یادِ رفتگان بقلم افضل رضوی/ تدوین و ترتیب سید محمد ناصر علی

یادِ رفتگان بقلم افضل رضوی/ تدوین و ترتیب سید محمد ناصر علی
(تقریظ)

٭
پروفیسر ڈاکٹر رئیس احمد صمدانی
پروفیسر ایمریٹس منہاج یونیورسٹی، لاہور
عَزِیزِ مَن افضل رضوی جو آسٹریلیا کے شہر ایڈیلیڈکے باسی ہیں پر ان کا وطن اول پاکستان ہی ہے۔مستند و معتبر لکھاری، کالم نگار، نقاد، ماہر تعلیم، اقبالؔ شناسوں میں اہم مقام رکھتے ہیں۔ ان کا پیغام ملا کہ ان کے تحریر کردہ مضامین جو اانہوں نے دنیا سے رخصت ہوجانے والے ادیبوں، شاعروں، صحافیو ں اور چند مذہبی شخصیات پر لکھے تھے کا مجموعہ ”یادِ رفتگان“کے عنوان سے کراچی میں مقیم ان کے دوست جو میرے بھی کرم فرماؤں میں سے جناب سید محمد ناصر علی نے ترتیب دیا ہے، میں اس پر تقریظ تحریر کروں۔ چند دن بعد یہی پیغام سید ناصر علی کی جانب سے بھی موصول ہوا، انہوں نے مُجَوَزَہ کتاب کا مسودہ بھی ارسال فرمایا۔ دونوں ہی صاحبانِ علم و فضل ایک سمندر پار دوسرا میرے ہی شہر کا باسی، دونوں ہی سے قلبی،علمی اور ادبی تعلق، انکار کی گنجائش ہی نہیں تھی۔ تقریظ لکھنے کی روایت بہت قدیم ہے۔ مولانامحمد جمیل احمد نے’تقریظ الکتاب‘ کا مطلب صاحب کتاب اور موادِ کتاب کی خوبیاں بیان کرنا لکھا ہے۔ اسی طرح ڈاکٹر سید عبد اللہ کا خیال ہے کہ’کسی ادب پارے کی تعریف و تحسین خالی انداز سے کرنا تقریظ کہلاتا ہے‘۔سرسید نے آئین اکبری جو بنیادی طور پر 1590 ء میں ابو الفضل نے لکھی تھی ڈھائی سو سال بعد اس کی تدوین نو کی اور غالبؔ سے تقریظ کی فرمائش کی، غالب نے تقریظ میں اس کتاب کے بارے میں دیگر باتوں کے علاوہ خیال ظاہر کیا کہ ’یہ قدیم جسم سے پرانے کپٹرے اتار کر یا نیا لباس پہنانے کی کوشش ہے‘۔ نتیجہ یہ ہوا کہ سر سید نے اس تقریظ کو اپنی کتاب میں شامل نہیں کیا۔ راقم از خود اس بات کے حق میں نہیں کہ کتاب کی تقریظ، پیش لفظ، دیباچہ یا مقدمہ جو کتاب شائع ہونے سے قبل لکھی جائے میں کتاب کی منفی باتوں کا ذکر کیا جائے۔ اگر کوئی بات سامنے بھی جائے تو وہ مصنف کو آگاہ کردینا چاہیے تاکہ وہ اس کی تصیح کر لے۔ میری رائے میں تقریظ توصیفی کلمات کا نام ہے۔یہ کسی بھی مصنف کی حوصلہ افزائی کا باعث بھی ہوتی ہے۔ البتہ کتب شائع ہوجانے کے بعد تبصرہ و تجزیہ میں نقائص کی نشاندھی کی جاسکتی ہے۔
’یادِ رفتگان‘افضل رضوی صاحب کے ان مضامین کا مجموعہ ہے جو وہ مختلف اخبارات، رسائل، ویب سائٹس پر ان شاعروں، ادیبوں کے بارے میں لکھتے رہے ہیں جنہوں نے دور کہیں اپنی بستیاں بسالی ہیں۔ فراق گورکھپوری کا شعر ؎
اب یادرفتگان کی بھی ہمت نہیں رہی
یاروں نے کتنی دور بسائی ہیں بستیاں
رفتگاں جمع ہے رفتہ کی یعنی’مرے ہوئے لوگ، گزرے ہوئے لوگ‘، دنیا کو چھوڑجانے والوں کو بے شمار مصنفین نے اپنا موضوع بنایا،
اور بنانا بھی چاہیے تاکہ دنیا سے چلے جا نے والوں کی علمی ادبی خدمات کو آنے والی نسلوں سے متعارف کرایا جاسکے۔رفتگاں کے موضوع پر راقم الحروف کا ایک مجموعہ بعنوان ”وہ جو اب ہم میں نہیں“ کے عنوان سے2019ء میں شائع ہوچکا ہے جس میں 34علمی و ادبی شخصیات کا تذکرہ ہے۔ مجموعہ مرتب کرنے کے دورا شعر یہ ہوا تھا۔
جن کو اکثر دیکھا تھا ہم نے اپنی حیات میں
قلم بند انہیں کررہا ہوں زندگی کی کتاب میں
پروفیسر انور جمال نے اپنی کتاب ’اَدَبی اِصطلاحات‘ میں لکھا ہے کہ ’تذکروں کی تاریخ سے پتہ چلتا ہے کہ تذکرہئ ’شعراء کے سوانحی حالات، واقعات و عادات، طور طریقوں اور شعری صلاحیتوں کو بیان کرنے کا نام ہے۔ ان تذکرون میں شعراء کی چشمک، مشاعروں کے واقعات شاگردوں کے کلام کی اصلاحیں سمیت سب کچھ شامل ہے۔ یوں تذکرہ تحقیق کے دائرے میں داخل ہے‘۔چنانچہ افضل رضوی نے یہ ایک تحقیقی کام کیا ہے جس میں شاعر بھی ہیں ادیب بھی، افسانہ نگار بھی ہیں تنقید نگاربھی، صحافی بھی ہیں اور استاد بھی، صرف تفریق یہ ہے کہ یہ خوبصورت ہستیاں وہ ہیں جو اس دنیائے فانی کو الوداع کہہ چکیں ہیں۔ سکندر علی وجد سچ کہا ؎
جانے والے کبھی نہیں آتے جانے والوں کی یاد آتی ہے
افضل رضوی کا میدان عمل نباتات ہے، وہ سائنسداں اور استاد ہونے کے ساتھ ساتھ اقبال شناس بھی ہیں، علامہ ڈاکٹر محمد اقبالؔ پر نباتات کے حوالے سے ان کی معرکتہ ا لأرا تحقیق ”دربرگ ِ لالہ و گل“ کے عنوان سے دو جلدیں منظر عام پر آچکیں ہیں جب کہ تیسری جلد کی آمد آمد ہے۔لاہور ان کا وطنِ اول جب کہ آسٹریلیا ان کا وطنِ ثانی ہے، اس سے قبل وہ دوحہ میں بھی خدمات سر انجام دے چکے ہیں۔آسٹریلیامیں وہ 2001ء سے کسب معاش کے ساتھ ساتھ اردو زبان اور علم و ادب کے میدان میں کارہائے نمایاں سرانجام دے رہے ہیں۔ مَیں بلا تَردُد کہہ سکتا ہوں کہ افضل رضوی کی تحریروں میں پختگی، لطافت، اچھوتا پن،جمالیاتی حسن صاف عیاں ہے۔ وہ اپنی تحریروں کو حوالوں سے مزین اور تحقیق سے معتبر بناتے ہیں۔پیش نظر مجموعہ کا اولین مضمون ’اردو ادب کا مزاح اور عہد یوسفی: ایک طائرانہ نظر‘ کی تحریر تو اپنی جگہ ادبی شہ پارہ ہے اس کے ساتھ ہی یہ مضمون 28حوالوں سے آراستہ کیا گیا ہے۔ یہ تحریر اس وقت کی ہے جب افضل رضوی دوحہ میں تھے اور یوسفی صاحب سے ان کی کئی ملاقاتیں رہیں، یہ مضمون یوسفی صاحب سے ملاقاتوں اور ان کے تحریر کردہ مزاح کے مطالعہ کا حاصل ہے۔اس میں انہوں نے یوسفی صاحب سے اپنی ملاقاتوں اور بعض دلچسپ واقعات کا ذکر بھی کیا ہے۔کسی بھی تحریر کو حوالے ہی معتبر اور راست بناتے ہیں۔ اسی طرح مجموعہ کا آخری مضمون ”ڈاکٹر ڈاکٹرجمیل خاں جالبی:اردو زباب و ادب کے عہد ساز محقق، نقاد و مترجم“ ہے۔اس تحریر کو مصنف نے 26حوالوں سے مزین کیا ہے۔اردو زبان کی ترقی اورادب کے فروغ میں افضل رضوی کی علمی و ابی نگارِشات نے انہیں منفرد مقام عطا کردیا ہے۔کتاب کے مرتب سید ناصر علی نے درست لکھا کہ ”افضل رضوی نام کے ہی افضل نہیں ہیں‘ بلکہ ان کی شخصیت ہمہ جہت پہلو ہے اور ہر پہلو قابلِ رشک، بہترین استاد، اعلیٰ منتظم، محقق، قلم کار، شاعر، مزید کئی اور کلغیاں ان کی اور ان کے کام کی نشاندہی کرتی اور افضل کرتی ہیں“۔
’یادِ رفتگان‘ کے مرتب سید ناصر علی تدوین و اشاعت کے علاوہ ایک اچھے کہانی کار، خاکہ نگار، مزاح نگار کی حیثیت سے ادب کی دنیا میں معروف ہیں۔وہ گزشتہ چار عشروں سے قلم وقرطاس سے جڑے ہوئے ہیں۔ ان کی نوکِ قلم سے بے شمار مضامین، کالم اور تصانیف و تالیفات منظر عام پر آچکی ہیں۔ان کی تصانیف میں قلم رکنے سے پہلے، خاکے کہانیاں، بہ زبان قلم، گلدستہئ مضامین شامل ہیں۔ بقائی یونیورسٹی کے شعبہ مطبوعات سے وابستہ ہیں، جہاں پر وہ تدوین و اشاعت میں اپنی مہارت کے جوہر دکھارہے ہیں۔اس حوالہ سے کئی تالیفات مرتب کر چکے ہیں۔سید ناصر علی نے جامعہ کراچی سے صحافت اور جامعہ پنجاب سے سیاسیات میں ماسٹرکیا، اس ناطے سے صحافی ہیں، مصنف و مؤلف ہی نہیں فوٹوگرافی اور مصوری کے شہسوار بھی ہیں۔انہوں نے وزارت خارجہ کے ریسرچ ڈا ئیریکٹر یٹ میں خدمات سے اپنی عملی زندگی کا آغاز کیا، سعودی عرب میں بھی اپنی خدمات کے جوہر دکھائے، کنسپٹ رائیٹر اور پروڈکشن ہاوس میں عملی تجربہ حاصل کیا۔ کالج آف فزیشن اینڈ سرجن میں ڈائریکٹر پریس اینڈ پبلی کینشنز رہے۔اس وقت بقائی میڈیکل یونیورسٹی کے شعبہ مطبوعات میں خدمات سرانجام دے رہے ہیں۔
پیش نظر مجموعہ میں 17مضامین شامل ہیں اکثریت شعراء کی ہے جن میں جوشؔ ملیح آبادی، احسان دانشؔ، ن۔م۔راشدؔ، ساغرؔ صدیقی، پنجابی زبان کے شاعر بلھے شاہ اور استاد چراغ دین دامن ؔ شامل ہیں۔ ناول نگار اور ڈرامہ نگاروں میں بانو قدسیہ اور فاطمہ ثریہ بجیا، افسانہ نگاروں میں سعادت حسن منٹو اور مرزا ادیب اور انتظار حسین، نقاد ڈاکٹر انور سدید، صحافیوں میں حمید نظامی اور نواب زادہ نصراللہ خان ناصرؔ، محقق، نقاد و مترجم ڈاکٹر جمیل جالبی،عالمِ دین، ادیب اور ماہر لسانیات و ادبیات اردو، فارسی، و عربی مفتی حافظ امیر علی صابری شامل ہیں۔ جہاں تک میری معلومات ہیں کہ افضل رضوی نے بہت سی شخصیات کو اپنا موضوع بنایا ہے لیکن مرتب نے جن شخصیات کا انتخاب کیا ان کے بارے میں ان کا لکھنا ہے کہ ”افضل رضوی کے یہ وہ مضامین ہیں جو گزشتہ دہائیوں میں اخبارات، رسائل میں طبع ہوئے یا پھر ہماری ویب اور پاکستان آسٹریلیا لٹریری فورم کی ویب کے توسط سے شائقین کے ذوق سلیم کی تسکین کا محور بنے اور اس سے پذیرانی حاصل کی۔ ان میں کچھ وہ مضامین بھی ہیں جو قطر اور جنوبی آسٹریلیا (ایڈیلیڈ) کی ادبی محلوں میں افضل رضوی نے پڑھے اور پذیرائی حاصل کی“۔
افضل رضوی کا اسلوب سادہ، ساتھ ہی خالص ادبی ہے وہ اپنی بات کو آسان الفاظ میں بیان کرتے ہیں۔ اپنی بات میں وزن پیدا کر نے اور تحریرکو تحقیقی رنگ و روپ دینے کے لیے مختلف مصنفین کی کتابوں اور مضامین کے حوالے دیتے ہیں۔ وہ کوئی بات بلا تحقیق نہیں کہتے، یہی عمل انہیں ممتاز کرتا ہے۔ وہ انتہائی خوش اسلوبی اورسبک رفتاری سے ادبی مواد میں اضافہ کر رہے ہیں وہ قابل تحسین ہے۔اللہ کرے زور قلم اور زیادہ۔ (6جون2021ء)

Prof. Dr Rais Ahmed Samdani
About the Author: Prof. Dr Rais Ahmed Samdani Read More Articles by Prof. Dr Rais Ahmed Samdani: 852 Articles with 1281195 views Ph D from Hamdard University on Hakim Muhammad Said . First PhD on Hakim Muhammad Said. topic of thesis was “Role of Hakim Mohammad Said Shaheed in t.. View More