"ذکر عالمی کتب میلے کا"

سولہویں علمی کتب میلے میں شرکت کا پروگرام بہت پہلے سے ذہن میں تھا۔جب اس کے انعقاد کا مکمل پروگرام منظر عام پر آیا تو اکمل بھائی اور ہم رابطے میں تھے کہ ساتھ چلنا ہے۔لیکن اصل بات یہ تھی کہ ہم کچھ ڈاما ڈول تھے کیوں کہ جنوری کے پہلے ہفتے میں ہی ہمارے چچا زاد بھائی کی شادی کراچی میں طے تھی۔اتنی چھٹیاں اتنے کم وقفے میں ملنا کچھ مشکل لگ رہا تھا۔اکمل بھائی کو بتادیا کہ میرا جانا یقینی نہیں ہے اگر ساتھ چلنا ہوا تو اتوار کی صبح سے شام اس میلے میں شرکت کرینگے۔۔لیکن یہ پروگرام ویٹو پاور کی نظر ہوگیا۔منگل کی دوپہر نوشاد عادل نے فون کیا اور یہ فرمایا کہ آپ لوگ ہفتے کی شام کتب میلے میں پہنچیں۔۔اس کے بعد آپ رات میرے گھر قیام کریں۔۔ہمارے ساتھ محترم نذیر انبالوی صاحب بھی موجود ہونگے۔اب جو نوشاد عادل نے اس رت جگے کے متعلق آگاہ کیا تو ہمارے ارادے جو تقریبا" معدوم ہوچکے تھے یکایک جوان ہوگئے۔فورا" اکمل معروف بھائی سے بات کی اور ہفتے کی دوپہر ڈھائی بجے کا پروگرام طے پاگیا۔مغرب کے بعد گھر پہنچے تو ہمارے ساتھ اینڈیور سروس کی ایک نئی جوڑی جوتے کی بھی تھی۔خواتین ایک معمولی سی تقریب کے لیے بھی بیوٹی پارلر والیوں کا بھلا کر دیتی ہیں تو ہم بھلا اتنے اہم موقع کے لیے جوتے بھی نہ لیتے۔گھر پہنچے ۔اکلوتی زوجہ کو اپنے پروگرام سے آگاہ کیا تو کہنے لگیں کہ آپ تو نہیں جارہے تھے اب ایسا کیا ہوا کہ ۔۔پھر کچھ توقف کے بعد بولیں ۔۔اچھا میں سمجھ گئی۔ضرور نوشاد عادل نے راضی کیا ہوگا۔ہم ان کی فہمیدہ صلاحیتوں پر ایمان لے آئے۔بالکل اسی طرح جیسے ان کی دیگر صلاحیتوں پر ایمان لاتے رہے ہیں۔(یہ سب ہی شوہر حضرات کا مشترکہ ایمان ہے۔)کچھ لمحات بعد بولیں کہ آخر آپ جا کیوں رہے ہیں۔گزشتہ بیس سال سے تو گئے نہیں۔

ہم چپ رہے کہ کیا کہتے کہ اس کا الزام بھی نوشاد عادل کے سر ہے کہ وہی ہمیں پینتیس سال بعد اس قلم قبیلے میں واپس لائے ہیں۔بالاخر ہفتہ کی دوپہر ہم اور اکمل بھائی کراچی کے لیے روانہ ہوگئے۔اکمل بھائی کے بچپن کے دوست (بقول اکمل بھائی کے کہ ہم ایک ہی تھان پر پلے بڑے ہیں۔) جنید عالم کو ہمیں اسٹاپ سے اٹھا کر(پولیس کے اٹھانے سے تعبیر نہ کیا جائے۔)ایکسپو سینٹر پہچانا تھا۔اترنے سے آدھ گھنٹہ قبل ان سے بات ہوئی تو انہوں نے یقین دہانی کرائی کہ میں پہنچ رہا ہوں۔ال آصف کے اسٹاپ پر اترے تو ان کا فون آیا کہ پانچ دس منٹ میں پہنچ رہا ہوں۔ہمیں علم نہیں تھا کہ یہ وہ والے پانچ منٹ ہیں جو سنگھار میز کے سامنے موجود خاتون اپنے شوہر کو بتاتی ہیں کہ بس پانچ منٹ میں آتی ہوں اور شوہر بےچارا گزشتہ ایک گھنٹے سے یہ راگ سن رہا ہوتا ہے۔مرتے کیا نہ کرتے وہیں اسٹاپ پر موجود ایک پٹرول پمپ کے ایک گوشے میں بیٹھ گے۔(صرف محاورتا")۔اکمل بھائی کی ٹانگ میں تکلیف ہے (کبھی کبھی کہیں ٹانگ اڑانے کے علاوہ بھی تکلیف ہوسکتی ہے۔) اس لیے ان کے لیے ایک کرسی کا بندوبست کیا۔اس کرسی میں یہ خاصیت تھی کہ وہ ائیر کنڈیشنڈ تھی یعنی اس میں نشست والی جگہ تقریبا" خالی تھی۔(اس بات کو سمجھنے کے لیے اس گنجے کا تصور کیجیے کہ جس کی درمیان سے چندیا مکمل صاف ہو اور اطراف میں بالوں کی جھالر باقی بچی ہو۔)اسی وجہ سے صاحب کرسی کو "چہار طرف" سے ہوا میئسر تھی یہی نہیں وقت ضرورت اس کرسی کو بطور کموڈ بھی استعمال کیا جاسکتا تھا۔آدھا گھنٹہ گزر گیا مگر جنید عالم جلوہ افروز نہ ہوسکے۔ جنید عالم کے انتظار میں ہمیں فواد عالم کی قومی ٹیم میں واپسی کے انتظار کی کیفیت کا بخوبی اندازہ ہوگیا۔ پھر ان سے بات ہوئی تو بتایا کہ گاڑیوں کے ہجوم میں پھنسے ہوئے ہیں۔ہفتے کی شام اور کراچی کی ٹریفک۔۔نہ پوچھیے کے کیا برا حال ہوتا ہے۔رضیہ غنڈوں میں پھنسی ہو تو نکل جانا ممکن ہے مگر کراچی کے ٹریفک میں پھنسی گاڑی کا نکل جانا اتنا ہی مشکل ہے جتنا بغیر جیب گرم کیے سرکاری دفاتر میں کام نکلوانا۔بہرحال مذید پندرہ منٹ بعد جنید عالم تشریف لے آئے۔اس وقت تک ہم الآصف کے پٹرول پمپ پر کھڑے خوشگوار ہوا سے فیض یاب ہوتے رہے۔وہاں چلنے والی ہوا بہت صحت افزا تھی۔ بس سو سوا سو فیصد آلودگی لیے ہوئے تھی کیوں کہ قریب ہی ریتی بجری کے ڈھیر لگے ہوئے تھے اور گاڑیوں کے لطیف اور صحت بخش دھویں کی سہولت اضافی دستیاب تھی۔جنید عالم کے گھر چائے و دیگر لوازمات کے ساتھ انصاف کرنے کے بعد عازم منزل ہوئے۔ایکسپو سنٹر کی پارکنگ سے خراما خراما مرکزی عمارت تک پہنچے تو کچھ چونک گئے کہ کہیں غلط جگہ تو نہیں آگئے۔کسی خواتین کے کپڑوں کی پچاس فیصد والی سیل یعنی لوٹ سیل آوٹ لیٹ پر تو نہیں آگئے کہ ہم نے خواتین کا اتنا ہجوم وہیں دیکھا ہے۔حضرات بھی خاصی بڑی تعداد میں تھے۔ویسے خواتین کے اتنے ہجوم کے مطابق اتنے حضرات کی موجودی تو بنتی ہے۔بہرحال کتابوں کے لیے اتنا ہجوم دیکھ کر دل باغ باغ ہوگیا۔ویسے یہ دل ہے کہ چیچوں کی ملیاں۔کبھی باغ باغ ہوجاتا ہے،کبھی پاگل ہوجاتا ہے۔کبھی لٹو ہوجاتا تو کبھی دیوانہ ہوجاتا ہے۔اسی دل بیچارے کا خاتون لکھاریوں نے بھی کیاحال کیا ہے۔مثلا دل مٹی کا دیا،دل پھولوں کا شہر،دل اک درد کا دریا ۔۔اور بھی ن نہ جانے کیا کیا۔

بہت سرشاری کے عالم میں ہال نمبر تین میں داخل ہوئے(ویسے یہ سرشاری دوپہر سے ہی تھی اور شاید اکمل بھائی بھی اسی کیفیت میں تھے۔آخر دوری کا فیض بھی تو کوئی چیز ہے جناب۔اس فیض کی اہمیت صرف مظلومین شادی ہی سمجھ سکتے ہیں۔)

ہرطرف لوگ ہی لوگ تھے۔اس وقت ساڑھے آٹھ بج چکے تھے ۔اکثیریت واپس جارہی تھی۔بہت ہی خوش آئند بات تھی کہ تقریبا" سب کے ہی پاس اپنی خریدی گئی کتب موجود تھیں۔کچھ تو گتے کا کارٹن بھی اٹھائے ہوئے تھے۔(ان میں اکثیریت شوہروں کی لگ رہی تھی ۔ ان کہ منہ پہ صاف لکھا تھا کہ میں اک شوہر ہوں۔بیچارے پہلے صرف بچوں کے بیگ اور بچے اٹھاتے تھے آج کتابوں کے کارٹن اٹھائے دکھائی دے رہے تھے۔) جلدی جلدی بچوں کا کتاب گھر پہنچے۔جہاں نوشاد عادل اور محبوب الہی مخمور بھائی پہنچ چکے تھے۔وہاں پہنچے تو محترم کاوش صدیقی اور نذیر انبالوی صاحب بھی موجود تھے۔سب ہی معزز قلم کار بہت محبت سے ملے۔اسٹال کے دلہا فہیم عالم صاحب اور خواجہ مظہر سے بھی ملاقات ہوئی۔ کاوش بھائی مسلسل قارئین کو اپنی کتابوں پر آٹو گراف دے رہے تھے۔

کاوش بھائی اور نذیر بھائی سے اولین ملاقات تھی۔ان کے خلوص اور انکساری کا کیا ذکر کیا جائے۔وہ جتنے بڑے ادیب ہیں اس سے بھی بہتر انسان ہیں۔نو بج چکے تھے۔اسٹال بند ہونا شروع ہوگئے تھے۔ہم اور اکمل بھائی بھاگم بھاگ ہال نمبر ایک میں ذوق و شوق کے اسٹال پر پہنچے جو بند ہو چکا تھامگر اندر کچھ اصحاب موجود تھے۔ہم دونوں نے اپنا تعارف کروایا تو ہمیں فورا" اندر بلالیا جہاں رسالے کے مدیر عبدالعزیز صاحب اور معاون مدیر طلحہ شاہین موجود تھے۔دونوں ہی صاحبان ہم دونوں سے غائبانہ وافقیت رکھتے تھے۔ انہوں نے ہمیں قلم بھی تحفتا" پیش کیے۔اب تمام اسٹال ہی بند ہوچکے تھے۔واپسی کے لیے مرکزی دروازے سے باہر نکلے تو اختر بھائی( ابن آس بھائی) مل گئے۔ان سے یہ پہلی ملاقات تھی۔ان کے ساتھ صاحب طرز ادیب امجد جاوید بھی تھے۔دونوں سے کچھ منٹ کی ملاقات ہوئی۔اکمل بھائی اور دیگر ساتھی پارکنگ میں ہمارے منتظر تھے اس لیے دونوں معزز ادیب صاحبان سے کل ملاقات کے وعدے کے بعد رخصت ہوئے۔اب ہمارے ساتھ نذیر انبالوی بھائی بھی تھے۔ان کے ساتھ بھی ہلکی پھکی بات چیت کا سلسلہ چل رہا تھا۔کچھ دیر بعد نوشاد عادل بھائی کے دولت کدے تک پہنچ گئے ۔یہ کراچی کی نئی آبادیوں میں سے ایک سعدی ٹاون میں واقع ہے۔نوشاد بھائی کا نیا گھر بہت خوب صورت اور شاندار ہے۔دروازے پر ان کے دونوں بچوں اور ان کی بیگم یعنی ہماری بھابھی(ہماری اور ان کی عمر کے فرق کے حساب سے بہو بھی کہا جاسکتا ہے مگر ہم بھابھی لکھ کر اپنی خودی بلند کرتے رہیں گے۔)گھر پہچنے کے کچھ دیر بعد ہی کھانے کا اہتمام کیا گیا۔لگتا تھا کہ نوشاد عادل نے اپنے ولیمہ ثانی(نوشاد بھائی خوش نہ ہوں۔۔ عقد ثانی نہیں لکھا ہے۔)کا انتظام کیا ہے۔بہت عمدہ اور لذیز کھانا تھا۔جس کے بعد چائے کا دور بھی چلا۔نذیر بھائی کی ادب اطفال کے لیے بہت خدمات ہیں۔ابھی ان کا ذکر نہیں کرسکتے کہ مضمون بہت زیادہ طویل ہوجائے گا۔نذیر بھائی ہمیں کہانی لکھنے کے لیے قابل قدر مشورے دیتے رہے اور اپنے تجربات سے مستفید کرتے رہے۔کچھ دیر بعد جنید عالم رخصت ہوگئے۔اکمل بھائی کے یہ دوست بہت بہترین انسان ہیں۔ان کے جانے کے ہم چہل قدمی کے لیے باہر نکل آئے۔اکمل بھائی ٹانگ کی تکلیف کی وجہ سے نہ آسکے۔باہر خاصی خنکی تھی۔فضا بہت لطیف تھی۔اسی دوران نذیر بھائی نے ہمارے اور اکمل بھائی کے متعلق کہا کہ آپ دونوں سے پہلی ملاقات ہے مگر لگتا ہی نہیں کہ پہلی بار ملے ہیں۔واپسی پر ادب اطفال پر گفتگو ہوتی رہی۔رات پونے تین بجے مجبورا" یہ دلچسپ رت جگا ختم کرنا پڑا کہ صبح جلدی اٹھنا بھی ہے۔
 

عارف مجید عارف۔
About the Author: عارف مجید عارف۔ Read More Articles by عارف مجید عارف۔: 8 Articles with 5872 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.