طاقت کے نئے/ پرانے مراکز اور پاکستان

وزیراعظم پاکستان عمران خان کے حالیہ دورہ روس کو بالکل اسی طرح سے دیکھنا چاہیے جس طرح صدر ایوب خان نے 1961 میں امریکہ کا دورہ کیاجس میں پاکستانی صدر کو یادگار پروٹوکول دیا گیا۔ اصل میں اس وقت امریکہ کو سوویت یونین اور کمیونسٹ بلاک کے مقابل پاکستان کا ساتھ چاہیے تھا اس کے بعد ہی پاکستان مکمل طور پر امریکی کیمپ کا حصہ بنا اور اس کی وجہ سے پاکستان سیٹو اور سینٹو کا بھی ممبر بنا ۔ عمران خان صاحب کی روس میں پزیرائی ایک بار پھر ثابت کر رہی ہے کہ پاکستان کی جغرافیائی حیثیت کتنی اہم ہے تاہم دیکھنا یہ ہے کہ پاکستان کس طرح سے دو بڑی طاقتوں کے مابین توازن کے رستے پر رہتے ہوئے اپنے تعلقات قائم کرتا ہے نیز یہ کہ روس جو کہ اب ایک بار پھر بڑی طاقت کے طور پر دنیا کو اپنی شناخت کروا رہا ہے اس کے ساتھ تعلقات کس نہج پر قائم ہوں گے ۔ان تعلقات کے پاکستان کے معاشی حالات پر کیا اثرات مرتب ہوں گے۔ خاص کر اس صورت میں جب امریکہ اپنے یورپی اتحادیوں کے ساتھ مل کر روس پر پابندیاں عائد کر رہا ہے ۔

پاکستان نے ستر سالہ امریکی تعلقات سے کیا حاصل کیا اس کا اندازہ ہماری موجودہ معاشی صورتحال سے بخوبی لگایا جاسکتا ہے۔قیام پاکستان کے بعد سے لے کر آج تک پاکستان امریکہ تعلقات مدو جزر کے ساتھ بحال ہی رہے تاہم پاکستان کی موجودہ معاشی سماجی صورتحال سے یہ بات واضح ہوجاتی ہے کہ پاکستان ان تعلقات سے نہ تو معاشی خود مختاری حاصل کرسکا اور نہ سفارتی۔قرضوں کی معیشت جو کہ عالمی مالیاتی اداروں کے مرہون منت ہے، یہ ادارے امریکی معاشی نظام کے زیر کنٹرول ہیں اور امریکہ ان اداروں کے ذریعے قرض کی سخت شرائط کی صورت میں پاکستان کا بازو مروڑ تا رہتا ہے۔امریکی امداد سے شروع ہونے والے منصوبے امریکی امداد بند ہونے کے ساتھ ہی بند ہوتے گئے ۔ہر دور میں حاصل ہونے والی معاشی خوشحالی مختصر اور عارضی ثابت ہوئی اور پاکستان بحرانوں کا شکار ہوا۔جیسا کہ صدر ایوب خان کے دور کی معاشی خوشحالی، جس کی مثالیں دی جاتی ہیں کے ساتھ ہی پاکستان دو لخت ہو گیا۔جنرل ضیاء کے دور میں امریکہ کو روس کے خلاف افغانستان میں ہماری ضرورت پڑی تو امریکہ نے ڈالروں سے نوازا لیکن جیسے ہی روس افغانستان سے شکست کھا کر نکلا پاکستان پر معاشی پابندیاں عائد کر دی گئیں۔

9/11 کے بعد دہشت گردی کے خلاف جنگ میں پاکستان نے ایک بار پھر امریکہ کی بھرپور مدد کی اور بدلے میں امریکہ نے بھی پاکستان کو اتحادی ہونے کے ناطے معاشی امداد دی۔لیکن اس جنگ میں پاکستان نے جو نقصان اٹھایا وہ اس معاشی مدد سے کئی گناہ زیادہ تھا جو کہ امریکہ نے پاکستان کو دی۔افغانستان میں جنگ کے دوران پاک امریکا تعلقات میں کئی اتار چڑھاؤ آئے اور افغانستان میں طالبان کے ہاتھوں امریکہ کی شکست کے بعد ایک بار پھر پاکستان امریکہ تعلقات نہایت سردمہری کا شکار ہیں۔
دنیا میں طاقت کا توازن تبدیل ہو رہا ہے۔جب امریکا ویتنام افغانستان ،عراق، لیبیا اور شام کی جنگوں میں الجھا ہوا تھا اس دوران چین نے معاشی میدان میں بہت ترقی کی۔آج چین ایک بڑی معاشی طاقت کے طور پر امریکہ کے مدمقابل ہے۔دوسری طرف روس بھی صدر ولادی میر پوتن کی قیادت میں سیاسی اور معاشی استحکام حاصل کر چکا ہے۔اور ایک بار پھر بین الاقوامی سطح پر اپنی طاقت دکھا رہا ہے۔حالیہ یوکرین جنگ بھی اسی سلسلے کی ایک کڑی ہے۔دنیا سرد جنگ کے بعد آج ایک بار پھر بظاہر دو حصوں میں تقسیم ہوتی ہوئی نظر آرہی ہے۔چین اور روس دو بڑی عالمی طاقتوں کے طور پر ایک دوسرے کے قریب ہو رہے ہیں،جو کہ امریکہ اور اس کے اتحادی نیٹو ممالک کے لیے کسی طور پر خوش آئند نہیں ہے۔وزیراعظم پاکستان عمران خان کے حالیہ دورہ روس پر جہاں دنیا کی نظریں لگی ہوئی تھی اور یہ دورہ اس لیے بھی اہمیت اختیار کر گیا کہ روس نےعین اس روز جب عمران خان روسی صدر کی دعوت پر روس پہنچے،یوکرین پر مختلف اطراف سے بھرپور حملہ کردیا۔مغرب اورامریکا جو کہ اس وقت روس پر سخت ناراض ہیں ،ان کے لیے پاکستانی وزیراعظم کا یوں رو س کے ساتھ ہونا یقینا ناگوار ہوگا۔اگرچہ پاکستان نے یوکرین کے تنازعے کو سفارتی سطح پر حل کرنے پر زور دیا ہے لیکن پاکستانی وزیراعظم کے اس دورے نے دنیا کو باور کروا دیا ہے کہ پاکستان بتدریج اپنے سفارتی اور تجارتی تعلقات طاقت کے دیگر مراکز کے ساتھ استوار کر رہا ہے۔

ایک طویل عرصے تک مغرب اور امریکی کیمپ کا حصہ رہنے کی وجہ سے پاکستان کی سیاسی اور کاروباری اشرافیہ کا بڑا حصہ آج بھی پاکستان کو اسی کیمپ میں رکھنے کی بھرپور کوشش کر رہا ہے۔پاکستانی اشرافیہ اپنی لوٹ مار کا بڑا حصہ مغربی ملکوں میں ہی لے کر جاتی ہے اور انہی ممالک میں ان لوگوں کے عشرت کدے آباد ہیں۔اس لیے یہ لوگ عمران خان کے حالیہ دورہ روس پر بہت تنقید کر رہے ہیں اور خوف پیدا کر رہے ہیں کہ امریکہ بہادر ہم سے ناراض ہو جائے گا،جس کے نتیجہ میں پاکستان پر معاشی پابندیاں لگ سکتی ہیں۔اور حد سے زیادہ مہنگائی اور معاشی عدم استحکام سے دوچار پاکستان مزید بحرانوں کا شکار ہوسکتا ہے۔

ہمیں ضرور یہ جائزہ لینا چاہئے کہ اگر ستر سالہ تعلقات اور صرف امریکی اور مغربی کیمپ میں رہتے ہوئے بھی ہم معاشرتی اور معاشی لحاظ سے دوسروں کے دست نگر ہیں تو مزید ستر سال بھی گزر جائیں تو کیا ہم معاشی لحاظ سے خود مختار ہو جائیں گے۔ہمیں آج نہیں تو کل لازما یہ فیصلہ کرنا ہوگا اور اس بات کو سمجھنا ہوگا کہ معاشی ترقی اور خود مختاری بیرونی امداد اور دوسروں کے سہارے سے نہیں ملتی اس کے لئے ہمیں خود اپنے وسائل کو بروئے کار لاتے ہوئے سخت محنت کرنا ہوگی۔

تحریر :ناصر محمود

 
Nasir Mahmood
About the Author: Nasir Mahmood Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.