سیاسی پستی کیا رنگ لائے گی

سیاسی پستی کیارنگ لائے گی
٭
ڈاکٹر رئیس احمد صمدانی
پاکستان کی جتنی عمر ہے اس سے کچھ کم ہی ہماری عمر ہوچکی۔ ایوب خان کی حکومت کے حالات، واقعات، مادر ملت سے ایوب خان کا مقابلہ، 1965ء کی جنگ اور بھارت کی شکست، صنعتی ترقی،پاکستان میں سیاسی اور معاشی استحکام کے ساتھ ساتھ یہ بھی اچھی طرح یاد ہے کہ ملک میں شکر مہنگی ہوگئی جس پر ایوب خان صاحب کے خلاف رائے عامہ ایسی مخالف ہوئی کہ ان کے خلاف بہت ہی غلط قسم کے نعرے لگے اور ان کا نام ایک وفادار جانور کے ساتھ لیا گیا تو ایوب خان کی غیرت نے یہ گوارہ نہ کیا کہ وہ ملک پر اپنی حکومت کو جاری و ساری رکھ سکیں، لیکن غلطی یہ کی کہ حکومت ایک اور فوجی سربراہ یحییٰ خان کو سونپ دی جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ پاکستان کو بھاری نقصان اٹھانا پڑا ۔ انتخابات ہوئے، مشرقی پاکستان کی جماعت کے شیخ مجیب نے پورے ملک میں اکثریت حاصل کی جب کہ مغربی پاکستان میں بھٹوصاحب کو اکثریت حاصل ہوئی۔ بھٹو صاحب نے اقتدار سنبھالا، ادھرہم اور ادھر تم اور پاکستان دو لخت ہوگیا۔مغربی پاکستان صرف پاکستان بن گیا اور ہماری بد قسمتی کہ ہم نے مشرقی پاکستان کو بنگلہ دیش بنتے دیکھا۔بھٹو صاحب کے دور میں جس منفی سیاست کا آغاز ہوا اس کا تسلسل آج تک جاری ہے۔ نو ستاروں نے بھٹوصاحب کی مخالفت میں کیا کچھ نہ کیا۔ بھٹو صاحب نے اپنے مخالفین کو کن کن القابات سے نہیں نوازا۔پھر نواز شریف کے تینوں ادوار میں، بے نظیر بھٹو کے ادوار میں، آصف علی زرداری کے دور صدارت میں کیا کچھ نہیں ہوا۔ کیا کچھ ایک دوسرے کو نہیں کہا گیا۔ بد قسمتی کہ اس دوران کوئی ایک سیاست داں اقتدار میں ایسا نہیں آیا جو سیاست کو عوام کی خدمت، سیاست میں ادب آداب، شرافت، شائستگی، لحاظ و مروت، رواداری کو فروغ دیتا۔ ہر ایک نے اپنی کرسی کو قائم و دائم رکھنے کے لیے ایسے ایسے حربے استعمال کیے کہ اللہ کی پناہ۔سیاست میں تشدت کے عنصر سے پاک کرنے کی سنجیدہ کوشش نہیں کی گئی۔نتیجہ یہ نکلا جو آج ہمارے سامنے ہے۔ میڈیا کی آزادی کا مطلب یہ ہوکر رہ گیا ہے کہ جو اچھا یا برا چاہو کہہ ڈالو۔ بیہودہ تصاویر ڈالنا چاہو اس پر کوئی ممانعت نہیں۔ یہ کیسی آزادی ہے جس سے کسی کی عزت محفوظ نہیں۔
اس وقت پاکستان میں سیاسی پستی اپنے عروج پر ہے۔ اور اس کی تمام تر ذمہ داری سیاست دانوں پر ہی عائد ہوتی ہے۔ اس لیے کہ یہ نا ختم ہونے والا میچ انہی کے مابین ہورہا ہے۔ بیچاری عوام کچھ ادھر کچھ ادھر تماشائی بنی ہوئی ہے۔سیاست دانوں نے سیاسی مخالفت کو، حصول اقتدار کا مقصد بنا لیا ہے۔ جو کچھ ہم میڈیا پر دیکھ اور سن رہے ہیں کوئی نئی بات نہیں۔ ماضی میں بھی جب کپتان کا سیاست میں وجود بھی نہیں تھا اس دور کے سیاست دانوں کے منہ سے ایک دوسرے کے لیے اِسی قسم کے بدبو دار پھول جھڑا کرتے تھے۔اس کی جہلک میڈیا دکھاتا رہتا ہے۔ سیاست اگر اس بے شرمی کا نام ہے تو اللہ ہم سب کو اس سے محفوظ رکھے۔ ایک دوسرے کا پیٹ پھاڑنے، سڑکوں پر گھسیٹنے، ایک دوسرے کی خواتین کو سیاست میں گھسیٹنے، غرض یہ سب کچھ ہم ماضی میں بھی دیکھ چکے، فرق صرف اس قدر ہے کہ آج ایوانِ اقتدارمیں بیٹھے چہرے مختلف ہیں اور اقتدار کے حصول کو اپنا حق سمجھنے والے اقتدار سے باہر ہیں۔ ماضی میں جو ایک دوسرے کے دشمن اور حلیف تھے آج کے دوست بنے ہوئے ہیں۔ اسی کا نام سیاست ہے۔
ملک اورعوام کی فکر نہ پہلے تھی نہ اب ہے
اقتدار کی حوص پہلے بھی تھی،اب بھی ہے
تمام سیاست دانوں کے بارے میں تو کچھ کہا نہیں جاسکتا کہ ان کی تعلیم کیا ہے، انہوں نے کہاں سے پڑھا ہے البتہ موجودہ سیاست دانوں میں عمران خان اور بلاول بھٹو اعلیٰ تعلیم یافتہ اور باہر کی معروف جامعات سے فارغ التحصیل ہیں، یقینا دیگر کئی بھی پڑھے لکھے ہوں گے۔ لیکن سیاست کے بھوت نے ان سیاست دانوں کی عقلوں کوماعوف کردیا ہے۔ ایک دوسرے کی دشمنی میں اس قدر اندھے ہوگئے ہیں کہ انہیں سوا ئے اس بات کے کہ ایک دوسرے پر جس قدر،جتنی غلیظ زبان اور جملے استعمال کیے جاسکتے ہیں وہ یہ حضرات اس وقت کر رہے ہیں۔ پاکستان کا سمجھدار اور پڑھا لکھا طبقہ سیاست دانوں کی موجودہ روش کو کسی بھی صورت پسند نہیں کر رہا۔ یہ وہ خاموش طبقہ ہے جو انتخابات میں فیصلہ کن کردار ادا کرتا ہے۔ یہ خاموشی سے سب کی سنتا اور سب کو بغور دیکھتا اور خاموشی سے اپنا ووٹ استعمال کرتا ہے۔ سڑکوں پر، گلیوں میں، میدانوں میں، ڈی چوک پر وقت گزارنے اوراپنی پسند کے سیاست دانوں کے حق میں گلے پھاڑ پھاڑ کر نعرے لگانے، مخالفین کے خلاف نعرہ بازی کرکے اپنے لیڈروں کو صرف خو ش کرتے اور اپنا وقت ضائع کرتے ہیں۔ اصل ووٹر جسے خاموش ووٹر کہا جاتا ہے وہ نہ تو سڑکوں پر آتا ہے، نہ جلسوں، ریلیوں اور دھرنوں کا حصہ بنتا ہے۔عوام کا یہ بڑا گروہ انتخابات میں اہم کردار ادا کرتا ہے۔
یہ بھی پاکستان کی تاریخ ہے جو کئی بار دہرائی گئی کہ جب سیاست داں اخلاقیات کی حدود پار کرجاتے ہیں۔ حد سے زیادہ ایک دوسرے پر کیچڑ اچالتے، یہاں تک کہ گالی گلوچ تک نوبت آجاتی ہے۔ ملک کی معاشی، سیاسی، اخلاقی، بیرونی اور اندرونی حالات ابتر سے ابتر ہوجاتے ہیں۔ عوام اس صورت حال سے پریشان ہوجاتے ہیں۔ تو پھر تیسری قوت ”میرے ہم وطنوں“ سے اپنے پیغام کا آغاز کرتے ہوئے تمام سیاسی قوتوں کے منہ بند کر دیے جاتے ہیں، سیاست کا پاسا پلٹ جاتا ہے اور وہ اقتدار کی کرسی کو حسرت بھری نگاہوں سے دیکھتے رہ جاتے اس عمل کے بعد کچھ وقت خاموشی میں گزرتا ہے، عوام سکھ کا سانس لیتی ہے لیکن وہ سیاسی پہلوان اب پھر سے اپنے اختلافات بھلا کر باہم شیر و شکر ہونے کی سعئی کرتے ہیں۔ اگر ماضی میں ہی انسان کے پتر بن جاتے تو یہ دن دیکھنا نہ پڑتے۔لیکن سیاسی پہلوانوں کی عادتیں اتنی پختہ ہوچکی ہیں کہ یہ دنیا سے چلے جائیں گے لیکن اپنی عادتیں نہیں بدلیں گے۔اب بھی وقت ہے کہ اقتدار کی حوص میں غوطہ زن اور اقتدار کے حصول کی کوشش میں سر دھڑ کی بازی لگانے والے سیاست دانوں کو ہوش کے ناخن لینے چاہیے۔ ملک اور عوام پر ترس کھائیں، اپنے اندر کے غصے کو ٹھنڈا کریں۔ گالم گلوچ، بیہودہ گوئی سے بپرہیز کریں، اقتدار آنی جانی شہ ہے، کتنے ہی آئے اور چلے گئے۔ آپ کو اگر اقتدار حاصل ہوبھی گیا تو وہ وقتی ہوگا، زندگی دائیمی نہیں، سب کچھ عارضی اور وقتی ہے۔
حزب اختلاف نے تحریک عدم اعتماد جمع کرادی ہے۔ دونوں جانب سے گولاباری جاری ہے۔ زمینی حقائق کچھ ایسے دکھائی دے رہے ہیں کہ تحریک عدم اعتماد کامیاب ہو یا ناکام دونوں صورتوں میں مشکلات حزب اختلاف کو ہی ہونا ہیں۔ انہوں نے اپنی تمام ترتوانائی عمران کے خلاف اسے ہٹانے میں لگا دی ہے، تحریک عدم اعتماد آخری پتھر تھا وہ بھی دے مارا۔ بعد کی تیاری نہیں، کامیاب ہوگئے تو کیا ہوگا۔ مختلف الخیال، مختلف النظریات، مختلف سوچ رکھنے والے کسی ایک جماعت کے سربراہ کو وزیر اعظم بنانے پر تیار ہوجائیں گے۔ کیا سب مل کر حکومت کا حصہ بنیں گے۔ پھر کیا ہوگا، حکومت چل سکے گی، عمران مظلوم بن کر، زیادہ طاقت ور ہوکر سامنے آئے گا اور مخالفین کے اس گلدستے کو حکومت کیسے کرنے دے گا۔ نتیجہ یہ ہوگا، جو دمادم اس وقت ہورہا ہے وہ ہی دوبارہ شروع ہوجائے گا، کھلاڑیوں کی سمت بدل جائے گی۔ جیسے فٹبال یا ہاکی کے میچ میں پہلے ہاف کے بعد دونوں ٹیمیں اپنے اپنے گول بدل لیتی ہیں۔ ڈیڑھ سال سے بھی کم وقت میں حکومت کس کی اور کیسی چلے گی۔ اگر تحریک عدم اعتماد ناکام ہوجاتی ہے تو عمران اس صورت میں بھی شیر بن کر سامنے آئے گااور حزب اختلاف پھر سے جلسے، جلوس، احتجاج، دھرنے شروع کردے گی۔ اس وقت تک کہ انتخابات کا وقت آن پہنچے گا۔ برداشت کی کمی نے پاکستان کی سیاست میں بڑی خرابی پیدا کردی ہے۔ ہمارے سیاست دانوں کو برداشت، صبر،شائستگی اور حوصلے سے کام لینا ہوگا بصورت دیگر نقصان ملک کا، عوام کی زندگی مشکل سے مشکل ترہوتی جارہی ہے۔(13مارچ2022ء)


Prof. Dr Rais Ahmed Samdani
About the Author: Prof. Dr Rais Ahmed Samdani Read More Articles by Prof. Dr Rais Ahmed Samdani: 852 Articles with 1284473 views Ph D from Hamdard University on Hakim Muhammad Said . First PhD on Hakim Muhammad Said. topic of thesis was “Role of Hakim Mohammad Said Shaheed in t.. View More