کاش بیٹے جانتے

سردار عثمان بزدار بہت اچھی انگز کھیل کر واپس لوٹ گئے کپتان کے اس کھلاڑی نے چوکے بھی لگائے اور چھکے بھی خاموشی سے کام کرنے والا عزت کے ساتھ مستعفی ہوگیا ورنہ سیاست کے اس کھیل میں آگے کیا ہونے جارہا تھا وہ شائد ملک کے لیے اتنا اچھا نہ ہوتا پنجاب میں تو عدم اعتماد اب ختم ہوگئی قومی اسمبلی میں اس وقت کی صورتحال پر ایک نظر ڈالتے ہیں پھر اسکے بعد کچھ مزیدار سی باتیں کرینگے سیاست سیاست تو ہم ہر روز کھیلتے ہیں تحریک انصاف کے ممبران کی کل تعدادقومی اسمبلی 155،پنجاب اسمبلی 185،پختون خواہ اسمبلی 94،بلوچستان اسمبلی 7،سندھ اسمبلی 30،بلتستان اسمبلی 22،آزاد کشمیر 32 اور یہ ٹوٹل 524 ارکان ہیں سوا پانچ سو ارکان میں سے کتنے بکے؟ صرف 12 لوگ پیسہ پانی کی طرح بہایا جا رہا ہو جو جو بھی عہدہ مانگے مل رہا ہو جو ٹکٹ مانگے مل جائے اس کے باوجود صرف 12 بکے اور بکے بھی کون؟راجہ ریاض جیسے جو پیسے کے لیے کچھ بھی کر سکتے ہیں کوئی معتبر آدمی بکا ؟ بکاؤ جہاں بھی ہوگا ضمیر بیچے گا اور اگرضمیر زندہ ہو تو عثمان بزدار جیساجو ہر وقت استعفی جیب میں رکھتا تھا کہ کب کپتان کہہ دے کیونکہ سیاست بڑی بے رحم چیز ہے جو باپ کو قید کرواسکتی ہے اور بھائیوں کو موت کی نید سلادیتی ہے یہی وجہ ہے کہ کچھ ضمیر فروش سندھ ہاؤس میں ڈالروں کیلئے عوام کے ووٹ کو فروخت کر رہے ہیں اور کہتے ہیں کہ ہمارے ضمیرکا فیصلہ ہے سوچنے کی بات ہے کہ ضمیر زندہ ہوتے تو استعفیٰ دیتے پیسے نہ لیتے خیر چھوڑیں ان باتوں کو آج کچھ کھٹی میٹھی اور دلچسپ باتیں کرتے ہیں ایک چٹائی بیچنے والے نے کہا 900 روپے میں خریدیں ساری عمر بیٹھ کر کھائیں حجّام کی دوکان پر لکھا ہوا پڑھاہم دِل کا بوجھ تو نہیں لیکن سر کا بوجھ ضرور ہلکا کر سکتے ہیں لائٹ کی دوکان والے نے بورڈ کے نیچے لکھوایا''آپکے دِماغ کی بتی بھلے ہی نہ جلے مگر ہم سے بتی لے جائیے ضرور جلے گی چائے والے نے اپنے کاؤنٹر پر لکھوایا''میں بھلے ہی عام ہوں مگر چائے اسپیشل بناتا ہوں''ایک ریسٹورینٹ نے سب سے الگ فقرہ لکھوایا''یہاں گھر جیسا کھانا نہیں ملتا آپ اطمینان سے تشریف لائیں الیکٹرونک دوکان پر سلوگن پڑھا تو میں دم بہ خود رہ گیا''اگر آپ کا کوئی فین نہیں ہے تو یہاں سے لے جائیں'' گول گپے کے ٹھیلے پر یوں لکھا تھا''گول گپے کھانے کے لئے دِل بڑا ہو نہ ہو منہ بڑا رکھیں پورا کھولیں '' پھل والے کے یہاں تو غضب کا فقرہ لکھا دیکھا ''آپ بس صبر کریں، پھل ہم دیں گے'' گھڑی کی دوکان پر بھی ایک زبردست فقرہ دیکھا''بھاگتے ہوئے وقت کو اپنے بس میں رکھیں چاہے دیوار پر ٹانگیں یا ہاتھ پر باندھیں'' ایک نجومی نے اپنے بورڈ پر کُچھ یوں لکھوایا''آئیے... صرف 100 روپیہ میں اپنی زندگی کے آنے والے ایپیسوڈ دیکھئے'' بالوں کی ایک کمپنی نے تو اپنے ہر پروڈکٹ پر لکھ دیاہم بھی بال بال بچاتے ہیں اور ایک دندان ساز کا لکھا فقرہ پڑھا تو میں دم بہ خود رہ گیا دانت کوئی بھی توڑے لگا ہم دیتے ہیں ایک دوکان میں لکھا دیکھا دوکان کے اوقات کار صبح 9 سے شام 6 تک اورہم صرف اپنی اوقات میں رہتے ہیں۔آخر میں ایک عربی پوسٹ کا ترجمہ بھی پڑھیں اور اپنے دل پر ہاتھ رکھ کر سوچیں کہ آج کے اس نفسا نفسی کے دور میں ہمارے بچے کہاں کھڑے ہیں ایک بوڑھاآدمی عدالت میں داخل ہواتاکہ اپنی شکایت(مقدمہ)قاضی کیسامنے پیش کرسکے قاضی نے پوچھاآپ کامقدمہ کس کیخلاف ہے؟ اس نے کہااپنے بیٹے کیخلاف قاضی حیران ہوااورپوچھاکیاشکایت ہے،بوڑہے نے کہا،میں اپنے بیٹے سے اس کی استطاعت کے مطابق ماہانہ خرچہ مانگ رہاہوں قاضی نے کہا یہ توآپ کااپنے بیٹے پرایساحق ہے کہ جس کے دلائل سننے کی ضرورت ہی نہیں ہے بوڑھے نے کہا قاضی صاحب! اس کے باوجود کہ میں مالدارہوں اورپیسوں کامحتاج نہیں ہوں لیکن میں چاہتاہوں کہ اپنے بیٹے سے ماہانہ خرچہ وصول کرتارہوں قاضی حیرت میں پڑگیااوراس سیاس کے بیٹے کانام اورپتہ لیکراسے عدالت میں پیش ہونے کاحکم جاری کیا بیٹاعدالت میں حاضرہواتوقاضی نے اس سے پوچھاکیایہ آپ کے والدہیں؟بیٹے نے کہاجی ہاں یہ میر ے والدہیں قاضی نے کہاانہوں نے آپ کیخلاف مقدمہ دائرکیاہے کہ آپ ان کوماہانہ خرچہ اداکرتے ر ہیں چاہے کتناہی معمولی کیوں نہ ہو بیٹے نے حیرت سے کہا،وہ مجھ سے خرچہ کیوں مانگ رہے ہیں جبکہ وہ خودبہت مالدارہیں اورانہیں میری مددکی ضرورت ہی نہیں ہے قاضی نے کہایہ آپ کے والد کاتقاضاہے اوروہ اپنے تقاضے میں آزاد اورحق بجانب ہیں بوڑھے نے کہا قاضی صاحب!اگرآپ اس کوصرف ایک دینارماہانہ اداکرنیکاحکم دیں تومیں خوش ہوجاوں گابشرطیکہ وہ یہ دینارمجھے اپنے ہاتھ سے ہرمہینے بلاتاخیراوربلا واسطہ دیاکریے قاضی نے کہابالکل ایساہی ہوگایہ آپ کاحق ہے پھرقاضی نے حکم جاری کیا کہ ''فلان ابن فلان اپنے والدکوتاحیات ہرماہ ایک دیناربلاتاخیراپنے ہاتھ سے بلاواسطہ دیاکریگا'' کمرہ عدالت چھوڑنے سے پہلے قاضی نے بوڑھے باپ سے پوچھاکہ اگرآپ برانہ مانیں تومجھے بتائیں کہ آپ نے دراصل یہ مقدمہ دائرکیوں کیاتھا جبکہ آپ مالدارہیں اورآپ نے بہت ہی معمولی رقم کامطالبہ کیا؟بوڑھے نے ڑوتے ہوئے کہا قاضی محترم!میں اپنے اس بیٹے کودیکھنے کیلئے ترس رہاہوں اور اس کواس کے کاموں نے اتنامصروف کیاہے کہ میں ایک طویل زمانے سے اس کاچہرہ نہیں دیکھ سکاہوں جبکہ میں اپنے بیٹے کیساتھ شدید محبت رکھتاہوں اورہروقت میرے دل میں اس کاخیال رہتاہے یہ مجھ سے بات تک نہیں کرتاحتیٰ کہ ٹیلیفون پربھی اس مقصدکیلئے کہ میں اسے دیکھ سکوں چاہے مہینہ میں ایک دفعہ ہی سہی میں نے یہ مقدمہ درج کیاہے یہ سن کرقاضی بیساختہ رونے لگااورساتھ دوسرے بھی اوربوڑھے باپ سے کہااﷲ کی قسم اگرآپ پہلے مجھے اس حقیقت سے آگاہ کرتے تومیں اس کوجیل بھیجتااورکوڑے لگواتابوڑھے باپ نے مسکراتے ہوئے کہا''سیدی قاضی!آپ کایہ حکم میرے دل کوبہت تکلیف دیتا '' کاش بیٹے جانتے کہ ان کے والدین کے دلوں میں ان کی کتنی محبت ہے اس سے پہلے کہ وقت گزرجائے اﷲ پاک سب کو سمجھنے اور عمل کرنے کی توفیق عطا ء فرمائے آمین۔
 

rohailakbar
About the Author: rohailakbar Read More Articles by rohailakbar: 795 Articles with 516233 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.