دیکھنے میں تو ترقی ہو رہی مگر حقیقت میں ہم تنزلی کی طرف جا رہے ہیں

وقت اور لمحات برستی برسات کی طرح گرتے چلے جا رہیں ہیں جس طرح برسات کو زمیں پر گرنےسے کوئی نہیں روک سکتا بلکل ایسی طرح وقت کو گزرنے سے بھی کوئی نہیں روک سکتا گھڑی کی سوئیاں ٹک ٹاک چلتی جا رہیں ہیں اور انسانوں کو محدود سے محدود تر کرتی جا رہیں ہیں ترقی کے باوجود بھوک افلاس اور بیماریاں دنیا کو گھیرے ہوئیں ہیں ایسا کیوں ہے ؟ جواب جاننے کی کوشش کرتے ہیں
اس موقع پراس وقت غالب نے کیا خوب کہا تھا
“زندگی جبر مسلسل میں کاٹی ہے
جانے کس جرم کی سزا کاٹی
یاد نہیں ہے
میری ناقص تحقیق کے مطابق حضرت آدم علیہ اسلام کو زمیں پر سزا کاٹنے کے لئے بطور مجرم بھیجا گیا تھا دنیا اتنی ہی اچھی جگہ ہوتی تو کیا سزا کے لئے اسکا انتخاب ہوتا ؟ یہ دنیا تو بس جانوروں کے لئے ہے یہ انکا قدرتی ماحول ہے انسان اسکو اپنی ضرورت کے لئے ڈھال رہا ہے انسان تو اس ماحول کو برباد کر رہا دیکھنے میں ایسا لگتا ہے جیسے انسان ترقی کر رہا ہے لیکن حقیقت بلکل مختلف ہے انسان ترقی کی طرف نہیں تنزلی کی طرف گامزن جاہے
انسان کے کیے جانے والے تمام اقدامات انسان کو تباہی کی طرف لئے جا رہیں ہیں
کیوں ماہرین اور سائیسدان اس خوبصورت دنیا کو چھوڑ کر کر مریخ اور چاند پر دنیا آباد کرنے کا سوچ رہی ہے ایسا کیوں ہے کے امریکہ نے صرف ایک پین تیار کیا جس کی امریکی ڈالر میں قیمت 1ملین ہے جو کے پاکستانی رقم میں تقریباً سولہ کڑوڑ بنتے ہیں اس پین کی خصوصیت یہ ہے کہ یہ خلا میں بھی لکھ سکتا ہے اور عام پینسل میں یہ قابلیت نہیں اور اربوب ڈالر امریکہ روس چین اور برطانیہ اپنے اپنے سپیس پروگرامز میں لگا رہیں ہیں
یہ صرف اور صرف مقابلے کی دوڑ ہے دنیا کی سوپر پاورز کے درمیان
سائیسدانوں کے مطابق تقریبا تین سے چار سو سال بعد یہ زمین انسانوں کے رہنے کے قابل نہ رہے گی جتنی رفتار سے زمین کا ٹمپریچر بڑھ رہا ہے ایک اندازے کے مطابق ہر سال زمین کے درجہ حرارت میں 0.00019ڈگی اضافہ ہوتا چلا جا رہا ہے جتنی رفتار سے گرمی کی شدت میں اضافہ ہو رہا ہے اتنی ہی رفتار سے شدید موسمی تبدیلیاں رونما ہو رہیں ہیں موسموں کا آنا جانا وقت کے ساتھ بدل رہا ہے گلیشیرز پگھل رہیں ہیں اور سمندری طوفان سیلاب بہت شدت سے بڑھتے جا رہیں ہیں انسان نے ماحول کو اتنا تباہ کر دیا ہے کے اوزون تہہ تباہ حالی کا شکار ہے سورج سے نکلنے والی الٹرا وائلٹ شعاعیں زمین پر پہنچ کر جلد کے امراض میں اضافہ کر رہیں ہیں
یہ سب باتیں ایک ہی طرف اشارہ کرتیں ہیں کے انسانوں نے ترقی اور کامیابی کی لالچ میں اس زمین کو برباد کر دیا ہے اور دن رات مشین کی طرح کام کر رہا ہے اور آس پاس ہونے والی خوبصورت چیزوں کو مسلسل نظر انداز کرتا جا رہا ہے یہسب کچھ کرنے کا مقصد ہے صرف اور صرف پیسہ کمانا ہے مقصد کوئی نہیں انسان بھول گیا انسانیت کیا ہے انسان بھول گیا حقوق کیا ہوتے ہیں انسان بھول گیا کے یہ زمین اسکا گھر ہے ایسے برباد کے بجائے آباد کرنا ہے ترقی کی راہ پر گامزن انسان اندھا دھند ترقی کرتا جا رہا پے مگر زمین کو تباہ کرتا جا رہا ہے چائنہ دنیا کی بڑی معیشت ہے انہوں نے معیشت میں اتنی ترقی کر لی کے پولیشن میں نمبر 1 پر ہیں دنیا میں ماسک کرونا کے پیش نظر استعمال ہوا ہے مگر چائنہ مئں یہ اس پہلے پہلے بھی استعمال
ہوتا تھا ائر پولیشن کی وجہ سے
ان سب باتوں سے میں اس نتیجے پر پہنچاہوں کے انسان کو کو زندہ رہنے کے لئے صرف روٹی اور خوراک کی تعلیم اور بنیادی صحت کی سہولیات کی ضرورت ہے اور اس وقت جتنی ترقی ہم کر چکے ہیں اس سے یہ سب ممکن ہے ہم زیادہ سے زیادہ خوراک پیدا کر سکتے ہیں آئٹمز کی جگہ ہم سپیس پروگرام ختم کر کے اس پر ہونے والے اربوں ڈالرز سے دنیامیں موجود ضرورت منددوں کی ضرورت پوری کر سکتے ہیں اور غربت بھوک افلاس اور فاقہ پر قابو پا سکتے ہیں اور انسان ایسی زمین پر ہی سادہ مگر بہترین زندگی گزارسکتا ہے اگر سوچیں تو یہ بہت بڑی بات ہے انسانیت کی اس زمین پر بقاء کے لئے ورنہ اللہ تعالئ قرآن مجید میں فرماتا ہے کہ
“اور زیادہ کی چاہت نے تمہیں گمراہ کر دیا
یہاں تک کے تم قبر کو جا پہنچے “
 

ایڈوکیٹ محمد زید خان
About the Author: ایڈوکیٹ محمد زید خان Read More Articles by ایڈوکیٹ محمد زید خان : 2 Articles with 1392 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.