تبدیلی والی سرکار‘ ویلڈرز والی عینک اور خاتون کی افسران کو دھمکیاں

وزیراعلی خیبر پختونخواہ کی وزارت کھیل بھی ہے جہاں پر سب سے زیادہ انہی کے پارٹی سے تعلق رکھنے والے ممبران اسمبلی نے اپنے بندے بھرتی کئے ہیں اور یہ اتنے مخلص کارکن ہیں کہ ملازمت کی پروا نہ کرتے ہوئے ملازمتی قوانین کی پاسداری بھی نہیں کرتے اورسیاسی پارٹی کے دھرنوں تک میں شرکت کرتے ہیں اور اس کیلئے باقاعدہ چھٹیاں کرتے ہیں اور ان سے پوچھنے والا کوئی نہیں
پاکستان کی تقریبا ہر سیاسی پارٹی کی یہ ریت ر ہی ہے کہ وہ اپنے ہر کام کو بہتر سمجھتے ہیں اور ان کے کارکن اپنے ہر کام سیاسی طور پر کرنا چاہتے ہیں.جس کی وجہ سے اب صورتحال یہ بن گئی ہیں کہ ہر شعبہ زندگی میں سیاست گھس آئی ہے اور اسی سیاست نے نہ صرف میرٹ کا بیڑہ غرق کردیا ہے بلکہ کرپشن کی ایک نئی راہ بھی نکل آئی ہیں - خیبر پختونخواہ میں تبدیلی والی سرکار بھی ان تمام سیاسی پارٹیوں کی طرح اپنے من پسند افراد کو نوازنے کی پوری کوششوں میں مصروف عمل ہے‘ اور اس کی صرف ایک مثال وزیراعلی خیبر پختونخواہ کی وزارت کھیل بھی ہے جہاں پر سب سے زیادہ انہی کے پارٹی سے تعلق رکھنے والے ممبران اسمبلی نے اپنے بندے بھرتی کئے ہیں اور یہ اتنے مخلص کارکن ہیں کہ ملازمت کی پروا نہ کرتے ہوئے ملازمتی قوانین کی پاسداری بھی نہیں کرتے اورسیاسی پارٹی کے دھرنوں تک میں شرکت کرتے ہیں اور اس کیلئے باقاعدہ چھٹیاں کرتے ہیں اور ان سے پوچھنے والا کوئی نہیں.خیر یہ تو اب ایک عام سی بات ہوگئی ہے کہ ہر بندہ مخصوص طریقے سے اپروچ کرکے اپنے آپ کو فیض یاب کرنے کی کوشش کرتا ہے..وقت کیساتھ بہت ساری چیزیں تبدیل ہو کر رہ گئی ہیں تبدیلی والی سرکار کے آنے سے پہلے ہمارے ہاں کی نیم ایلیٹ کلاس کی خواتین ویلڈر کی رنگین عینک پہن کر گھومتی تھی اب ہمارے صوبہ خیبر پختونخواہ میں اتنی تبدیلی آگئی ہیں کہ اب خواتین کیساتھ مرد بھی ویلڈرز والی عینک پہننے لگے ہیں اور اچھے خاصے بھلے لوگ بھی "وخ تانانا بن کر"پھرتے ہیں اگر کسی کو یقین نہیں آتا تو پشاور سپورٹس کمپلیکس میں شام کے اوقات میں جا کر دیکھ لیں.انداز ہو جائے گا کہ اپنے آپ کو منفرد کرانے کے چکر میں کتنے بڑے نامی گرامی لوگوویلڈرز والی عینک پہن کرکیسے پھرتے ہیں.

بات کہیں اور نکل گئی کچھ عرصہ قبل پشاور میں پاکستان سطح کے ایک مقابلوں کا انعقاد کیا گیا جو ایک مخصوص تنظیم کی جانب سے کیا گیا تھا صوبائی حکومت کے ایک مخصوص وزیر بھی ان مقابلوں میں آئے تھے اور انہی کے ایک پارٹی سے تعلق رکھنے والے شخصیت کے کہنے پر صوبائی سپورٹس ڈائریکٹریٹ نے بالا ہی بالا انہیں کم و بیش پندرہ لاکھ روپے گرانٹ اینڈ ایڈ کی مد میں دئیے.حالانکہ یہ اس تنظیم کا صرف ایک مقابلہ تھا اور اس سے قبل کوئی مقابلے پشاور یا صوبے کی سطح پر نہیں کروائے گئے لیکن چونکہ ایک پارٹی ورکرز نے صوبائی وزیر سے رابطہ کیا اور فون کال آئی تو پندرہ لاکھ روپے متعلقہ ایسوسی ایشن کو دئیے گئے جبکہ ان کے ساتھ دوسرے ایسوسی ایشن جنہوں نے سال کے دوران کم و بیش تین چار بڑے صوبائی سطح کے پروگرام کئے انہیں کوئی گرانٹ نہیں دی گئی اور اس بارے میں صوبائی سپورٹس ڈائریکٹریٹ نے موقف اپنایا کہ چونکہ ہم دوسرے ایسوسی ایشن کو رقم دے چکے ہیں اس لئے ابھی آپ کو گرانٹ اینڈ ایڈ نہیں دے سکتے‘ حالانکہ مزے کی بات یہی ہے کہ اس سے قبل دو ایسوسی ایشن میں برابر کی بنیاد پہ گرانٹ اینڈ ایڈ کی رقم صوبائی سپورٹس ڈائریکٹریٹ تقسیم کرتی تھی.لیکن اس سال یہ رقم ایک صوبائی وزیر کے کہنے پر ان کے چہیتے گروپ کو دیدی گئی‘ اب متعلقہ دوسرا گروپ عدالت کے ذریعے صوبائی سپورٹس ڈائریکٹریٹ کو اس معاملے میں فریق بنائے گا. یہ تو آنیوالے وقت میں پتہ چلے گا کہ کیا ہوگا لیکن.

سوال یہ ہے کہ ایسوسی ایشنزکیلئے قانونی معیار کیا ہے‘ کیا سپورٹس ڈائریکٹریٹ کے ساتھ منسلک ہونا ضروری ہے‘ فیڈریشن کیساتھ منسلک ہونا ضروری ہے‘ پاکستان اولمپک کیساتھ رجسٹریشن ضروری ہے یا پاکستان سپورٹس بورڈ کیساتھ الحاق ضروری ہے‘ یہ ایسی چیزیں ہے کہ مختلف ایسوسی ایشنز نے اپنے رولز بنائے ہیں‘ حالانکہ ایسوسی ایشن سوشل ویلفیئر ڈیپارٹمنٹ کیساتھ رجسٹرڈ ہوتے ہیں لیکن یہ خیبر پختونخواہ کا اعزاز ہے کہ سوشل ویلفیئر ڈیپارٹمنٹ کیساتھ کوئی بھی ایسوسی ایشن رجسٹرڈ نہیں لیکن پھر بھی وہ لاکھوں روپے گرانٹ اینڈ ایڈ کی مد میں لے جاتے ہیں. حتی کہ چند مخصوص افراد اور سرکاری ملازمین پر مشتمل کھیلوں کی کوریج کرنے والی نام نہاد تنظیم بھی اس بہتی گنگا میں سالانہ چھ لاکھ روپے لیکر اپنی صفائی کررہی ہیں اور کوئی پوچھنے والا ہی نہیں.

پوچھنے پر یاد آیا گذشتہ روز تبدیلی والی سرکار سے تعلق رکھنے والی ایک خاتون ورکرنے وزیراعلی خیبرپختونخوا کی وزارت میں کام کرنے والے چند افسران سے میٹنگ کی اور مطالبہ کیا کہ گرمیوں کے سیزن میں نمودار ہونے والے ایک ایسوسی ایشن کو سالانہ گرانٹ اینڈ ایڈ دی جائے چونکہ جون کا مہینہ ہے اور اس مہینے گرانٹ اینڈ ایڈ جاری ہوتے ہیں اس لئے متعلقہ ایسوسی ایشن جسے فیڈریشن نہیں مانتی کیونکہ ان کے بقول متعلقہ ایسوسی ایشن نے فیڈریشن کے قوانین کے مطابق انتخابات نہیں کروائے اس لئے اس کی کوئی قانونی حیثیت نہیں جبکہ متعلقہ ایسوسی ایشن نے عدالت سے فیڈریشن کے خلاف کیس کیا ہے کیس عدالت میں چل رہا ہے ان حالات میں جب متعلقہ ایسوسی ایشن کو فیڈریشن نہیں مانتی ایسے میں گرانٹ اینڈ ایڈ ملتا ہی نہیں کیونکہ کیس بھی عدالت میں زیر سماعت ہے ان حالات میں تبدیلی والی سرکار کی ایک خاتون ورکر پشاور کے ایک صوبائی وزیر کا نام لیکر متعلقہ افسران کو دھمکا رہی تھی کہ یا تو فنڈز دو پانچ لاکھ روپے ورنہ میں متعلقہ وزیر کو بڑھا چڑھا کر شکایت کرونگی.اور صوبائی سپورٹس ڈائریکٹریٹ کے افسران انہیں بتا رہے تھے کہ قوانین کے برخلاف وہ کچھ کر بھی نہیں سکتے اس لئے ان سے یہ غیر قانونی کام نہ کروایا جائے‘ لیکن خاتون یہ بتاتی ہے کہ متعلقہ ایسوسی ایشن کا عہدیدار تبدیلی والی سرکار کو سپورٹ کرتا ہے اس لئے انہیں ہر حال میں فنڈز دیا جائے آخر کارایک افسر جنہیں خاتون نے بہت زیادہ تنگ کیا اور ان پر ذاتی جملے بھی کسے. متعلقہ افسر نے یہ کہہ کر جان چھڑائی کہ میرے پاس اس کا اختیار نہیں‘ تین رکنی کمیٹی ہے اس کے پاس جائے میرا دماغ کھانے کی ضرورت نہیں.یہ تو ایک طرف کی صورتحال ہے..

دوسری طرف جس وزیر کا نام لیکر متعلقہ خاتون افسران کو دھمکا رہی تھی اس وزیر نے اس معاملے سے مکمل بریت کا اظہار کیا اور کہا کہ میری خواہش ہے کہ کھیلوں کی سرگرمیاں پشاور میں جاری رعیں اور میں ڈی جی سپورٹس سے اس معاملے میں بات بھی کرتا ہوں لیکن پہلے یہی کہتا ہوں کہ قانون کے مطابق ہی کام چلے اور اگر کوئی میرا نام لیکر کسی کو دھمکاتا ہے تو یہ غلط ہے اور میرا اس معاملے سے کوئی تعلق ہی نہیں.یہ صوبائی وزیر کا موقف ہے‘ اب اس میں کتنی حقیقت ہے یہ تو اللہ ہی جانتا ہے لیکن ایک بات کنفرم ہے کہ تبدیلی والی سرکار بھی سابقہ حکمرانوں کی طرح من پسند افراد کو نوازنے پر تلی ہوئی ہیں اور خصوصا کھیلوں کی صوبائی وزارت میں‘ یہ الگ بات کہ کچھ معاملات اندرون خانہ طے ہوتے ہیں اور کچھ باہر ہی باہر‘ یہ معاملات صاف ہوتے ہوئے بھی صاف و شفاف نہیں ہوتے‘ اور اس میں وقت کیساتھ بہت کچھ صاف نظر آنے لگتا ہے.لیکن کیا کیجئے کہ صاحب لوگ ان معاملات پر بات کرنے اور لکھنے کو منفی انداز سمجھتے ہیں حالانکہ کرینگے‘ ہو جائیگا والی خبروں سے زیادہ لوگ اس بات میں دلچسپی لیتے ہیں کہ اندرون خانہ ہو کیا رہا ہے.. اور ان سے میرٹ کے دعویدار حکمران اور بیورو کریٹ کرتے کیا ہیں ویسے بھی یہ نظر آتے کچھ ہیں اور کرتے کچھ اور ہیں..

Musarrat Ullah Jan
About the Author: Musarrat Ullah Jan Read More Articles by Musarrat Ullah Jan: 590 Articles with 421946 views 47 year old working journalist from peshawar , first SAARC scholar of kp , attached with National & international media. as photojournalist , writer ,.. View More