علاقائی جامع اقتصادی شراکت داری معاہدہ ، ایک جائزہ

علاقائی جامع اقتصادی شراکت داری معاہدے (آر سی ای پی) کو اپنے اقتصادی حجم اور آبادی کے لحاظ سے دنیا کا سب سے بڑا آزاد تجارتی معاہدہ (ایف ٹی اے) کہا جا رہا ہے۔حال ہی میں یکم جنوری 2022 سے نافذ العمل ہونے والے اس معاہدے میں ایشیا بحرالکاہل کی 15 معیشتیں شامل ہیں جن میں دنیا کی چند بڑی معیشتیں جیسے چین اور جاپان وغیرہ بھی آتے ہیں۔اسی طرح آبادی کے اعتبار سے بھی چین کے ساتھ ساتھ انڈونیشیا جیسے بڑے آبادی کے حامل ممالک اس کا حصہ ہیں۔ یوں معاہدے میں شامل 15 ممبران کے درمیان تجارتی مصنوعات کے حوالے سے 90 فیصد سے زائد اشیا پر "زیرو ٹیرف" کو ممکن بنایا جائے گا۔ آر سی ای پی اپنی نوعیت اور دیگر امور کے حوالے سے موجودہ کئی آزاد تجارتی معاہدوں سے بالکل الگ ہے۔ اسے ایک جامع آزاد تجارتی معاہدے کی عمدہ مثال قرار دیا جائے تو بے جا نہ ہو گا۔ اس میں اعلیٰ آمدنی والے ممالک جیسے جاپان، جنوبی کوریا، آسٹریلیا، نیوزی لینڈ اور سنگاپور کے ساتھ ساتھ چین، انڈونیشیا، ملائیشیا اور فلپائن جیسی بڑی ابھرتی ہوئی مارکیٹ کی معیشتیں اور کم آمدنی والی معیشتیں جیسے میانمار، لاؤس اور کمبوڈیا بھی شامل ہیں . یوں جنوب مشرقی ایشیا، شمال مشرقی ایشیا اور ایشیا پیسفک کا احاطہ کرنے والا ایک ممتاز آزاد تجارتی بلاک وجود میں چکا ہے۔

آر سی ای پی کے تحت سروس ٹریڈ، سرمایہ کاری، دانشورانہ املاک کے حقوق، ای کامرس وغیرہ کے حوالے سے متعلقہ ضابطے بنائے گئے ہیں، جو دنیا میں موجود اعلیٰ ترین معیارات کے عین مطابق ہیں۔ماہرین کے نزدیک آر سی ای پی علاقائی اقتصادی بحالی کو فروغ دینے کا ایک انجن ہے۔اقوام متحدہ کی کانفرنس برائے تجارت و ترقی نے اس پیش رفت کو سراہتے ہوئے یہ امید ظاہر کی کہ آر سی ای پی عالمی تجارت کے لیے ایک نئے مرکز کے طور پر ابھرے گا۔

اس معاہدے کو عملی جامہ پہنانے میں چین نے کلیدی کردار ادا کیا ہے ۔دنیا کی دوسری بڑی معیشت کے طور پر چین ہمیشہ تاریخ کی درست سمت میں کھڑا رہا ہے، کثیرالجہتی کا مضبوطی سے دفاع کرتا آ رہا ہے، اور عدل و انصاف کو برقرار رکھا گیا ہے۔ چین کی یہ خوبی بھی اُسے دیگر ممالک سے ممتاز کرتی ہے کہ وہ کبھی بھی ترقی کو صرف چینی عوام تک محدود کرنے کا خواہاں نہیں رہا ہے بلکہ اپنے کھلے پن کے ذریعے زیادہ سے زیادہ ممالک کی ترقی کے سفر میں ان کا شراکت دار رہا ہے۔ چین کی کوشش ہے کہ اپنی انتہائی وسیع مارکیٹ کی بنیاد پر آر سی ای پی کے مؤثر نفاذ کے بعد دیگر شراکت داروں کے ساتھ مل کر علاقائی اقتصادی اور تجارتی ثمرات کو وسعت دی جائے تاکہ زیادہ سے زیادہ بیرونی کمپنیاں چینی مارکیٹ کی ترقی سے ثمرات حاصل کر پائیں۔

یہاں اس حقیقت کا ادراک بھی لازم ہے کہ ماسوائے ورلڈ ٹریڈ آرگنائزیشن کے دنیا میں شاید ہی کوئی اور قواعد پر مبنی تجارتی فریم ورک ہو ، جس میں کم آمدنی والی معیشتیں خود سے ترقی یافتہ شراکت داروں کے ساتھ سامان اور خدمات کی تجارت اور سرمایہ کاری کے لیے یکساں اصولوں کے تحت موجود ہوں ، لیکن آر سی ای پی کے تحت یہ یقینی بنایا گیا ہے کہ کم آمدنی والے ممالک بھی ترقی یافتہ ممالک کی مانند یکساں بنیادوں پر مارکیٹ رسائی کے فریم ورک کا حصہ بنیں اور آزادانہ تجارتی قوانین سے خاطر خواہ فائدہ اٹھا سکیں۔

اپنی جامعیت کے اعتبار سے یہ مختلف تجارتی مسائل کو حل کرنے کے لیے ممبران کے درمیان تعمیری مشاورت کی بھی حوصلہ افزائی کرتا ہے۔ اس معاہدے کی بدولت ایشیابحرالکاہل خطے میں سامان سازی کی تجارت کو بڑھانے اور علاقائی سپلائی چین کو مضبوط بنانے میں مدد ملے گی ، ممبران کو ایک دوسرے کی منڈیوں تک ترجیحی رسائی فراہم کی جائے گی جس سے انہیں سرمایہ کاری کو بڑھانے، ٹیکنالوجیز کا اشتراک کرنے اور نئی نسل کی صنعتی سپلائی چین کو فروغ دینے میں مدد ملے گی۔

حقائق کی روشنی میں وثوق سے کہا جا سکتا ہے کہ آر سی ای پی اس بات کی علامت ہے کہ دنیا میں سب سے بڑی آبادی، سب سے بڑے معاشی اور تجارتی حجم اور ترقی کی وسیع ترین گنجائش کا حامل آزاد تجارتی زون باضابطہ طورپر قائم ہو چکا ہے۔موجودہ وبائی صورتحال کے تناظر میں آر سی ای پی کو بروقت اور اہم ترین معاشی سنگ میل قرار دیا جا سکتا ہے کیونکہ آزاد اور قواعد پر مبنی تجارت کو وسعت دینے سے وبا کے باعث مختلف مسائل سے دوچار عالمی اور علاقائی معیشتوں کو اقتصادی بحالی میں مدد ملے گی اور عالمی سطح پر تجارتی سرگرمیاں بھی بھرپور انداز سے آگے بڑھ پائیں گی۔

 

Shahid Afraz Khan
About the Author: Shahid Afraz Khan Read More Articles by Shahid Afraz Khan: 1122 Articles with 421003 views Working as a Broadcast Journalist with China Media Group , Beijing .. View More