراعت کے مطابق دنیا بھر میں ہر سال پیدا ہونے والے اناج کا ایک تہائی ضائع کر دیا جاتا ہے جبکہ ضائع کردہ کھانے کی مقدار تقریباً 1.3 ارب ٹن ہے۔اگر اس رحجان کو روکا نہ گیا تو 2030 تک ضائع کردہ کھانے کی مقدار 02 ارب ٹن سے تجاوز کر جائے گی۔




 

Haji Latif Khokhar
About the Author: Haji Latif Khokhar Read More Articles by Haji Latif Khokhar: 141 Articles with 98402 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.