کھیل ، پریکٹس اور ٹھیکیداری نظام

ان حالات میں جب پریکٹس کیلئے صبح و شام کی ڈوز ہو ، کمپلکیس میں داخلے کیلئے ادائیگی ہو ، سپورٹس کا سامان مہنگا ہو اور کھیلوں کے شعبے میں ہفتے اور اتوار کی چھٹی ہو حالانکہ ہفتے اور اتوار کے روز سب سے زیادہ بچے کھیلوں کی پریکٹس کرتے نظر آتے ہیں لیکن ان پر پریکٹس کیلئے کمپلیکسز کے دروازے بند ہوں ، چند مخصوص کھیل سب کھیلوں پر حاوی ہوں ، کیونکہ سپورٹس ڈیپارٹمنٹ کے ملازمین کو چھٹی چاہیے ، وہ اس ڈیپارٹمنٹ میں سپورٹس کے پروموشن کومشن کے بجائے ملازمت سمجھتے ہیں اور وہ کھیلوں کی ترقی اپنی طریقے سے چاہتے ہیں جیسے کہ پشتومثل کے مصداق " شپیلئی ھم وھی او ستوان ھم خوری " یعنی ستو کھانا بھی چاہتے ہیں اور ساتھ میں سیٹیاں مارنا بھی چاہتے ہیں. وہ سمجھتے ہیں کہ ان کے جانے کے بعد اب ان کے بچوں اس ڈیپارٹمنٹ پر حق ہے جس کیلئے وہ بہت کچھ کرتے ہیں تو ایسے میں تو لازما ایک چیز تو گرے گی

انگریزی زبان کا ایک محاورہ جس کے معنی کچھ یوں ہیں کہ کوئی جتنا زیادہ کسی چیز کی پریکٹس کرتا ہے اتنے ہی وہ اس شعبے میں ماہر ہوجاتا ہے.اور یہی حقیقت ہے کسی بھی شعبے کو دیکھ لیں ، جو جتنا زیادہ محنت کرتا ہے جو زیادہ اپنے شعبے میں مخلص ہے وہ نہ صرف اپنے شعبے میں ماہر بن جاتا ہے بلکہ اس کی عزت و شہرت بھی اسی شعبے کی وجہ سے ہوتی ہے.دوسرے شعبوں کی طرح کھیلوں کے میدان کی بھی یہی خاصیت ہے کہ کوئی بھی کھلاڑی جتنا زیادہ پریکٹس کرتا ہے اتنا ہی اس کا کھیل نکھرتا ہے لیکن ..یہ پریکٹس بغیر کسی تعطل اور لگاتار ہونی چاہیے تبھی فائدہ دیتی ہے ورنہ دوسری صورت میں اس پریکٹس کا اتنا فائدہ نہیں ہوتا .کم و بیش آج سے تین ، چار دہائیاں قبل کھیلوں کے مختلف شعبوں میں پاکستانی کھلاڑی چھائے ہوئے تھے ، سکواش سے لیکر ہاکی ، کرکٹ ، ٹیبل ٹینس سمیت مختلف کھیلوں کے کھلاڑیوں نے محنت کی لگاتا ر پریکٹس کرتے رہے اور اسی محنت کا اللہ تعالی نے انہیں بدلہ بھی دیا کہ دنیا بھر میں انہیں پذیرائی ملی . آج سے تیس و چالیس سال قبل کے کھلاڑی لیجنڈ کھلاڑی مانے جاتے ہیں.

اپنے شعبے کے ماہر ان کھلاڑیوں میں بیشتر نے غربت سے نکلنے کیلئے کھیل کا سہارا لیا اور اپنے عزم سے نہ صرف اپنی تقدیر کو بدلنے میں کامیاب ہوگئے بلکہ و ملک و قوم کا نام بھی روشن کر گئے ، ان میں بیشتر ایسے تھے جن کے پاس اس وقت شوز بھی نہیں ہوتے ، کٹس کا تصور بھی ایک بہت بڑی عیاشی ہوتی اور لنڈے میں ملنے والے ٹی شرٹس اور نیکر پہن کر انہوں نے پریکٹس کی مسلسل کرتے رہے اور آ گے آتے رہے. اس وقت اتنی سہولیات بھی نہیں ہوا کرتی تھی سپورٹس کے شعبے میں اتنے ملازمین بھی نہیں ہوتے ، اتنا پیسہ بھی انوالو نہیں تھا ، نہ ہی اتنی انعامی رقوم ملتی تھی لیکن پھر بھی وہ کھلاڑی ٹاپ پررہے وجہ یہی تھی کہ وہ مسلسل اور بلاتاخیر پریکٹس کرتے تھے ان کے ذہن میں انعام ، سہولیات نہیں ہوتی بلکہ اپنے آپ کو آگے لانے کی دھن سوار ہوتی تھی . لیکن ان سب چیزوں کیساتھ ایک بڑی چیز یہ بھی تھی کہ اس وقت سپورٹس کو انڈسٹری کا نام نہیں دیا گیا تھا اس وقت سپورٹس کی وزارت کے زیر انتظام گرائونڈ نہیں ہوا کرتے تھے نہ ہی کسی کے کھیلنے پر پابندی ہوتی تھی کہ کس وقت کھلاڑی نے کھیلنا ہے اور کس دن کھیلنا ہے اور کتنا کھیلنا ہے ، کھلاڑیوں کو ان کا کھیل سے جنون ہی آگے لے آتا تھا. قبل ازیں کھیلوں کی وزارت میں اگر کوئی وزیر بھی آتا تو وہ لازما کھیلوں سے آگاہی رکھتا ، اسی طرح کھیلوں کی وزارت میں کام کرنے والے بھی کھیلوں کے شوقین ہوا کرتے تھے .

لیکن جب سے سپورٹس کے شعبے کو انڈسٹری کا درجہ دیا گیا ہے ، اسے ایک ڈیپارٹمنٹ کے حوالے کیا گیا اور اس میں ملازمین کی تعداد بڑھتی گئی اتنا ہی کھیل زوال پذیر ہوتا گیا ،وجہ اس کی بنیادی یہی ہے کہ انڈسٹری بننے کے بعد اب ٹھیکیداری نظام اس میں شامل ہے ، گرائونڈ بننے سے لیکر کسی بھی کھیل کے انتظامی امور اور اسے میدان میں لانے میں پیسہ انوالو ہے ، پیسہ جو ہر ایک کی بنیادی ضرورت بھی ہے جس سے کسی کو انکار نہیں لیکن اسی پیسے کی مار نے نہ صرف سپورٹس کے شعبے کو برباد کردیا بلکہ کھلاڑی سے لیکر سپورٹس کے شعبے سے وابستہ ہر شخص نے اسے کمائی کا ذریعہ بنا دیا ہے ، ایک زمانے میں لوگ اپنے پرانے سپورٹس شوز اپنے ساتھیوں کو دیا کرتے تھے کہ جو لوگ کمزور اور غریب ہیں ان کا کھیل بہتر ہو لیکن اب فیلڈ میں ایسا سوچنا بھی اور خصوصا ہمارے خیبر پختونخواہ میں ناممکن ہے. ہر ایک کھلاڑی صرف اپنے سوچ میں مگن ہے اور اسی سوچ کی بناء پر دوسروں پر توجہ نہیں دے رہا.جب سے سپورٹس کا شعبہ ڈیپارٹمنٹ وسیع سے وسیع تر ہوتا گیا ایسے ہی کمائی کے نئے نئے طریقے شروع کئے گئے.

آج سے تیس چالیس سال قبل کسی بھی گرائونڈ کھیلنے کیلئے آنے والوں کو خوش آمدید کہا جاتا تھا کہ نوجوان مثبت سرگرمیوں کی طرف آتے ہیں اس وقت بھی گرائونڈ کیلئے مالی ہوا کرتے تھے ، اس وقت کوئی خاص دورانیہ نہیں ہوتاتھا کہ کس وقت گرائونڈ میں آنا ہے اور کس وقت نہیں آنا ، صبح و شام بچے پریکٹس کرتے ، خصوصا جمعے کے دن سب سے زیادہ لوگ پریکٹس کرتے ، کیوں کہ ان دنوں جمعے کی چھٹی ہوا کرتی تھی بچوں کو جب بھی موقع ملتا ، کسی بھی کھیل کی پریکٹس کرتے نظر آتے ان میں فٹ بالرز سے لیکر ہاکی کے کھلاڑی پیدا ہو گئے . وہ سخت گرمی میں بھی پریکٹس کرتے تھے تبھی ان کا سٹیمنا بھی زیادہ ہوتا..

جبکہ اب سپورٹس کمپلیکسز میں داخلے کیلئے کسی بھی بچے کو ماہانہ فیس کی ادائیگی کرنی پڑتی ہے ٹیبل ٹینس ، بیڈمنٹن ، اتھلیٹکس سکواش سمیت کسی بھی کھیل میں داخلے کیلئے فیس ادا کرنی پڑتی ہے کیونکہ سرکار کی کمائی بھی اس شعبے سے ہیں ، اب اگر کسی نے بہتر پریکٹس کرنی ہے تو پھر اسے اپنے متعلقہ کوچز کو علیحدہ سے چار سے پانچ ہزار روپے ادائیگی کرنی ہے اور یہ سلسلہ کوئی ڈھکا چھپا بھی نہیں بلکہ کم و بیش تمام کھیلوں میں عمومی ہے کیونکہ پریکٹس اگر زیادہ کرنی ہے تو پھر کھلاڑیوں کو ماہانہ ادائیگی الگ سے کوچز کو کرنی بھی ہوگی ورنہ پھر ڈاکٹر کی دوائی کی طرح صبح و شام کی پریکٹس کی ڈوز ہوتی ہے.اس ڈوز سے کوئی کیا کھلاڑی بنتا ہے بس پریکٹس ہوتی ہے اور وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ کوئی نامور کھلاڑی نہیں نکل سکتا. اس کی بنیادی وجہ یہی ہے کہ جن کے پاس پیسہ ہے وہی لوگ سپورٹس کمپلیکسز میں کھیلنے کیلئے آتے ہیں جن کے پاس پیسہ نہیں بنیادی سہولیات کی کمی ہے وہ خاک سپورٹس کمپلیکسز میں کھیلنے کیلئے آئیں گے دوسری بڑی وجہ سپورٹس کے شعبے سے وابستہ افراد بشمول سپورٹس ڈیپارٹمنٹ کے ملازمین نے اسے کمائی کا ذریعہ سمجھا ہوا ہے کسی کو یقین نہیں آتا تو سپورٹس سے وابستہ کسی بھی شخص کے اثاثے دیکھ لیں ، خْواہ وہ سپورٹس سے وابستہ صحافی ہوں یا ملازم ہوںجب اس شعبے میں آئے تھے تو ان کی اوقات کیا تھی اور اب ان کی اوقات کیا ہے یا ڈی ایم جی ، پی ایم ایس یا پی اے ایس افسران جو اس ڈیپارٹمنٹ میں آنے کیلئے سر تن اور من کی بازی لگاتے ہیں..کیونکہ اس ڈیپارٹمنٹ میں پیسہ سب سے زیادہ حکومت لگا رہی ہے..

ان حالات میں جب پریکٹس کیلئے صبح و شام کی ڈوز ہو ، کمپلکیس میں داخلے کیلئے ادائیگی ہو ، سپورٹس کا سامان مہنگا ہو اور کھیلوں کے شعبے میں ہفتے اور اتوار کی چھٹی ہو حالانکہ ہفتے اور اتوار کے روز سب سے زیادہ بچے کھیلوں کی پریکٹس کرتے نظر آتے ہیں لیکن ان پر پریکٹس کیلئے کمپلیکسز کے دروازے بند ہوں ، چند مخصوص کھیل سب کھیلوں پر حاوی ہوں ، کیونکہ سپورٹس ڈیپارٹمنٹ کے ملازمین کو چھٹی چاہیے ، وہ اس ڈیپارٹمنٹ میں سپورٹس کے پروموشن کومشن کے بجائے ملازمت سمجھتے ہیں اور وہ کھیلوں کی ترقی اپنی طریقے سے چاہتے ہیں جیسے کہ پشتومثل کے مصداق " شپیلئی ھم وھی او ستوان ھم خوری " یعنی ستو کھانا بھی چاہتے ہیں اور ساتھ میں سیٹیاں مارنا بھی چاہتے ہیں. وہ سمجھتے ہیں کہ ان کے جانے کے بعد اب ان کے بچوں اس ڈیپارٹمنٹ پر حق ہے جس کیلئے وہ بہت کچھ کرتے ہیں تو ایسے میں تو لازما ایک چیز تو گرے گی .بس یہی صورتحال سپورٹس ڈیپارٹمنٹ کی بھی ہے کہ یا تو کمائی ہو ، ملازمت ہو یا پھر کھلاڑی پیدا ہوں ، اور سچی بات یہ ہے کہ سپورٹس ڈیپارٹمنٹ کو اس سے کوئی غرض نہیں کہ کھلاڑی پیدا ہورہا ہے یا نہیں انہیں تنخواہیں مل رہی ہیں بھلے سے کوئی بھاڑ میں جائے.

کیا اس وزارت کے کرتا دھرتا ہفتے اور اتوار کی چھٹیاں ختم کرکے برائے نام انٹری فیس کمپلکیس میں لاگو کرنا چاہیں گے کہ نوجوانوں میں مثبت سرگرمیوں کو فروغ ملے.زیادہ سے سے زیادہ کھیلوں کے میدان آباد ہوں تبھی نوجوانوں میں منشیات کے بڑھتے ہوئے رجحان کو بھی کم کیا جاسکے گا اور اس سے مختلف شعبوں میں نمایاں کھلاڑی بھی سامنے آسکیں گے. ساتھ میں وزات کے کھیل سے وابستہ وزاء کو بھی اپنے علاقائی سوچ سے نکلنے کی ضرورت ہے کہ تمام تر سہولیات اور پروگرام صرف اسی علاقے میں ہوں جہاںسے متعلقہ وزیر کا تعلق ہو کیا دوسرے علاقوں کے لوگ سپورٹس کی وزارت میں اتنا حق بھی نہیں رکھتے.ان سب پر سوچنے اور عمل کرنے کی ضرورت ہے..

Musarrat Ullah Jan
About the Author: Musarrat Ullah Jan Read More Articles by Musarrat Ullah Jan: 590 Articles with 421973 views 47 year old working journalist from peshawar , first SAARC scholar of kp , attached with National & international media. as photojournalist , writer ,.. View More