ڈیفیکٹو اسٹیٹ آف آزاد کشمیر

حضرت امام جلال الدین رومیؒ ایک حکایت میں تحریر کرتے ہیں کہ ایک شیخی خورہ ہر روز ہونٹوں اور مونچھوں کو دنبے کی چربی سے چکنا کرکے گھر سے نکلتا اور دوستوں میں شیخی بگھارتا کہ اس نے ایسے ایسے کھانے کھائے ہیں اور مرغن غذائیں تناول کی ہیں یہ باتیں کرتے کرتے ہوئے وہ اپنی مونچھوں پر ہاتھ پھیرتا اور کہتا کہ میری مونچھیں دیکھو کہ مرغن غذاﺅں کے کھانے سے چکنی ہورہی ہیں ،میرے ہونٹ اور مونچھیں گواہ ہیں کہ میں نے چکنی اور لذیذ غذائیں کھائی ہیں اُس کا پیٹ بلاآواز جواب دیتا کہ اللہ تیرا مکر برباد کرے ،تیری شیخی نے پیٹ کی انتڑیوں کو انگاروں پر رکھ دیا ،خداکرے کہ تیری مونچھیں اکھڑ جائیں ،اے بھکاری اگر تو شیخی نہ مارتا تو کوئی سخی ہم پر رحم کرتا ۔اگر تو عیب ظاہر کردیتا اور ظلم نہ کرتا تو کسی آشنا کی جانب سے کوئی مہمانی ہوجاتی ۔

ادھر اس شیخی خورے کے گھر میں ایک بلی آئی اور وہ دنبے کی چربی لے اڑی شیخی خورے کا بچہ اس کے پیچھے بھاگا لیکن بلی اس کے ہاتھ نہ آئی اس کا بچہ خوف کی حالت میں مجمع میں آیا جہاں شیخی خورہ شیخیاں بگھاررہا تھا بچے نے بلی کا قصہ سنایا کہ بلی وہ چربی لے گئی جس سے آپ ہونٹ اور مونچھیں چکنی کرتے تھے یہ سن کر شیخی خورہ شرمندگی سے بے ہوش ہوگیا حاضرین کو رحم آیا اور انہوںنے اس کی دعوت کی اور اسے لذیذ کھانے کھلائے شیخی خورے نے شریفوں میں سچائی کا ذوق دیکھا تو سچائی کا غلام بن گیا ۔امام رومی ؒ اس حکایت کے سبق کے طور پر کہتے ہیں کہ اپنی تکلیف اور پریشانی ظاہر نہ کرنا حکمت ہے مگر اس کے باوجود اترانا اور شیخی بگھارنا حماقت ہے ۔سچ کو ہمیشہ اپنانا چاہیے بالآخر سچ ہی کا بول بالا ہوتا ہے ۔۔

قارئین ہم نے گزشتہ کالم میں اس بات کا ذکر کیا تھا کہ آنے والے چندکالمز میں ہم آزادکشمیر کی موجودہ آئینی حیثیت ،عالمی حالات وواقعات کے تناظر میں تحریک آزادی کشمیر کے مقام اور پاکستانی محکمہ خارجہ سے لے کر کشمیری اور پاکستانی قیادت کے موقف میں پائے جانے والے تضادات کوزذیر بحث لائیں گے اور آج اسی سلسلے میں امام رومی ؒ کی یہ حکایت تمام داستان بیان کررہی ہے ناجانے کیوں 1947ءسے لے کر آج تک پاکستانی اور کشمیری حکومتیں شیخی خورے کی طرح شیخیاں تو بگھارتی رہیں لیکن تحریک آزادی کشمیر کو اس کے اصل تناظر میں کبھی بھی پروان نہ چڑھایا گیا کشمیر کی آزادی کے مسئلے کو کبھی تو دوہمسایہ ممالک بھارت اور پاکستان کے درمیان ایک سرحدی تنازعے کے طورپر لوگوں کے سامنے رکھا گیا اور کبھی اسے ایک ملک کی شہ رگ اور دوسرے ملک کی طرف سے اٹوٹ انگ قرار دیا گیا ،کبھی اسے جنگلوں او رزمین کی جنگ کہا گیا اور کبھی گلیشیر ز اور دریاﺅں کی جنگ کا عنوان دے دیا گیا کشمیر نہ تو زمین کی جنگ ہے اور نہ پانی کی مسئلہ کشمیر کی اصل حقیقت یہاں کے رہنے والے باسیوں سے پوچھنا ہوگی کشمیر ی ہی کشمیر کے مستقبل کا فیصلہ کرنے کا پہلا اور آخری حق رکھتے ہیں آخر اس کی کیا وجہ ہے کہ بھارت کے زیر انتظام مقبوضہ کشمیر میں سہولیات اور ترقیاتی منصوبوں کو اتنا بڑا انفراسٹرکچر کھڑا کیا گیاہے کہ دیکھ کر آنکھیں دنگ رہ جاتی ہیں باوجود اس کے کہ کشمیری بھارتی غاصبانہ قبضے اورتسلط کے خلاف 63سال سے برسرپیکار ہیں بھارتی انتظامیہ کی جانب سے انہی باغیوں کو مراعات دینے کیلئے ہر سال نت نئے پلان بنائے جاتے ہیں اگرچہ آواز حریت بلندکرنے والے ایک لاکھ سے زائد کشمیریوں کو بھارتی افواج شہید کرچکی ہیں ،لاکھوں کشمیریوں کو تشد دکا نشانہ بنایا گیا اور انگنت عورتوں اور بچیوں کو جنسی تشدد کا شکار کیا گیا یہ سب سلوک ”صرف اور صرف آزادی “کی بات کرنے والے جانثاروں کے ساتھ روا رکھا گیا لیکن اگر ہم ”سمجھوتہ ایکسپریس “کے مسافروں کی جانب دیکھتے ہیں تو فاروق عبداللہ سے لے کر عمر عبداللہ تک تمام مسافروں پر بھارت کی طرف سے انعام واکرام کی بارشوں کا سلسلہ گزشتہ کئی دہائیوں سے جاری وساری ہے ۔

قارئین اگر اسی صورت حال کو ذہن میں رکھتے ہوئے ہم پاکستانی زیر انتظام آزادکشمیرکو دیکھتے ہیں تو ایک مشفق اور مہربان بڑا بھائی دکھائی دیتا ہے جو کشمیریوں کی مدد کیلئے ہر وقت کمر بستہ ہے ،جس نے لاکھوں کشمیری مہاجرین کو اپنے دامن میں پناہ دی ہے ،جس نے کشمیریوں کی آزادی کیلئے اقوام متحدہ سے لے کر دنیا کے ہر فورم پر آواز بلند کی ہے پاکستان کی یہ تمام کوششیں کشمیریوں کو دکھائی دیتی ہیں لیکن یہ بھی کشمیر ی دیکھ رہے ہیں کہ 63سالوں کے دوران جب بھی پاکستان میں کوئی سیاسی یا عسکری تبدیلی آئی اس کے براہ راست اثرات کشمیریوں اور تحریک آزادی کشمیر پر پڑتا رہا قائد اعظم محمد علی جناحؒ سے لے کر سابق ڈکٹیٹر جنرل مشرف کی حکومت دیکھ لیں فرق صاف پتہ چل جائے گا ۔

سب سے بڑے افسوس کی بات تو یہ ہے کہ ہمارے پالیسی ساز نجانے کس دنیا میں رہ کر تحریک آزادی کشمیر کیلئے پالیسیاں تیار کرتے ہیں اور کیسے کیسے بلنڈرز کرتے ہوئے بندروں کی طرح الٹی قلابازیاں بھی لگائی جاتی ہیں ۔

اس وقت آزادکشمیر 1971ءکے ایکٹ اور 1974ءکے آئین کی روشنی میں ”ڈیفکٹو سٹیٹ “کی حیثیت رکھتا ہے جبکہ گلگت بلتستان کو پاکستانی جمہوری حکومت نے آئینی آزادیوں کے نام پر جس موجودہ حیثیت سے نوازاہے اس سے کشمیر کی آزادی کے موقف کو بین الاقوامی براداری کے سامنے رکھنے میں کنفیوژن پیدا ہوسکتی ہے اس حوالے سے نئے سرے سے کام کرنے کی ضرورت ہے ۔

قارئین ہم بلامبالغہ یہ سمجھتے ہیں کہ اگر اقوام متحدہ کی قرار دادوں کے تناظر میں مسئلہ کشمیر کو دیکھا جائے تو یہ انتہائی سادہ مسئلہ ہے ان قراردادوں میں تین واضح نکات ہیں کہ بھارت کشمیر سے اپنی فوجیں نکال لے ،پاکستان کشمیر سے اپنی فوجیں نکال لے ،کشمیری استصواب رائے کے ذریعے فیصلہ کریں کہ وہ کیا چاہتے ہیں ۔

بدقسمتی سے پاکستان میں بھی وہ لابیزموجودہیں کہ جو غلطیاں کرکے اور کروا کے کشمیرکیس کو الجھانے کا سبب بن رہی ہیں انہی غلطیوں میں سے ایک انتہائی سنگین غلطی کشمیرکو ڈیفکٹوسٹیٹ قرار دینا ہے ۔

بقول غالب ان تمام غلطیوںپر بے ساختہ لب پر یہ بات اشعار کی شکل میں آتی ہے ۔
میں انھیں چھیڑوں اور کچھ نہ کہیں
چل نکلتے جو مے پیئے ہوتے
قہر ہو یا بلاہو،جو کچھ ہو
کاش کے تم مرے لیے ہوتے
میری قسمت میں غم گر اتنا تھا
دل بھی یارب !کئی دیئے ہوتے
آہی جاتا وہ راہ پر غالب
کوئی دن اور بھی جئے ہوتے

سابق صدر آزادکشمیر سردار انور اور سابق جسٹس منظور حسین گیلانی نے گزشتہ دنوں ایک چینل پر ٹاک شو کے دوران آزادکشمیر کی موجودہ ڈیفکٹوحیثیت پر گفتگوکرتے ہوئے اس میں تبدیلی کو ضروری قرار دیا ۔

قارئین یہاں ایک اور بات سوچنے سے تعلق رکھتی ہے کہ ”خود مختار کشمیر “کی بات کرنے والے کشمیریوں سے ہماری آزادکشمیر کی حکومتوں اور پاکستانی حکومت کا آج تک کا رویہ کیا رہاہے ان لوگوں کو بھارتی ایجنٹ اور غدار کہہ کر مقدمے بھی چلائے گئے اور ان پر تشدد اور ظلم وستم بھی کیا گیا یہ بات یاد رکھی جائے کہ ہماری پیش گوئی ہے کہ آنے والے وقت میں ”کشمیرکی آزادی اور خودمختار کشمیر “ایک جیسے مطلب رکھنے والے عنوان بن جائیں گے اور اسی موقف کو آج کی تہذیب یافتہ بین الاقوامی برادری سمجھتی ہے اور تسلیم کرتی ہے اس کے علاوہ دیگر آپشنز سیکنڈ اور تھرڈ آپشنز تو ہوسکتے ہیں لیکن پہلا حل یہی ہے کہ کشمیری اپنے مستقبل کا فیصلہ خود کریں ۔

آخر میں حسب روایت لطیفہ پیش خدمت ہے کہ
ایک عرب شیخ نے اپنے گھر فون کیا او ردوسری طرف سے ہیلو کی آوازآئی تو عرب شیخ نے معصومانہ سوال کیا
”بیگم میں تمہارا شوہر بول رہاہوں ،تم کون سی والی بیگم بول رہی ہو ۔۔۔؟“

قارئین ہم اپنے بڑے بھائی پاکستان سے یہ امید رکھتے ہیں کہ وہ کشمیرکی آزادی کے حوالے سے اپنا موقف بار بار تبدیل نہ کرے ورنہ ہم بھی معصومیت سے یہ پوچھ بیٹھیں گے کہ اب آپ کون سا والا موقف پیش کررہے ہیں ۔۔۔؟
Junaid Ansari
About the Author: Junaid Ansari Read More Articles by Junaid Ansari: 425 Articles with 342375 views Belong to Mirpur AJ&K
Anchor @ JK News TV & FM 93 Radio AJ&K
.. View More